Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

کانپور کا کانا…………میر سیما آمان

شیئر کریں:

بعض مرتبہ بہت چھوٹی سی بات ہمیشہ کے لئے دل میں رہ جاتی ہے۔ایسی ہی ایک چھو ٹی سی بات مجھے بھی آج تک یاد ہے۔سکول کے زمانے میں ہماری کلاس میں ایک کر سچن لڑکی سیتا یو حنا ہوا کرتی تھی جو بہت کم بو لتی تھی۔ا گر آپ دس جملوں کا بھی کوئی سوال پو چھیں تو اسکا جواب محض ایک جملے میں ہوتا تھا۔ایک بار ٹیچر نے ہم سب سے اپنی زندگی کے دلچسپ واقعات کا پو چھا۔۔اس دن سیتا نے پہلی بار تفصیلی گفتگو کی جو ہم سب کے لئے بے حد دلچسپی کا باعث تھا۔۔

سیتا نے بتایا کہ ایک بار وہ اپنی فیملی کے ساتھ کانپور (انڈیا ) جا رہی تھی۔ٹرین میں مختلف مسافر سوار تھے۔ا نہی مسافروں میں ایک نو جوان ایسا تھا جو ایک آ نکھ کی بینا ئی سے محروم تھا۔جسے عام الفاذ میں ’’ کا نا ‘‘ بولا جاتا ہے۔سیتا بتاتی ہے کہ پورے راستے میں اس شخص نے دوسرے مسافروں کا ہر طرح سے خیال رکھا ۔اول تو اسکے بیٹھنے کا انداذ ایسا تھا کہ ساتھ بیٹھے دوسرے لوگوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔سٹیشن میں ہر بار گاڑی رکنے پر یہ سب سے اُ نکی ضروریات پوچھتا۔بچوں اور بوڑھے مسافروں کا بالخصوص خیال کرتا ۔کھانے پینے کے اوقات میں جب ا پنے بیگ سے ٹفن نکالتا تو ساتھ بیٹھے ہر مسافر کو کھانے کی پیشکش کرتا۔ سیتا بتاتی ہے کہ پورے سفر کے دوران تمام بینا اور تندرست افراد اپنی سیٹوں سے ٹس سے مس نہ ہو ئے۔اپنی اپنی سفر میں گُم رہے۔۔ لیکن دھیمی لہجے میں بات کرنے والہ کانپور کا رہنے والا وہ کانا شخص جو ہندوں کے سب سے نچلی ذات سے تعلق رکھتا تھا،پوری سفر میں مسافروں کا بالکل اُسی طرح خیال رکھتا رہا۔جسطرح خیال رکھنے کا حکم ہمارے GODاور مسلما نوں کے اﷲ نے دی ہے۔۔ سیتا بتاتی ہے کہ جب سفر اختتام کو پہنچا ۔سب اسٹیشن پر اُترنے لگے تو میرے والد نے اس شخص سے پوچھا کہ کیا اپ پیدا ئشی نا بینا تھے،تو اس نے مسکراتے ہوئے صرف اتنا کہا کہ ’’ سرپیدا ئشی طور پر تو سب بینا ہو تے ہیں نا بینا تو ہم بعد میں ہو جاتے ہیں ‘‘‘ ۔۔۔

اس روز سیتا نے اس شخص کی پوری کہانی سنائی لیکن میرے لئے یہ کہانی اس ایک جملے پر پہنچ کر ختم ہو چکی تھی۔۔اس روز سکول سے گھر پہنچتے ہی میں نے فوراََ آ ئینہ پر اپنی آنکھیں د یکھیں۔۔میں بار بار پلکیں جھپکاتی رہی آنکھوں پر پانی ڈالتی ۔میں پاگلوں کی طرح آنکھیں کھولتی اور بند کرتی رہی ۔میں اس پورے دن یہ فیصلہ نہیں کر پائی کہ کیا میں بینا افراد میں شامل ہوں یا نابینا۔۔آج اس بات کو ایک دہائی سے ذیادہ عر صہ گزر چکا ہے۔کبھی کبھار مجھے یوں لگتا ہے کہ ہم انسانوں کی مثال بھی مر غیوں جیسی ہے ۔ہر سامنے آ یا ہُوا دانہ چکھتی ہیں اور اگے بڑھ جاتی ہیں ارد گرد دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔

بچپن میں پڑھا کہ حواس خمسہ میں آ نکھیں شامل ہیں جنکا کام ہے دیکھنا،،تو بس ان سے دیکھنے کا ہی کام لیا ۔۔مگر یہ ’’دیکھنا ‘‘بھی عجب دیکھنا ہے جو محض ’’اپنی ‘‘ ضروریات اپنی خواہشات اپنی پسند اور اپنی آ سا نیوں کے علاوہ کچھ دیکھتی ہی نہیں ہیں۔۔ہم وہی دیکھتے ہیں جو ہم دیکھنا چا ہیں۔اور جو ہم نہیں دیکھنا چا ہیں وہ دنیا کا کوئی بھی آ ئینہ ہمیں نہیں دکھا پاتا۔۔ یہ کڑوا سچ ہے کہ ہماری بینائی سے لبریز روشن آنکھیں نہ تو کسی کی مجبوریاں دیکھ پاتیں ہیں نہ بے بسی۔۔ہمیں دوسروں کے گناہ انکے قصور نظر آ تے ہیں لیکن و جو ہات نہیں۔ہمیں لوگوں کی خو ب صو رتی اور بد صورتی نظر آتی ہیں مگر کسی کے اخلاص کبھی بھی نہیں ۔ہاں ہم تمام بینا افراد کو بھوک سے مرتا ہوا تھر تو دور کی بات ہے اپنے ہی محلے کا وہ گھر کبھی نظر نہیں آتا جہاں فا قوں سے پریشان مائیں پتھر اُبالنے کے ناٹک کر کے بچوں کو بہلایا کرتی ہیں

۔سچ تو یہ ہے کہ ہماری سرمہ کاجل لگی خوبصورت آنکھیں،عرق ِ گلاب سے د ھلی ہوئی صاف اور روشن آنکھیں وہ سب کبھی دیکھ ہی نہیں سکتی ہیں جو اس وقت دنیا کے کسی بھی کونے میں موجود کو ئی نا بینا کو کوئی اند ھا یا کانا شخس دیکھتا یا محسوس کر تا ہے۔میں آج بھی جب کبھی آئینہ دیکھتی ہوں تو مجھے کانپور کے ا سٹیشن میں کھڑے اس شخص کی بات یا د آجاتی ہے کہ پید ائشی طور پر تو سب بینا ہوتے ہیں بعد مین نا بینا ہو جاتے ہیں۔‘‘‘

میں آج بھی یہ فیصلہ نہیں کر پاتی کہ میں کن افراد میں شامل ہوں۔ نہ جانے سیتا یو حنا اس وقت کہاں ہوگی لیکن اند ھوں کے اس ہجوم میں بیٹھے میں اُسے بے حد یاد کرتی ہوں جس نے محض 14 سال کی عمر میں ہمیں ایک چھوٹی سی بات بتا کر بینا اور نا بینا کے درمیاں فرق بتایا۔۔اب پڑھنے والے میری اس پاگل پن پر سوچ رہے ہو نگے کہ رمضان کے اس مبارک مہینے میں بجائے عبادات میں مصروف ہونے کے میں پا گلوں کی طرح بیٹھے کسی کانپور کے شودر ذات سے تعلق رکھنے والے کسی ہندو شخص پر کیوں لکھ رہی ہوں یا کسی کر سٗچن لڑ کی کو کیوں یاد کر رہی ہوں۔۔واقعی کوئی تُک نہیں بنتی۔۔۔۔۔۔۔ لیکن کیا ہے کہ ہم لا کھوں فر قوں میں بٹے لا کھوں کر وڑوں ’’’بینا ‘‘مسلمانوں کو ’’’ رمضان کے اس با برکت مہینے ‘‘‘‘ میں ’’نا بینا ‘‘ ہو جانے کی شدید بیماری لا حق ہوتی ہے۔۔

مجھے یاد پڑ تا ہے کہ پچھلے ہی سال کے ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان کے کہیں علاقوں میں رمضان کے مہینے میں ہندو برداری مسلمانوں کے ساتھ خصوصی تعاون کرتی ہے ۔سبز یوں ۔پھلوں اور دیگر ا شیا ء ضرورت کی قیمتوں میں خصو صی رعایت کی جاتی ہے۔لوڈ شیڈ نگ میں کمی کی جاتی ہے حتی کہ محلے میں سکھ اور ہندو برادری مسلما نوں کے روزے کا لحا ظ کرتے ہوئے شور شرابے کے ساتھ ساتھ دیگر کہیں خرافات سے مکمل پر ہیز کرتے ہیں تا کہ مسلم برادری خو ش اسلوبی سے اپنا دینی فریضہ انجام دے سکیں۔

دوسری طرف ہمارے حالات نہایت شرمناک ہیں۔یہاں اول تو رمضان تجارت کا سب سے بڑا زریعہ بن جا تا ہے ۔مہنگائی اور بھی ذیادہ آسمان کو چھونے لگتی ہے تو دوسری طرف لوڈشیڈنگ میں بد ترین اضا فہ کیا جاتا ہے۔ملک میں بجلی کا بُرہان تو سمجھ میں آنیوالی بات ہے لیکن عین فجر اور سحر ی کے اوقات کار میں بجلی کا چلے جانا واپڈا والوں کے مذہب کو ہی مشکوک بنا دیتا ہے۔ایسے مواقع پر مجھے ہمیشہ مولا نا اسمائیل کی درس میں کہی ہوئی بات یاد آجاتی ہے کہ ’’ ناچنے والی بھی مسلمان اور دیکھنے والا بھی مسلمان ‘‘۔۔سچ تو یہ ہے کہ ہمارا پورا معاشرہ اسی ایک جملے کی تشریح کر رہا ہے یہ عجب تماشہ ہے ۔۔

پورا معاشرہ قصائی کا روپ دھار چکی ہے۔اور دکھ کی بات یہی ہے کہ یہ قصائی بھی مسلماں ہے اور اسکے ہاتھوں ذبح ہونے والے بھی مسلماں ہیں۔۔بحر حال کیا ہی معجزہ ہو کہ اس رمضاں میں اﷲ تعالی ہم سب بینا افراد کو وجدان کی وہی آنکھ نصیب فر مائے جو تمام نا بیناوں کو حاصل ہے جس سے وہ لوگ وہ سب دیکھ لیتے ہیں جو ہم بینا افراد اپنی خوبصورت ، روشن اور بینائی سے لبریز آنکھوں سے کبھی نہیں دیکھ پاتے۔۔۔۔!!!!


شیئر کریں: