Chitral Times

Apr 16, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

’’سچے اور پکے مسلمان‘‘……. محمد عنصر عثمانی ،کراچی

Posted on
شیئر کریں:

رمضان المبارک نیکیوں ، برکتوں کا مہینہ ہے۔لیکن ’’ نیکی کر دریا میں ڈال‘‘ والا محاورہ رمضان میں سچ ہوتا ہوانظر آتا ہے۔ہم لوگ سہولت پسند مسلمان ہیں ۔ہماری عبادت گاہوں میں جوں جوں جدت و آسانیاں ہورہی ہیں ، عبادت گاہوں کا تقدس ، بندگی کا سرور کم ہوتا جا رہا ہے۔ رمضان المبارک اللہ پاک کا عطا کردہ وہ عظیم مہینہ ہے جس میں انسانوں کو اپنی آخرت ذخیرہ کرنے کا سنہری موقع دیا گیا ہے۔مگر سب سے زیادہ نیکیوں کا ضیاع اسی ماہ ہوتا ہے۔
گزشتہ کئی سالوں سے ماہ مقدس کی آمد گرم موسم میں ہو رہی ہے۔عظیم و مستحق جنت ہیں وہ لوگ جو جھلسا دینے والی گرمی میں اپنے رب کے لیے بھوکا پیاسا رہ کر خدا کی خوش نودی کا حصول کرتے ہیں ۔قیام اللیل کرتے ہیں ۔لوگوں سے حسن سلوک محبت و مؤددت سے پیش آتے ہیں ۔صبر و تحمل کا دامن تھامے رکھتے ہیں ۔خلق خدا کی امداد میں لیت و لعل سے کام نہیں لیتے ،اور خالصتاََ حضرت صادق و مصدوق کے حکموں پر سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ رمضان میں ہمیں مساجد میں روح پرور مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔مگر کچھ مناظر ایسے بھی چشمِ عاصیاں کی سکرین سے ٹکراتے ہیں کہ گویا نہ تو ماہ مقدس کے تقدس کا کچھ پاس ہوتا ہے ،اور نہ ہی کہیں سے یہ معلوم پڑتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں ،اور ہمارا دین ہمیں ا خو ت کا زریں سبق دیتا ہے۔
مساجد میں سخت گرمیوں کی وجہ سے کچھ اہل خیرحضرات نے اے سی لگاکر نمازیوں کے لیے عبادت میں درپیش تکلیف کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔یہ بہت اچھی پیش رفت ہے ۔اور عابدین کی عبادتوں میں راحت و سکون پہنچانے کا بہترین عمل ہے ۔ہمارا خیال ہے اس کار خیر میں اضافہ ہونا چاہیے ،اور ملک کی ہر چھوٹی مسجد سے لے کر بڑی جامع مسجد تک اے سی لگے ہونے چاہئیں۔ہماری اس بات سے شاید کچھ ہی تعداد متفق ہو کہ آج کے دور میں ہم نے دیکھا ہے کہ عبادت میں خشوع و خضوع کا غلبہ اس مسجد میں زیادہ آتا ہے، جس مسجد میں اے سی کی سہولت ہو ۔اگر آپ پنج گانہ نماز ی ہیں ،اور سخت گرمی میں کسی ایسی مسجد میں نماز پڑھتے ہیں جہاں اے سی تو دور دوران نماز بجلی غائب ہونے پر جنریٹر تک کا انتظام نہ ہو، تو کیا آپ وہاں سخت گرمی حبس میں نماز مکمل کرپائیں گے ۔اور اگر آپ ایک ایسی جامع مسجد میں نماز پڑھتے ہیں جہاں ٹھنڈی ہوائیں چل رہی ہوں ، بجلی جانے کی صورت میں جنریٹر فی الفور چالو ہو، تو یقیناًآپ کا دل چاہے گا کہ پچھلی قضا نمازیں بھی ادا کردیں۔اور اگر صلوٰۃ التسبیح پڑھنے کا دل چاہے تو آپ ذرا بھی نہیں جھجکیں گے۔
دوسرے ادیان کی عبادت گاہوں میں سہولتوں کا جو معیار ہے ،ہم اس سے کوسوں دور ہیں ۔ہمیں بھی ہماری عبادت گاہوں مساجد ،مدارس کو اعلیٰ اور دور جدیدکی تمام تر سہولیات سے آراستہ کرنے کی ضرورت ہے۔بہت سی چیزوں میں ہم بہت پیچھے ہیں ۔شہر قائد میں بہت سی مساجد ہوں گی کہ جن کے لوڈ سپیکر وں سے بلند ہوتی اذان دوسرے محلے تک بھی نہیں جاتی ہوگی۔ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے ہم ایک دوست کے ہاں افطار میں مدعو تھے۔ وقت افطار میزبان نے دسترخوان لگایا،اور ہم نے اذان کی سماعت کے لیے کان کھڑے کر لئے۔کافی ٹائم جب آذان کی اواز نہ آئی تو ہم نے صاحب خانہ سے قریب مسجد کا پوچھا ۔ان کا کہنا تھا کہ مسجد اسی گلی میں ہے،لیکن آذان کی آوز کا نہ آنا ہمارے لیے بڑا حیران کن تھا۔کتنا ہی بے صبری کا غلبہ ہو ، یا کلنڈر چیخ چیخ کر وقت افطار بتا رہے ہوں کہ اب افطار کر لیا جائے ،ایک مسلمان اللہ کا نام سنے بغیر کیسے اپنا حلق تر کرسکتا ہے۔فقہا ء کرام بھی اجازت مرحمت فرماتے ہیں کہ وقت ہوتے ہی روزہ افطار کر لیا جائے ،لیکن وہ سرور مستی ، وہ راحت و آرام جو اللہ کے نام کے ساتھ روزہ کھولنے میں ہے وہ کہاں ۔آپ اندازہ لگائیں کہ اس چھوٹے سے واقعے سے پورے محلے نے اسی پریشانی کا سامنا کیا ہوگا۔
رمضان المبارک میں رحمتوں ، برکتوں ،نعمتوں کے سمیٹنے کی بجائے ہم چھوٹے چھوٹے مسائل میں الجھ رمضان المبارک کے حقیقی مسرت بھرے لمحات کھو بیٹھتے ہیں۔صاحب ایمان رمضان کا استقبال پر جوش انداز میں کرتا ہے،اور اس سے اپنے ایمان کی روحانی طاقت حاصل کرتا ہے۔بہت سے انسان قبل رمضان، جن گناہوں میں مبتلا ء ہوتے ہیں ،ماہ رمضان آنے کے بعد بھی وہ ان گناہوں کو نہیں چھوڑتے۔آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟ آسان سی مثال سے بات خوبی سے سمجھ آجائے گی کہ جس طرح بجلی جانے کے بعد پنکھے کے پرَ حرکت کرتے ہوئے آہستہ سے رکتے ہیں ۔اسی طرح گناہوں کا جو پنکھا قبل رمضان سے چل رہا تھا ، اسے رکنے میں کچھ وقت تولگے گا۔ اس سے کلی طور پر یہ سمجھ لینا کہ رمضان المبارک کی روحانی طاقت نہیں کہ جس سے انسان گناہوں سے نہیں بچ رہا ،غلط ہے۔
قرآن مجید کا نزول اسی ماہ ہوا ۔کلام پاک ہمیں زندگی کے طور طریقے اورڈھنگ سکھاتا ہے۔ہمارا معیار زندگی عام مہینوں کی نسبت رمضان میں اعلیٰ ہونا چاہئے۔لیکن ماہ مقدس میں ہم اپنی اجتماعی و انفرادی زندگی کے معیار کو ارفع کرنا تو دور مزید پستی کی طرف چلے جاتے ہیں۔بازاروں ، مارکیٹوں میں ایسی کئی مثالیں مل جائیں گیں۔بعض دفعہ تو رحم دلی ، محبت کو پشت کے پیچھے ڈال کر حالت روزہ میں زبان درازیاں کرتے ہیں۔اور مساجد میں باباؤں کے تو کیا کہنے ۔بس تھوڑا طبیعت پر گراں گزرا، اگلے پچھلے سارے جرائم کی پکڑ کر لی جاتی ہے۔اور پھر اس پر کوئی پشیمان بھی نہیں کہ یہ مسجد ہے ۔ اللہ کا گھر ہے ۔اور اس میں دنیاوی باتیں کرنا منع ہے۔ایک جگہ ہم نماز پڑھنے کے لیے رکے ۔عصر کا وقت تھا ۔گرمی کی حرارت باقی تھی ۔مسجد میں اے سی چل رہا تھا ۔ہم سنتوں کے لیے گھڑے ہوئے تو مسجد میں دو باباؤں کا جھگڑا شروع ہوگیا ۔بات اتنی سی تھی کہ مسجد اندر کھچا کھچ بھری ہوئی تھی ۔ایک صاحب نے کہ دیا کہ بھائی! اندر جگہ نہیں ہے ،لہذا آپ اندر نہ آئیں ۔بس اس پر تو تومیں میں کا آغاز ہوا ،کہ ہمیں تو محسوس ہو نے لگا تھا کہ ہم مسلمان بھی ہیں کہ نہیں۔رمضان المبارکا ادب ، مسجد کا ادب ، قرآن مجید کا ، سب سے بڑھ کر ایک مسلمان بھائی کا احترام ۔ائمہ مساجد کے امام صاحبان کو بھی ایسے مسلوں کا نوٹس لیناچاہئے۔اپنے خطبوں میں ،اجتماعی بیانات میں ایسے مسائل پر لوگوں کی گرفت کرنی چاہئے۔اور انہیں سمجھا جانا چاہئے ۔تاکہ ہم سچے پکے مسلمان بنیں ۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
10640