Chitral Times

Apr 25, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بائولے کا خواب…………..قادر خان یوسف زئی

Posted on
شیئر کریں:

صدر مملکت نے عام انتخابات کی حتمی تاریخ کا اعلان کردیا کہ 25جولائی کو ملک بھر میں پارلیمان کی 849نشستوںکے لیے پاکستانی عوام اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ سوشل میڈیا میں ایک خبر نے مجھے چونکادیا، جو فلپائنی شہری سے متعلق تھی، جو ہر ہفتےکوبرا سانپ سے خود کو ناصرف ڈسواتا تھا بلکہ زہر کی چھوٹی چھوٹی مقدار کے ٹیکے بھی لگاتا تھا۔ 31برس کے فلپائنی نوجوان قولیلان کا دعویٰ ہے کہ اس پر سانپ کے زہر کا اثر نہیں ہوتا کیونکہ سانپوں سے ڈسوانے اور زہر داخل کرنے کے بعد وہ اس سے مدافعت پیدا کرچکا ہے۔ اس نے سال میں سیکڑوں مرتبہ خود کو سانپ سے ڈسوایا ہے اور پانچ مرتبہ مرتے مرتے بچا ہے۔ ایک مرتبہ وائپر نے اس کی انگلی پر کاٹ لیا تھا تو ان کی ایک انگلی کاٹنا پڑی تھی لیکن اس کے باوجود بھی اس نے ہمت نہ ہاری۔ مجھے ایسا لگا کہ زہریلے آدمی اور عام انتخابات میں بہت مماثلت ہے ۔ یہ مماثلت اتفاقی قرار دی جاسکتی ہے۔ حقیقت سے اس کا کوئی تعلق تسلیم نہ کرنا بد قسمتی ہوگی۔ ہم پاکستانی بھی ہر انتخابات میں پرانے چہروں و فرسودہ نظام میںتبدیلی کے نام پر دھوکے میں ووٹ دے کر خود کو ڈسواتے ہیں۔ لسانیت، نسل پرستی، فرقہ واریت اور صوبائیت کی شکل میں زہر کی چھوٹی چھوٹی مقدار کے ٹیکے بھی ہم وقتاً فوقتاً لگواتے رہتے ہیں۔ ہم عوام پر مفاد پرست سیاست دانوں کے بار بار ڈسنے کا کوئی اثر نہیں ہوتا، ہاں کبھی کبھی چکرآجاتے ہیں لیکن زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ سنجیدگی سے سمجھنا ہوگا کہ قصور کوبرا سانپ کے زہر کا ہے یا پھر ہم عوام کے بار بار ڈسوانے کے شوق کا۔۔۔؟
کُج شہر دے لوگ وی ظالم سن
کُج سانوں مرن دا شوق وی سا
مجوزہ انتخابی ضابطۂ انتخابات میں امیدواران کے اخراجات کی حد بھی مقرر کی گئی ہے جس کے مطابق قومی اسمبلی کا امیدوار 40 لاکھ جبکہ صوبائی اسمبلی کا امیدوار20لاکھ روپے سے زیادہ خرچ نہیں کرسکے گا۔ یعنی یہ سرکاری طور پر اخراجات کے لیے قانونی حد ہے۔ گو اس پر کبھی عمل درآمد نہیں ہوتا اور امیدواران، حلقوں سے کا میابی کے بعد جب گوشوارے الیکشن کمیشن میں جمع کراتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے امیدوار بہت غریب پرور تھا۔ انقلاب کے متلاشی عوام چھپرپھاڑکر اپنی مدد آپ کے تحت ووٹ دینے کے لیے خود نکلے اوراپنی ٹرانسپورٹ میں گئے تھے، بلکہ بریانی کی دیگیں بھی چندا کرکے لے جاتے تھے تاکہ اپنے شماریاتی بلاک کے ووٹرز کی خدمت بھی کرسکیں، جلسے جلوس ریلیاں، پارٹی جھنڈے اور آپ کے ووٹ کا درست حقدار والےبینرز بھی خود ہی بنواتے تھے۔ ایک نشست پر کامیابی کے لیے ہماری قوم کے بہی خواہ، غم خوار اور ہمدرد کے اخراجات کسی سے پوشید ہ نہیں۔ اس کو تسلیم کرنا ہوگا کہ انتخابی اکھاڑے میں اترنے کے لیے کسی سفید پوش اور قابل شخصیت سے زیادہ دولت کے انبار رکھنے والے ہمیشہ آگے رہتے ہیں۔ اگر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اندازہ لگایا جائے تو قومی و صوبائی اسمبلی کی فی نشست پر فی کس مجموعی اخراجات کا تخمینہ اربوں روپے بنتا ہے۔ یہ فی کس اخراجات ہیں جبکہ ایک نشست پر کم ازکم تین مستحکم افراد سے لیکرکم و بیش پندرہ امیدواران انتخابی دنگل میں حصہ لیتے ہیں۔ اس طرح اخراجات کا تخمینہ کھربوں روپے تک پہنچ جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابات کے انعقاد کے لیے 20ارب سے زائد لاگت آنے کا امکان ہے۔ الیکشن کمیشن ذرائع کا کہنا ہے کہ عام انتخابات میں سیکیورٹی پر ایک ارب، الیکشن ڈیوٹی کی مد میں 6 سے7 ارب کے اخراجات آئیں گے جبکہ ٹرانسپورٹیشن کی مد میں ایک ارب سے زائد اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ بیلٹ پیپر کی خریداری اورچھپائی پر ڈھائی ارب روپے کے اخراجات آئیں گے۔
صاف نظر آتا ہے کہ عام انتخابات میں عام شہری کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ ایک عام آدمی پاکستان کی تاریخ کے سب سے مہنگے انتخابی عمل میں حصہ لینے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اربوں روپے کے اس الیکشن گیم میں پارٹی کو دیے جانے والے فنڈز شامل نہیں جو وہ اپنے جلسوں اور تشہیر کے لیے استعمال کرے گی۔ ابتدائی طور پر جو اطلاعات سامنے آئی ہیں، اس کے مطابق تین بڑی سیاسی جماعتوں نے ٹکٹ ہولڈرز سے درخواست کی مد میں ناقابل واپسی فیس مجموعی طور پر کروڑوں روپے میں وصول کی ہے۔ ٹکٹ ملنے کے بعد پارٹی کے لیے فنڈ دینا اس کے علاوہ ہے جب کہ الیکشن کمیشن کے مطابق اس بار امیدواروں پر پابندی عائد ہے کہ جو بھی اخراجات کیے جائیں گے وہ امیدوار کی جانب سے کیے جانے والے اخراجات شمار ہوں گے اور ہزار روپے سے زیادہ تمام اخراجات کی رسید دینا ہوگی۔ بظاہر پابندی عائد کی گئی ہے کہ انتخابی مہم کے دوران اخراجات کو کسی دوسرے شخص سے منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ اخراجات کے لیے بینک اکائونٹ لازمی قرار دیا گیا ہے۔ کہنے کو تو یہ سب کچھ ہر انتخابات میں ہوتا رہتا ہے۔ ضابطۂ اخلاق بھی بنایا جاتا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ضابطۂ اخلاق کی دھجیاں ہمیشہ اڑائی جاتی ہیں۔ غالباً کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی بھی امیدوار کے خلاف ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی پر الیکشن کمیشن کی جانب سے باضابطہ کارروائی ہوئی ہو۔اربوں کھربوں روپے کے ان اخراجات کے ایک اجمالی خاکے کے ساتھ اُس امیدوار کے بارے میں بھی غور کیجیے جو ہر عام انتخابات میں کم و بیش کامیا ب ہوتا رہتا ہے۔ موروثی، وڈیرانہ، خوانین، سرداری، ملَک جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے آبائی نشست کہلانے والے حلقے میں عوام کو کتنا ریلیف دیا گیا۔ میرا ذاتی خیال ہے ان آبائی نشستوں کی حالت زار دیگر حلقوں کے مقابلے میں افسوس ناک ہی ہے۔ آئے روز میڈیا بااثر حلقوں کی حالت زار کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کرتا رہتا ہے۔ بدقسمتی سے95 فیصد کے مقابلے میں 5 فیصد مراعات یافتہ طبقے کو ہم عوام ہی فوقیت دیتے ہیں۔ ان چہروں کو ہم ہی نئے نئے نقاب پہناتے ہیں۔ بدلے چہروں کے پس منظر میں ان کی رشتے داریاں چلے ہوئے کارتوس سے ہی ملتی ہیں۔ اس میں قصور کسی ادارے یا کسی جماعت کا نہیں بلکہ ہم عوام کا ہی ہے۔ ہم لوگوں نے سچائی اور زمینی حقائق کے برخلاف نظام کی تبدیلی کے لیے سیاسی بلوغت کا کم ہی مظاہرہ کیا ہے۔ یہ اعتراف کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کہ عوام کو شعور کی آگاہی مہم میں میڈیا کا کردار افسوس ناک حد تک کئی انواع سے متنازع نظر آتا ہے۔ گزشتہ دنوں بھارتی ویب سائٹ کوبرا پوسٹ کی جانب سے 136 کے قریب اسٹنگ آپریشن پر مبنی ویڈیو مواد منکشف کیا گیا ہے، جس میں ثابت ہوتا ہے کہ بھارتی میڈیا مراعات اور پیسوں کے لیے انتہا پسند جماعت بھارتیہ جتنا پارٹی سمیت کئی ہندو شدت پسند جماعتوں کے لیے جانبدارانہ کردار ادا کرنے کی منصوبہ بندی پر چل رہا ہے تاکہ ان جماعتوں کی عام انتخابات میں کامیابی کو ممکن بنانے کے لیے عوام کی ذہن سازی کی جاسکے۔ اگر ہم بعض پاکستانی میڈیا ہائوسز کا غیر جانب دارانہ جائزہ لیں تو غیر جانب دارانہ رائے قائم کرنے میں دشواری نہیں ہوگی کہ بدقسمتی سے بعض میڈیا ہاؤسز کا کردار بھی شفاف نہیں ہے۔اب ذرا آنکھیں کھول کر ایک ووٹر کا زہریلے آد می کے ساتھ موازنہ کریں تو باآسانی سمجھ سکیں گے کہ ہم بھی من حیث القوم باربار پاکستانی معاشرتی اقدار و اخلاقی معیار کو پامال کرنے والے مفاد پرست اور سیاست کو کاروبار سمجھنے والے وڈیروں، خوانین، سرداروں، ملَک جاگیرداروں اور سرمایہ کاروں سے ان کے جھوٹے وعدوں کو بار بار آزمانے کے باوجود ہر مرتبہ تبدیلی کے نام پر خود ڈسواتے ہیں اور اگلے پانچ برس تک ماتھا پیٹتے رہتے ہیں کہ سب ستیا ناس ہوگیا، بیڑا غرق کردیا، روزگار نہیں، امن نہیں، مستقبل محفوظ نہیں ہے۔ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود اغیار کی دھمکیوں اور دراندازیوں اور ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں سہولت کاروں کی وجہ سے تباہ و برباد ہونے کا نوحہ پڑھتے رہتے ہیں۔ لیکن جب انتخابات کا مرحلہ آتا ہے تو سب کچھ ایک لمحے میں بھول کر آزمائے ہوئے کھوٹے سکوں کو دوبارہ مسند اقتدار تک پہنچاتے ہیں اور بھنگڑے ڈال کر اگلے روز پھر فٹ پاتھ پر مزدوری کے اوزار کے ساتھ بیٹھ کر نئے خواب دیکھنے لگ جاتے ہیں اور جب شام کو خالی ہاتھ مایوسی کے عالم میں گھر لوٹتے ہیں تو اپنے نمائندوں کو کوستے ہیں کہ پاکستان کا کچھ نہیں ہوسکتا۔ سب بکے ہوئے ہیں، کسی کو ہم غریبوں کی پروا نہیں۔ بائولے کا خواب ہے کہ ہم جب تک مفاد پرست سیاسی کوبرا سانپوں سے بار بار خود کو ڈسوانے کے بجائے ان کے زہریلے پھن کو کاٹ کر نہیں پھینکیں گے، اپنے مسائل کا حل کبھی نہیں نکال پائیں گے۔ اب آپ کی مرضی ہے کہ زہر نکالتے ہیں یا ڈسواتے ہیں۔ اپنے جسم کو زہر کا عادی بنانے کے لیے خود فراموشی و بے حسی کے زہریلے ٹیکے لگانے سے بچنا ہی ہم سب کے حق میں بہتر ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
10596