Chitral Times

Mar 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

صدا بصحرا ……… رمضانی کی ڈائری……….. ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on
شیئر کریں:

تین دنوں کے اخبارات کی دو کالمی اور تین کالمی سرخیاں پڑھنے کے بعد آپ حیران ہوتے ہیں کہ رمضانی کیا کر رہا ہے ؟ اور کیوں کر رہا ہے ؟ ایک سرخی ہے جنازے کو دفنانے پر جھگڑاچار چچا زاد بھائی قتل دو زخمی ایک اور سرخی ہے بد بخت بیٹے نے سگی ماں کو قتل کر دیا ، ایک اور سرخی ہے بیٹوں نے ملکر سوتیلی ماں کو قتل کر دیا سب سے عجیب سرخی یہ ہے ماں کے جنازے پر آنے والا نوجوان بھائی کے ہاتھوں قتل ہوا ۔ ہر روز اخبارات میں اس نوعیت کی سُرخیاں رمضان المبارک کے پہلے روز ے سے شروع ہوکر دوسرے عشرے کے آخیر تک چلتی ہیں ۔ آپ اس نوعیت کی سفاکی اور بے دردی کی وجہ پوچھیں تو بتایا جاتا ہے رمضان کا مہینہ ہے روزہ میں اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں ؟ کیوں ہوتے ہیں ؟ جواب آئے گا ، بھئی روزے میں انسان جذبات کو قابو نہیں کرسکتا اور دوسری وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ مسلمان کے ساتھ شیطان لگا ہوا ہے کافر کے ساتھ شیطان نہیں ہوتا دونوں باتیں بے ہودہ اور لغو ہیں ۔ دونوں باتوں کی کوئی بنیاد نہیں ۔ روزہ جذبات پر قابو پانے کی مشق ہے ۔ جذبات کو ٹھنڈا کر نے کا ذریعہ ہے ۔ اگر جذبات پر قابو نہیں پاسکتے تو پھر آپ کا روزہ نہیں ہے۔ شیطان کے بارے میں قرآن پاک میں صراحت کے ساتھ آیا ہے کہ شیطان کسی مسلمان کو نہیں ورغلاسکتا ۔ مسلمان سے وہ دور بھاگتا ہے۔ شیطان اُس کو ورغلاتا ہے جو مسلمان نہیں جو شیطان کا دوست ہے۔ مسلمان سے تو شیطان ڈرتا ہے ۔ کم از کم 4آیات کریمہ اور بے شمار آحادیث پاک اس پر دلالت کر تے ہیں۔ شیطان کو مہلت دیتے وقت فرمایا گیا ’’ جاؤ تم میرے فرمان بردار بندوں کو نہیں ورغلاسکتے ‘‘ اس کے بعد ایک اور جگہ فرمایا ’’ بیشک شیطان کا غلبہ اُن لوگوں پر نہیں ہوتا جو ایمان لائے اور اپنے رب پر بھروسہ کرنے والے ہیں ‘‘۔ ایک اور مقام پر فرمایا ’’شیطان کا غلبہ اُ ن لوگوں پر ہے جو نافرمان بنے اور شیطان سے دوستی کرنے والوں میں شامل ہوئے‘‘۔ ایک اور جگہ ارشاد ہوا ’’ ایمان ایک ڈھال ہے جو شیطان سے بچاتا ہے‘‘ رمضانی نے خواہ مخواہ مشہور کر دیا ہے کہ میں روزہ رکھتا ہوں تو شیطان میرے ساتھ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ رمضان میں شیاطین کو قید کیا جا تا ہے۔ اب فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ ہم سچ کہہ رہے ہیں یا اللہ تعالیٰ کافرمان سچ ہے ؟ رمضانی کی ڈائری میں قتل ، اغوا ، ڈکیتی اور چوری کی بڑی وارداتوں کے علاوہ اور بھی کئی وارداتوں کا ذکر ہوتا ہے ۔ رمضانی ذخیرہ اندوزی ، ملاوٹ اور گراں فروشی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا ، جھوٹ ، مکر ، فریب اور فحش گوئی میں طاق ہوتا ہے۔ رمضانی جو ابھی کھیلتا ہے اور سود بھی کھاتا ہے۔ الغرض رمضانی کی ڈائری اُن گناہوں سے بھری ہوئی ہے جو رمضان کے بغیر بھی مسلمان کی شان کے خلاف ہیں سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اگر موجودہ حالات میں پاکستان اور خیبر پختونخوا کے سماجی حالات کا جائزہ لیا جائے تو ہمارے ہاں اخلاقی زوال کی بے شمار وجوہات ہیں۔ چار وجوہات بہت واضح اور صاف نظر آتی ہیں ۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ ہمارا ناقص عدالتی نظام گھریلو جھگڑوں اور دشمنیوں کو ختم کرنے میں ناکام ہوا ہے۔ مقدمات کی طوالت مزید دشمنیوں کو جنم دیتی ہے اور لاقانونیت کو بڑھانے کا سبب بنتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارا مشترکہ خاندانی نظام بکھر چکا ہے ۔ چچا ، ماموں، چچا زاد ، ماموں ، ماموں زاد کے علاوہ سگی ماں، سگے بھائی،سوتیلی ماں ، سوتیلے باپ سوتیلے بھائی کیلئے محبت اور ہمدردی کا جذبہ نہیں رہا اس کو کہتے ہیں خون کا سفید ہونا ۔ گویا خون سفید ہوگیا ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ ہماری سیاست اور صحافت آلودگی سے بھر گئی ہیں۔دونوں میں اخلاقی اقدار کا جنازہ نکل گیا ہے۔ سیاست دانوں کی تقاریر اور ان کے بیانات سے نفرت ، لاقانونیت ، دشمنی ، حسد اور بد امنی کا سبق ملتا ہے۔ اخبارات کی شہ سرخیوں میں قاتل ،ڈاکو ،چور اور اغوا کار کو اہم شخصیت بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔ جیلوں سے ہار پہناکر ان کو گھر لایا جاتا ہے۔ چوتھی وجہ یہ ہے کہ مذہب کا خانہ سیاست کی نذر ہوگیاہے۔سکول ، کالج ، مدرسہ ،دارلعلوم میں اسلامیات کا مضمون اخلاقی تعلیمات کے لئے وقف تھا ۔ گذشتہ 50سالوں میں علمائے کرام نے اسلامیات اور اخلاقی تعلیمات کی جگہ سیاسی پروگرام کو اولیت دی۔ عُرس کی تقریبات، درس و تدریس ،خطبات جمعہ ، جنازہ اور مجالس سیرت کے مواقع پر مواعظ اور اخلاقی درس کی جگہ سیاسی تقاریر ہوتی ہیں ۔ سیاسی تقاریر میں سامعین کو کسی بھی قسم کا مثبت پیغام اور اچھا سبق نہیں ملتا ۔ ذہنی کشمکش اور پرا کند گی میں اضافہ ہوتا ہے۔ بد امنی ، لاقانونیت اور عدم برداشت کا درس ملتا ہے۔ یہ معاشرے کا بہت بڑا نقصان ہے ۔ رمضانی کی ڈائری میں قتل ، اغوا، چوری ، ڈکیتی ، ملاوٹ ، ذخیرہ اندوزی کی خبریں اس لئے ملتی ہیں کہ ہمارے اخلاقی نظام کی بنیاد یں کھوکھلی ہوچکی ہیں۔ اس پر سنجیدگی سے غور ہونا چاہیئے اور اس کا واحد حل یہ ہے کہ سیاست سے توبہ کر کے قرآن و سنت کا دامن تھام لیا جائے ؂
بہ مصطفےٰ برساں خویش راکہ دیں ہمہ اوست
گر باو نہ رسیدی تمام بو لہبی است


شیئر کریں: