Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

گلگت بلتستان ٹیکس فری زون ہی بہتر رہے گا ۔۔۔۔! ….تحریر: محمد شراف الدین فریا دؔ

Posted on
شیئر کریں:

گزشتہ روز ڈپٹی سپیکر قانون ساز اسمبلی جعفراللہ خان کی صدار ت میں ہونے والے اجلاس میں جب اپوزیشن ممبر ان جاوید حسین اور کاچو امتیاز حیدر کی طرف سے ایک مشترکہ قرار داد اسمبلی میں پیش کی گئی جس میں گلگت بلتستان کو ٹیکس فری زون دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا رکن اسمبلی جاوید حسین نے کہا کہ سی پیک کے تناظر میں گلگت بلتستان کو مکمل فری زون قرار دیا جائے ۔ گلگت بلتستان متنازعہ ہونے کی وجہ سے کسی قسم کا ٹیکس لاگو نہیں کیا جائے تاکہ گلگت بلتستان کے عوام سی پیک سے فائدہ حاصل کر سکیں جی بی کے عوام اورتاجروں کے معیشیت کا دارومدار بارڑر ٹریڈ سے ہے سی پیک کے تناظر میں گوادر پورٹ فری ہوسکتاہے تو گلگت بلتستان کیوں نہیں یہ سیاسی مسلہ نہیں بلکہ پورے گلگت بلتستان کے عوام کا مسلہ ہے ۔ اُنہوں نے کہا کہ وزیر قانون شرارت کرکے قرارداد کو لٹکانا چاہتے ہیں اکثریتی رائے سے قرار داد منظور کی جائے ۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے اپوزیشن لیڈر کیپٹن (ر) شفیع نے کہا کہ اورنگزیب ایڈوکیٹ اور عمران ندیم گلگت بلتستان کے عوام پر ٹیکس لاگو کرنا چاہتے ہیں گلگت بلتستان کے عوام ٹیکس کے نام کے ہی خلاف ہیں صوبائی حکومت نے دوبارہ ٹیکس مسلط کرنے کے لیے سفارشات تیار کر لی ہے۔صرف میں نے دستخظ نہیں کی ہے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے اُنہوں نے گلگت بلتستان کو ٹیکس فری زون بنانے کا مطالبہ کیا ہے ۔ اس موقع پر جواب دیتے ہوئے وزیر قانون اورنگزیب ایڈوکیٹ نے کہا کہ ٹیکس لاگو کرکے سفارشات پر اپوزیشن لیڈر کے دستخط ہے انکم ٹیکس 2012 ؁ء کو ختم کرکے نئے ریفارمز لانے کے لیے ۔ اس موقع پر اپوزیشن رکن نواز خان ناجی نے بھی قرار داد کی حمایت کی اور بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ گوادر کو مصنوعی اہمیت دی گئی ہے ،گلگت نہ ہوتا تو کیا سی پیک واخان سے گزرتا ، گلگت بلتستان سی پیک کا انٹری پوائنٹ نہیں بلکہ شہ رگ ہے ۔بحث میں حصہ لیتے ہوئے کاچو امتیاز حیدر خان نے کہا کہ جب بھی حقوق کی بات کرتے ہیں تو کشمیر کا مسلہ لا کھڑا کیا جاتا ہے ہمیں کشمیر سے کوئی لینا دینا نہیں۔جب تک گلگت بلتستان کو قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی نہیں ملتی کوئی ٹیکس نہیں لگنا چاہیے اُنہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان سے گزرے بغیر سی پیک مکمل نہیں ہوسکتا ۔ چیئر مین پبلک اکاونٹس کمیٹی کیپٹن (ر) صفدر علی خان نے کہا کہ گلگت بلتستان پاکستان کا ایک خوبصورت علاقہ ہے ٹریڈرز کو فری کیا جائے قرار داد کی مکمل حمایت کرتا ہوں ۔ عمران ندیم اور راجہ جہانزیب نے بھی قرار داد کی بھرپور حمایت کی ۔ ایک موقع پر ڈپٹی سپیکر جعفر اللہ خان اور کاچوامتیازحیدر کے مابین سخت جملوں کا تبادلہ ہوا جب کاچو امتیاز بار بار مداخلت کرکے بولنے کے لیے کھڑے ہوگئے تو ڈپٹی اسپیکر نے بیٹھنے کو کہا بار بار مداخلت پر ڈپٹی سپیکر نے کاچو امتیاز کو سخت لہجے میں کہا کہ آپ مجھے ڈکٹیٹ نہیں کرسکتے ٹیکس ہماری غلطی کی وجہ سے لگا ہے میری مرضی ہے میں قرار داد کو منظور کروں یا مسترد۔اس موقع پر میجر (ر) امین سپیکر کے حمایت میں کھڑے ہوئے اور کاچو امتیاز حیدر کو خاموش کرانے کی کوشش کی ، حکومتی بنچز پر بیٹھے ممبران اور وزراء نے بھی قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ سی پیک کے تناظر میں گوادر کو فری زون قرار دیا گیا ہے تو جی بی کو بھی ٹیکس فری زون قرار دیا جائے سی پیک پربڑے بڑے شادیانے بجائے گئے ہیں عوام کو بڑے بڑے خواب دکھائے گئے ہیں تبدیلی محسوس ہونی چاہیے ۔ غلام حسین ایڈوکیٹ نے بھی سوست چیک پوسٹ کی کو شتیال شفٹ کرنے کا مطالبہ کیا شفیق او روزیر تعلیم ابراہیم ثنائی نے بھی قرار داد کی حمایت کی ۔ معاملہ اس وقت بگڑا جب وزیر وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ فیصلے جذباتی اور کاغذو ں میں نہیں ہونی چاہیے گلگت بلتستان کو ٹیکس فری زون بنانا گورننس آرڈر اجازت نہیں دیتا کیا ٹیکس فری زون قرار دیکر ایک بڑی کمیونٹی کو بھی شامل کریں جی بی کے کاروباریوں کے لیے ٹریڈ فری ہونا چاہیے قرار داد پر نظر ثانی کی ضرور ت ہے قانونی پیچیدگیوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے قرار داد پر آئینی او رقانونی ایشوز ہیں اس موقع پر اپوزیشن ممبران کیپٹن شفیع ، کاچو امتیاز اور نواز خان ناجی نے ڈپٹی سپیکر پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آپ اکثریتی رائے پر قانون منظور کریں لیکن ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ ٹیکس جاوید اور کچھ لوگوں کی وجہ سے لگا ہے جو آج شور کررہے ہیں اس وقت یہ گیری کا کاروبار کرتے تھے ہم چاہتے ہیں کہ ٹیکس فری ہو لیکن وفاقی لوگوں کا مال لاکر نہیں ۔ اس موقع پر نواز خان ناجی سخت طیش میں آکر گرما گرم تقریر کرتے ہوئے ایوان سے واک آوٹ کرگئے اس کے ساتھ اپوزیشن کے تمام ممبران بھی اجلاس سے واک آوٹ کر گئے جس پر کورم کی نشاندہی پر ڈپٹی اسپیکر نے اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کیا ٹیکس کے حوالے سے قرار داد کو وزیر تعلیم ابراہیم ثنائی ، اقبال احسن ، عمران ندیم اور کیپٹن (ر) سکندر پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جو اس کا جائزہ لیکر رپور ٹ آئندہ اجلاس میں پیش کرے گی۔
قارئین کرام ! ہمارے اراکین اسمبلی باالخصوص وزیر قانون کو گلگت بلتستان ٹیکس فری زون سے متعلق قرار داد کو ہنگامہ آرائی کے نذر کرنے کے بجائے یہ دیکھنا چاہیے تھا کہ کوئی بھی خطہ جو آئینی حقوق سے محروم ہو اس کے بارے میں بین الا قوامی قوانین کیا کہتے ہیں ۔۔۔؟
بعض اراکین خطہ گلگت کو متنازعہ قرار دے رہے ہیں ہم اس سے بھی اتفا ق نہیں کرتے ہیں کیونکہ تاریخی حقائق کے مطابق گلگت بلتستان کا متنازعہ کشمیر سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے یہ حقائق کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہیں کہ مہاراجاوں نے اس خطے پر زبردستی قبضہ کرکے 1847 ؁ء سے 1935 ؁ء تک اپنا انتظامی تسلط قائم رکھا پھر 1935 ؁ ء تا 02 جولائی 1947 ؁ء تک اس خطے پر برطانوی حکومت کا عمل دخل رہا اور 3 جولائی 1947 ؁ء سے 31 اکتوبر 1947 ؁ء تک برطانوی حکومت کے ساتھ ساتھ کشمیری ڈوگرہ دونوں کا عمل دخل رہا ہے جس سے یہ مطلب نکالنا ہرگز جائز نہیں ہے کہ یہ خطہ کشمیر مہاراجاوں کا تھا وہ لوگ یہاں پر زبردستی قابض ہوئے تھے اور یہاں کے عوام انہیں بے دخل کرکے خود کو آذاد کرایاہے اور 16 نومبر1947 ؁ء کو باضابطہ طور پر پاکستان کے ساتھ الحاق کردیا ہے جب سابق وزیر پاکستان میاں محمد نواز شریف نے اس خطے کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے سرتاج عزیز صاحب کی سربراہی میں جائزہ کمیٹی تشکیل دی تھی تو اس خطے کے عوام میں اُمید کی ایک کرن پیدا ہوگئی تھی مگر یہ ہمارے خطے کی سیاسی قیادت و صوبائی حکومت کی کمزوری ہی قرار دی جاسکتی ہے کہ اُنہوں نے اس موقع سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا اور گلگت بلتستان کو قومی دھارے میں شامل کرانے کے لیے مضبوط تاریخی حقائق کا دفاع نہیں کرسکے ۔ ورنہ کہا جارہا تھا کہ کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں گلگت بلتستان کے تین تین منتخب نمائندوں کو بحیثیت مبصرین قومی اسمبلی اور سینٹ میں جگہ دینے کا فیصلہ ہوا ہے بحیثیت مبصرین اگر اس خطے کو قومی اسمبلی او رسینٹ میں نمائندگی مل جاتی تو یہ آئینی حقوق کے لیے پہلا قدم تصور کیا جاسکتا تھا اس کے بعد اگر گلگت بلتستا ن میں بعض ضروری ٹیکس عائد کیے جاتے تو شاید عوام قبول کرلیتے ۔اب اس خطے کی صورت حال یہ ہے کہ نہ تو آئین پاکستان کے آرٹیکل نمبر 1 میں شامل ہے اور نہ ہی پاکستان کے قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی حاصل ہے پھر اُوپر سے خطے کے عوام پر ٹیکس لاگو کرنا سراسر ناانصافی اور بین الا قوامی قوانین کے خلاف ورزی ہے ۔ بہتر یہی ہوگا کہ جب تک اس خطے کے عوام کو مکمل آئینی حقوق نہیں دیے جاتے تب تک اس خطے کو ٹیکس فری زون ہی قرار دیا جائے ۔ اُمید ہے کہ ٹیکس سے متعلق حکومتی اور اپوزیشن اراکین پر مشتمل جو کمیٹی تشکیل دی گئی ہے وہ ان معاملات کو یک زبان ہوکر متفقہ طور پر حل کرنے کی کوشش کرے گی۔


شیئر کریں: