Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سماج دشمن…………… محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

پشاور کے شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے بلندوبانگ دعوے تو ہر حکومت نے کئے مگر ان وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کی کسی کو توفیق نہیں ہوئی۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق سرکاری نلکوں اور پائپ لائنوں سے فراہم کیا جانے والا 80فیصد پانی آلودہ اور مضر صحت ہے۔ بیشتر پائپ لائنیں گندے نالوں سے گذرتی ہیں۔ بوسیدہ پائپ لائنیں جگہ جگہ سے لیک ہونے کی وجہ سے نالیوں کی گندگی پینے کے پانی میں شامل ہوکر اسے زہر آلودبنارہی ہے۔ارباب اختیار و اقتدار کی غفلت، لاپرواہی اور فرائض منصبی سے کوتاہی کی وجہ سے غریب عوام یہ آلودہ پانی اور ملاوٹ شدہ، زہر آلود اشیائے ضروریہ استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔صاحب استطاعت لوگ تھوڑی سی احتیاط کرکے سرکاری پائپ لائن کے پانی کی جگہ کچن کا خرچہ گھٹا کر منرل واٹر استعمال کرتے ہیں۔ اب بوتلوں میں بھرے پانی کو ٹیسٹ کرنے پر انکشاف ہوا ہے کہ منرل واٹر بنانے والی 8 کمپنیوں کا پانی مضر صحت اور ناقابل استعمال ہے۔ اس پانی میں آرسینک پایاجاتا ہے۔ جس سے زیابیطس اور جلدی امراض پیدا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ گویا ہم منرل واٹر کی شکل میں پیسے دے کر شوگر اور سکن کی بیماری کے جراثیم خرید رہے تھے۔ فوڈ سیفٹی اتھارٹی نے مضر صحت منرل واٹر تیار کرنے والی تین کمپنیوں کو سیل کردیا ہے جبکہ پانچ کمپنیوں کو اپنا معیار بہتر بنانے کی تنبیہ کی گئی ہے۔ صرف پینے کا پانی نہیں۔ شہر میں ہر چیز دو نمبر ، ملاوٹ شدہ اور نقلی بک رہی ہے جبکہ قیمت ایک نمبر کی وصول کی جاتی ہے۔ خیبر پختونخوا فوڈ سیفٹی اینڈ حلال فوڈ اتھارٹی نے گذشتہ ایک ماہ کے دوران صوبے بھر میں 692سکولوں اور کالجوں کے کینٹینوں اور ٹک شاپس کا معائنہ کیا۔ جہاں صفائی کا انتظام ناقص پایا گیا ۔وہاں مضر صحت اشیائے خوردونوش تیار اور فروخت کی جارہی تھیں۔ ان کے مالکان اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو جرمانے کئے گئے اور انہیں وارننگ دی گئی۔ 235صنعتی یونٹوں کے معائنے کے دوران غیر معیاری اشیاء تیار کرنے پر درجنوں فیکٹریوں پر جرمانے عائد کئے گئے ۔مضر صحت اور نقلی اشیائے خوردنی تیار کرنے والی 102فیکٹریوں اور بیکریوں کو سیل کردیاگیا۔ پانی اور کیمیکل ملا ایک ہزار لیٹر دودھ تلف کردیا گیا۔جبکہ زائد المعیاد ، باسی اور گلی سڑی دس ہزار کلو گرام سے زیادہ سبزیاں، پھل اور دیگر مصنوعات تلف کردی گئیں۔فوڈ اتھارٹی کے چھاپوں کے دوران مزید انکشاف ہوا ہے کہ مشروبات تیار کرنے والی مقامی کمپنیاں انٹرنیشنل برانڈ کے نام اور لیبل استعمال کرکے نقلی مشروبات بنا رہی تھیں اور صوبے بھر میں انہیں سپلائی کیا جاتا تھا۔فوڈ اتھارٹی کی ان کاروائیوں کے خلاف دکانداروں، فیکٹری مالکان اور شیر فروشوں نے احتجاج بھی کیا ہے۔ اور اتھارٹی پر دباو ڈالنے کے لئے دھونس دھمکیوں پر بھی اتر آئے ہیں لیکن اب تک اتھارٹی نے نہایت ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ہے اور سماج دشمنوں کے خلاف اپنا جہاد جاری رکھا ہوا ہے۔یہ بات طے ہے کہ جس طرح چوری چکاری، ڈاکہ زنی، تخریب کاری، دہشت گردی کرنے والے ملک اور معاشرے کے دشمن ہیں اسی طرح اصلی ناموں کے ساتھ نقلی اشیاء بنانے، ملاوٹ کرنے، ذخیرہ اندوزی، گرانفروشی اور مضر صحت اشیاء تیار کرنے اور بیچنے والے بھی سماج دشمن ہیں اور ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ فوڈ سیفٹی اتھارٹی کے سربراہ اور ان کی ٹیم نے اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر سماج دشمنوں کے خلاف جو کاروائیاں شروع کی ہیں۔ وہ قابل تحسین ہیں۔ لیکن اتھارٹی کے پاس اختیارات بہت محدود ہیں۔ وہ صرف چھاپے مار سکتے ہیں۔ اشیاء کے نمونے حاصل کرکے انہیں ٹیسٹ کرواسکتے ہیں۔ جرمانے کرسکتے ہیں کسی فیکٹری کو تین دن کے لئے سیل کرسکتے ہیں اور وارننگ دے سکتے ہیں۔ دو تین ہفتوں بعد دوبارہ چھاپہ ماکر معیار چیک کرسکتے ہیں۔ سماج دشمنوں کا قلع قمع کرنا ہے تو فوڈ سیفٹی اتھارٹی کو پنجاب کی طرز پر مکمل اختیارات دینے ہوں گے تاکہ وہ عوام کی جان و مال سے کھیلنے والوں کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچا سکیں۔ عوام سماج دشمنوں کے خلاف اس جہاد میں فوڈ سیفٹی اتھارٹی کی پشت پر ہیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
10755