Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

لاہور سے وادی کالاش ’’کافرستان‘‘تک کا یادگار سفر……. ممتازاعوان

شیئر کریں:

خادم اعلیٰ کے شہر لاہور میں گرمی عروج پر ہو اور شدید گرمی میں ٹھنڈے علاقے میں جانے کا موقع ملے تو بھلا کون انکار کرے گا؟ پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ کے صدر ملک سلمان کی جانب سے پیغام ملا کہ کالاش فیسٹول میں لاہور،اسلام آباد اور کراچی سے کالم نگاروں کا ایک وفد لے کر جا رہے ہیں آپ بھی شریک ہوں تو فوری جانے والوں میں اپنا نام لکھوا دیا۔اگرچہ بیس افراد کے جانے کا طے تھا لیکن تعداد ساٹھ تک پہنچ گئی ملک سلمان کسی موقع پر گھبرائے نہیں بلکہ رب پر توکل کر کے بیس کی بجائے ساٹھ افراد کے قافلے کو لے کر چل پڑے۔

ہفتہ کی رات لاہور AFOHS کلب میں ڈنر تھا ۔کلب کے سی ای اوڈاکٹر قیصر رفیق نے اس حوالہ سے شاندار انتظامات کر رکھے تھے۔کراچی سے آنے والے معززمہمانوں کو کلب میں ہی رہائش دی گئی تھی۔ڈنر کا وقت دس بجے کا طے تھا اور دس بجے ہی میری کلب میں انٹری ہوئی تو کراچی سے آئے مہمان فیس بکی دوست بادشاہ خان اور محمد شفیق سے ملاقات ہوئی ،بعد ازاں کلب کے سی ای او ڈاکٹر قیصر رفیق نے آنے والے مہمانوں کو خوش آمدید کہا ۔سوئمنگ پول کے چاروں اطراف کھانے کے ٹیبل لگے تھے۔کھانے سے قبل کلب ،پنجاب حکومت اور فیڈریشن کی جانب سے وفد کے تمام شرکاء کو اعزازی شیلڈ دی گئیں۔اس تقریب میں لاہور پریس کلب کے صدر اعظم چوہدری ،سابق ایم ڈی پی ٹی ڈی سی و ممبر وزیر اعظم انسپیکشن کمیٹی چوہدری کبیر خان،مشیر وزیر اعلیٰ پنجاب اختر شاہ،کرنل ساجد بھی شریک ہوئے۔کلب کے سی ای او ڈاکٹر قیصر رفیقنے بتایاکہ ایرفورس کے تعاون کے ساتھ باقاعدہ پہلا کلب لاہور میں کھولا گیا جس میں وہ فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔انکا کہنا تھا کہ لکھنے والوں کے ساتھ ان کے دل میں خصوصی محبت ہے اسی لئے انہوں نے آج یہ محفل سجائی ،ملک سلمان و دیگر تمام کالم نگاروں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔کھانے سے فراغت کے بعد سفر کا آغاز ہوا۔

پنجاب حکومت نے پانچ گاڑیاں مہیا کر رکھی تھیں۔اعظم چوہدری صدر لاہور پریس کلب نے ملک سلمان کے جذبات وخدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ پنجا ب حکومت اپنے ایم پی ایز کو گاڑیاں نہیں دیتی ،ملک سلمان نے کالم نگاروں کے لئے گاڑیاں لے لیں اس پر انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں جس پر محفل تالیوں سے گونج اٹھی۔اس ٹور کے انتظامات کے حوالہ سے ملک سلمان کاکہنا تھا کہ خیبر پختونخواہ حکومت سے بھی گاڑیوں کے لئے رابطہ کیا گیا تھا لیکن انہوں نے انکار کر دیا حالانکہ اس وفد نے کے پی کے میں ہی جانا تھا ،بعد میں جب پنجا ب حکومت سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے گاڑیاں مہیا کر دیں۔پانچ گاڑیوں میں سے دو گاڑیاں خواتین کے حصہ میں آئیں کیونکہ خواتین کی بڑی تعداد بھی اس ٹور کا حصہ تھی۔تین گاڑیوں پر مرد حضرات سوار ہوئے اور یوں سفر کا باقاعدہ آغاز ہوا۔براستہ موٹروے راولپنڈی پہنچے جہاں مقامی ہوٹل میں کمروں کی بکنگ تھی وہاں مختصر آرام کیا اور نو بجے ناشتے کے لئے تیار ہو گئے۔ناشتہ کے بعد ہوٹل کے منیجرنے سفر کے حوالہ سے مختصر ہدایات دیں ،گروپ فوٹو کے بعد پنڈی سے چترال کے سفر کا آغاز ہوا جو ایک طویل ترین سفر تھا۔مردان اور مالاکنڈ کے اضلاع سے ہوتے ہوئے ہم لوئر دیر میں داخل ہوئے۔دیر لوئر اور دیر بالا دونوں کا شمار پاکستان کے حسین ترین قدرتی علاقوں میں ہوتا ہے۔ دیر لوئر میں ہم چکدرہ، تیمرگرہ، خال سے ہو کر دیر بالا کی حدود میں داخل ہوئے۔

جب واڑی پہنچے تو شام کے سات بج چکے تھے ،گاڑیاں رکیں تو ملک سلمان نے اعلان کیا کہ لواری ٹنل شام سات بجے بند ہو جاتی ہے اس لئے آج رات یہیں رکیں گے۔صبح سفر کا آغاز ہو گا۔دریا کنارے ایک پٹرول پمپ کی بیک سائیڈ پر ہوٹل تھا جس کو باہر سے دیکھ کر کسی بھی ہوٹل کا گمان نہیں ہوتا تھا۔خواتین کالم نگاروں کے لئے رکن قومی اسمبلی طارق اللہ نے اپنی رہائشگاہ پر ٹھہرنے کا انتظام کر رکھا تھا۔مرد کالم نگار ہوٹل میں رکے،جب ہم واڑی پہنچے تو سات بج چکے تھے ،ان علاقوں میں مغرب کے بعد بازار ،ہوٹلز سب کچھ بند ہو جاتا ہے۔کھانا کھانے کے بعد چائے پینے نکلے،دو کلومیٹرکا پیدل سفر کیا لیکن کہیں چائے والا ہوٹل نہ ملا سو واپس آئے اور آرام کے لئے لیٹ گئے۔صبح واڑی میں ہی ناشتہ کیا اور اگلی منزل کی جانب روانہ ہو ئے۔واڑی سے مقامی صحافی ڈاکٹر فاروق بھی ہمارے ہمسفر بنے ۔لاہور سے اپر دیر تک پروڈیوسرز کی گاڑی میں سفر کیا اس کے بعد پروڈیوسر جلدی روانہ ہو گئے تو اگلی صبح دوسری گاڑی میں بیٹھنا پڑا جس میں رائل نیوز کے اینکر نوید ستی،روز نیور کے اینکر اشتیاق گوندل،سردار حسنین عباسی ،شہباز سعید،آسی،سجاد پیر زادہ،انعام اعوان و دیگر موجود تھے۔حسنین عباسی کبھی عمران خان بن جاتے توکبھی طارق جمیل،کبھی نواز شریف کا خطاب مجھے کیوں نکالا اور کبھی مریم نواز کا جلسے سے خطاب انہی کی آواز میں سناتے ،یوں ان کے ساتھ سفر یادگار سفر رہا۔ڈاکٹر فاروق چونکہ مقامی تھے اس لئے سارے علاقے سے واقف تھے۔واڑی کے بعد اگلا پڑا ؤ دیر میں ہو ا جہاں ضلع ناظم صاحبزادہ فصیح اللہ نے وفد کا استقبال کیا۔

دیر کی ساری وادی میں ہمارا ساتھی دریائے پنجکوڑہ تھا یہ دریا اس وادی کی شہہ رگ ہے۔دریا کے ساتھ ساتھ دیر تک سڑک پختہ ہے لیکن اس سے آگے سڑک پر کام جاری تھا ،ہلکی ہلکی بارش بھی ہو رہی تھی اس لئے گاڑیوں کی رفتار کم رہی ۔لواری ٹنل پہنچے تو معلوم ہوا کہ ٹنل بند ہے تھوڑا انتظار کرنا پڑ ے گا کیونکہ ٹنل میں جب ایک طرف سے گاڑیوں کا قافلہ آ رہا ہوتو دوسری طرف سے گاڑیاں روک دی جاتی ہیں۔ٹنل کے پاس گاڑیوں سے اترے بارش میں پکوڑے کھائے چائے پی اور ٹنل کے کھلنے کا انتظار کیا۔لواری ٹنل دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک حصہ 9 اور دوسرا حصہ 3 کلومیٹر پر محیط ہے۔ اس انتہائی اہم منصوبے کا پہلی بار سنگ بنیاد 5 جولائی 1975 کو پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں اس وقت کے وزیر بین الصوبائی رابطہ عبدالحفیظ پیرزادہ نے رکھا تھاجس پر بعد ازاں کام روک دیا گیا تھا۔ 19 سال بعد سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے حکم پر 6 اکتوبر 2006 کو اس منصوبے پر دوبارہ کام شروع ہوا۔ پہلے یہ منصوبہ ریل ٹنل کے طور پر شروع کیا گیا تھا لیکن پھر اسکو روڈ ٹنل میں تبدیل کردیا گیا جس کے باعث بھی یہ منصوبہ مزید تاخیر کا شکار ہوا۔ پیپلزپارٹی کے سابق دور میں ایک مرتبہ پھر اس منصوبے پر فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث کام دوبارہ روک دیا گیا تھا۔ پہاڑی علاقے میں واقع لواری ٹنل چترالیوں کے لیے ہمشہ سے ایک سہانا خواب رہا ہے۔اس لیے یقینی طور پر 20 جولائی 2017 چترال کے لوگوں کے لیے ایک بہت ہی خوشی کا دن تھا کیونکہ چار دہایوں سے زیادہ انتظار کے بعد چترال کے عوام کا ایک دیرینہ مطالبہ پورا ہوا ۔اس ٹنل کو تقریباً 26 ارب روپے کی لاگت سے مکمل کیا گیا ہے جبکہ ٹنل کی تکمیل سے پشاور اور چترال کے درمیان مسافت 14 گھنٹے سے کم ہوکر 7 گھنٹے رہ گئی ہے۔سردیوں میں برفباری کی وجہ سے لواری ٹاپ بند ہونے سے آمدورفت رک جاتی تھی۔لواری ٹنل کی تعمیر کے بعد چترال کے مسافروں کو 10500 فٹ بلند لواری ٹاپ عبور کرنے سے نجات مل گئی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 68 سال کے دوران لواری ٹاپ کے راستے سفر کرتے ہوئے تقریباً 8 ہزار افراد برفانی ہواؤں اور تودوں کی زد میں آ کر جانیں گنوا چکے ہیں۔ اس منصوبے کی تکمیل سے تجارتی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور علاقے میں اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہو رہے ہیں

۔ٹنل کھلنے کے بعد گاڑیوں کو ایک لائن میں رہنے کو کہا گیا اور سختی سے ہدایت کی گئی کہ سپیڈ زیاد ہ سے زیادہ پچاس کلو میٹر فی گھنٹہ رکھنی اور اوور ٹیکنگ بھی نہیں کرنی۔ٹنل میں داخل ہوئے تو ڈرائیور نے گاڑی کی لائٹس جلا دیں۔نو کلومیٹر کا سفر تقریبا بیس منٹ میں طے ہوا۔ٹنل کراس کرنے کے بعد ملک سلمان کی طرف سے سب گاڑیوں میں پیغام دیا گیا کہ اب راستے میں کوئی قیام نہیں ہو گا ۔گاڑیاں سیدھی چترال جا کر رکیں گی وہاں ڈی سی چترال ارشاد سودھرکی جانب سے وفد کے اعزاز میں ظہرانے کا انتظا م کیا گیا ہے ،کھانے کا سن کر ڈرائیور زنے بھی گاڑیوں کی سپیڈ بڑھانے کی کوشش کی لیکن لاہور کی سڑکیں اور وہاں پہاڑی علاقے کی سڑکوں میں سپیڈ کا آسمان زمین کا فرق ہے۔سو سپیڈ بڑھانے کے باوجو دنہ بڑھے ۔راستے میں تلہ گنگ سے آئے ہوئے صحافی ڈاکٹر محبوب جراح جو واپس جا رہے تھے ان سے بھی مختصر ترین ملاقات ہوئی ،جس جگہ وہ رکے وہاں ان کی گاڑی پہاڑی سے اتر رہی تھی اور ہماری گاڑیاں پہاڑیاں چڑھ رہی تھیں اسی جگہ پر سڑک کا کام بھی جاری تھا سو ایک منٹ کی مختصر ملاقات کے بعد انہوں نے واپسی کی راہ لی اور ہم چترال کی جانب بڑھنے لگے۔دن دوبجے ہم چترال پہنچے تو وہاں پہلی منزل گورنر کاٹیج تھی جہاں ظہرانے کا انتظام تھا۔گورنر کاٹیج کا راستہ ڈاکٹر فاروق جانتے تھے انہوں نے دیر کے بعد چترال تک گائیڈ کا کام بھی کیا۔گورنر کاٹیج چترال کی ایک پہاڑی پر واقع ہے جہاں کھڑے ہو کر سارا چترال شہر دکھائی دیتا ہے۔رات کے اندھیرے میں شہر کی لائٹوں کا ایک عجیب نظارہ تھا۔

اسلام آباد سے چترال تک کا سفر کم از کم اٹھارہ گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ سردیوں کے موسم میں یہاں شدید ترین سردی پڑتی ہے اور سردی سے بچاؤ کے لئے یہاں کے غریب عوام لکڑی جلاتے ہیں۔سیاح یہاں سے کوہ ہندودش کے بلند و بالا پہاڑی سلسوں کا بھی نظارہ کرتے ہیں۔ چترال کی دل کش وادی میں بہتی ندیاں ، بلندیوں سے گرتے ہوئے خوبصورت آبشار، سرسبز باغات، پھلوں اور پھولوں سے لدے باغات، لہلہاتے کھیت ،خوبصورت پرندے بکثرت نظر آتے ہیں۔چترال کا یہ بے مثال حسن دیکھنے والوں پر سحر طاری کردیتا ہے اور وہ چند لمحوں کے لئے اپنی زندگی کے غموں اور پر یشانیوں کو فراموش کر دیتے ہیں۔

یہاں کے جنت نظیر نظارے سیاح کو ساری زندگی یاد رہتے ہیں ،یہ ایسی وادی ہے جہاں جا کر زندگی چند لمحے اور جی لینے کیو جی چاہتا ہے کہ گو یا یہ حسین نظارے اوجھل نہ ہو جائیں اور یہ رنگین لمحات آنکھوں اور دل میں محفوظ کر لئے جائیں۔ان سب خوش رنگینیوں کے ساتھ چترال کے سادہ لوح اور شرافت کی نعمت سے سرشاریہاں کے باشندوں کی مہمان نوازی اور برتاؤ سیاح کو ساری زندگی یاد رہتی ہیں۔یہاں کے لوگ سیاحوں کو بہت پسند کرتے ہیں۔ اور ان کو ضرورت کے وقت ہر قسم کی تعاون فراہم کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ سیاح دور دراز سے اس علاقے میں آتے ہیں، اور چترال دنیا کے چند اہم سیاحتی مقامات میں سے ایک مانا جاتا ہے۔گورنر کاٹیج پہنچنے پر وہاں لوکاٹ ،سیب ،اور اخروٹ کے درخت نظر آئے،سیب اور اخروٹ تو کچے تھے لیکن لوکاٹ پک چکے تھے۔وفد میں شامل خواتین نے گاڑیوں سے اترتے ہی لوکاٹ کے درختوں پر حملہ کیا ۔کچھ لوکاٹ میرے حصے میں بھی آئے۔

سب دوست فریش ہوئے توکھانے سے قبل ضلع ناظم چترال حاجی مغفرت شاہ پہنچ گئے جنہوں نے وفد کو باقاعدہ خوش آمدید کہا ۔گورنر کاٹیج کے ساتھ ہی ضلع گورنمنٹ کے ریسٹ ہاؤس کے لان میں ان کے ساتھ نشست ہوئی ۔حاجی مغفرت شاہ کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے ۔وہ دوسری بار ضلع ناظم منتخب ہوئے ۔چترال میں جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام (ف) کا مقامی سطح پر اتحاد ہے۔وفد کو بریفنگ دیتے ہوئے حاجی مغفرت شاہ کا کہنا تھا کہ جب مجھے اطلاع ملی کہ ساٹھ کالم نگاروں کا وفد آ رہا ہے تو میں نے سوچا کہ شاید ایک دو دن اخبار شائع نہیں ہوں گے۔حاجی مغفرت شاہ نے چترال کے حوالہ سے بتایا کہ لواری ٹنل کے بننے کے بعد یہاں کے باسیوں کے مسائل میں کمی ہوئی ہے۔اس سے قبل چترال کا پاکستان کے ساتھ چھ مہینے رابطہ منقطع رہتا تھا اگر کوئی پشاوریا اسلام آباد کے ہسپتال میں فوت ہو جاتا تو اس کی تدفین وہیں ہوتی اور اگر کوئی مریض ہوتا تو اسے پشاور لے جانے میں مشکلات ہوتی۔راستے بند ہونے سے زمینی رابطہ بالکل ختم ہو جاتا۔چترال کو سیاحوں کے لئے جنت کہتے ہوئے مغفرت شاہ کا کہنا تھا کہ چترال لوڈ شیڈنگ فری بن چکا ہے۔چترال میں گولن گول ہائیڈرو پاورپراجیکٹ سے بجلی کی پیداوار ہو رہی ہے جس سے چترال کو بجلی بلا تعطل فراہم کی جا رہی ہے۔ گولن گول ہائیڈروپاور پراجیکٹ کے 3پیداواری یونٹس ہیں اور ان کی مجموعی پیداواری صلاحیت 108 میگاواٹ ہے۔چترال شہر کی بجلی پوری ہونے کے بعد وافر بجلی ضائع ہو رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ چترال میں تیرہ ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے پاکستان کی ضرورت بارہ ہزار میگا واٹ ہے ۔لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس طرف کسی کی توجہ نہیں۔اگر یہ پنجاب ہوتا یا یہاں شہباز شریف ہوتا تو پاکستان کی مکمل بجلی یہاں سے پیدا ہوتی۔مغفرت شاہ نے بریفنگ کے بعد رات عشائیہ پر دعوت دی ۔ابھی دن کے کھانے کا انتظار ہورہا تھا سو مختصر نشست کے بعد احباب کھانے کی طرف آئے۔کھانے میں چکن ،چاول کی ڈشز تھیں ۔ساتھ فروٹ بھی رکھا گیا تھا کھانا کھانے کے بعد طے ہوا کہ چترال شہر ،بازار کا وزٹ کیا جائے
اس حوالہ سے انفرادی طور پر سب کو جانے کی اجازت دی گئی۔وفد میں شامل مردو خواتین نے بازار کا دورہ کیا ،شاپنگ کی اور رات پھرگورنر کاٹیج پہنچے،

نو بجے ڈی سی چترال ارشادسدھیرآ گئے ۔ان کے ساتھ بھی نشست ہوئی۔ڈی سی چترال ارشاد سودھرکا تعلق کراچی سے ہے۔انہوں نے وفد کو خوش آمدید کہا اور شکریہ ادا کیا۔ایک گھنٹے تک محفل جمی رہی۔وفد میں شامل خواتین نے چترال کی مقامی ہسپتال کا دورہ کیا تھا انہوں نے ہسپتال کے متعلقہ مسائل جب ڈی سی کے سامنے رکھے تو و ہ حیران ہوئے کہ یہ کون سی مخلوق ہے جو چترال پہنچتے ہی مسائل کی کھوج میں لگ گئی۔انہوں نے بات سنی اور یقین دہانی کروائی کہ مسائل حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ہر بات کا مسکرا کر جواب دینے والے ڈی سی چترال میرے ساتھ والی کرسی پر بیٹھے تھے۔وفد کے شرکاء نے ڈی سی چترال کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا کیونکہ میزبانی کے مکمل فرائض انہوں نے سرانجام دیئے اور انہی کی دعوت پر کالم نگاروں کا ایک بڑا وفد پہنچا تھا۔عشائیہ میں ڈی سی چترال ساتھ رہے انہوں نے وفد کے ساتھ کھانا کھایا ۔اس کے بعد سب نے ہوٹلز کا رخ کیا۔خواتین کے لئے الگ رہائش کا انتظام تھا ۔مرد حضرات کو دو الگ الک ہوٹل میں ٹھہرایا گیا۔صبح فجر میں اٹھے نماز کے بعد نیند نہیں آ رہی تھی۔دو دن سے چترال میں بارش کی وجہ سے موسم ٹھنڈا تھا تو دوسری جانب ہوٹل میں پانی بھی بڑا ٹھنڈا تھا سو ٹھنڈے پانی سے ہی نہانا پڑا۔چائے پینے کے لئے باہر نکلے ۔چائے کا ایک ہوٹل ملا جہاں کڑک چائے کا آرڈر دیا لیکن جب پہلا گھونٹ پیا تو ایسے لگا کہ چائے میں پتی کی بجائے مرچ مصالحہ ڈالا گیا ہے۔ہوٹل مالک سے پوچھا تو اس نے دو ٹوک لفظوں میں کہا کہ بھائی پتی صحیح نہیں آ رہی پینی ہے تو پیو نہیں تو جاؤ۔سو ایک چائے گھونٹ کے پیسے تھمائے اور واپس ہوٹل میں آگیا۔باقی دوست بھی اتنے میں تیار ہو چکے تھے سو ناشتہ کے لئے ایک بار پھر گورنر کاٹیج میں جمع ہوئے ۔ناشتہ میں سفید چنے،انڈے اور ساتھ نان ،اس کے بعد چائے،ناشتہ کرنے کے بعد کیلاش کا سفر شروع ہوا جو ہماری اصل منزل تھی۔

لاہور سے نکلے ہوئے تین روز گزر چکے تھے لیکن ابھی تک کیلاش نہیں پہنچے تھے۔گورنر کاٹیج سے ڈی سی چترال نے اپنا نمائندہ گائیڈ دیا جس کی قیادت میں کیلاش کی جانب قافلہ چل پڑا،ایون تک گاڑیاں برق رفتاری کے سات چلتی رہیں۔ہمارے پاس ہائی ایس گاڑیاں تھیں ان کا ایون سے آگے جانا مشکل تھا لیکن دوستوں نے فیصلہ کیا کہ انہی گاڑیوں پر جائیں گے سو چل پڑے۔دوباش چیک پوسٹ سے آگے راستہ انتہائی خطرناک تھا۔بارش کی وجہ سے فیسٹول میں جانے والے اکثر لوگوں نے واپسی کی راہ لی اس وجہ سے دونوں طرف سے گاڑیوں کی آمدورفت ہورہی تھی ۔بارش کی وجہ سے روڈ پر پھسلن تھی کیونکہ ساری سڑک کچی تھی ۔کیلاش جیسے سیاحتی علاقے کی طرف جانے والی سڑک کو ابھی تک پختہ تو کیا دو رویہ بھی نہیں کیا جا سکا اس سے خیبر پختونخواہ میں تبدیلی واضح نظر آرہی تھی۔ہر دو منٹ بعد گاڑی کو روکنا پڑتا کیونکہ سامنے سے آنے والی گاڑی کو کراسنگ دینی پڑتی تھی۔دوباش چیک پوسٹ سے بمبوریت تک 12میل کا فاصلہ جبکہ رمبور تک بھی دس کلومیٹر کا راستہ ہے۔ یہ بارہ کلومیٹر کا راستہ بارش کی وجہ سے کم از کم دو گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ایک گھنٹہ گاڑی میں سفر کیا تو تنگ سڑک کی وجہ سے ایک مقام پر گاڑیوں کی آمنے سامنے قطار لگ گئی۔اگرچہ ہر پانچ سو میٹر کے بعدٹریفک پولیس اہلکار تعینا ت تھا لیکن موسم کی خرابی اور پھر بارش کی وجہ سے لوگوں کی فوری و یکدام واپسی سے ٹریفک جام ہو گئی۔حالات کو دیکھ کر نوید ستی،اشتیاق گوندل،حسنین عباسی ،بادشاہ خان،محمد شفیق و دیگر دوستوں کے ہمراہ پیدل چل پڑے۔ایک گھنٹہ پیدل چلنے کے بعد مقامی گاڑی بک کروائی اور یوں ہم بمبوریت اس مقام پر جا پہنچے جہاں فیسٹول جاری تھا۔بمبوریت کیلاشیوں کا صدرمقام ہے۔

کافرستان کی تینوں وادیوں بِریر، رمبور اور بمبوریت کی کل آبادی تقریبا بارہ ہزار کے قریب ہے۔لیکن اس میں کالاش قبیلہ یعنی کافروں کی آبادی صرف چار سے ساڑھے چار ہزار کے لگ بھگ ہے۔آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی وادی بمبوریت ہے اور رمبورایک تنگ وادی ہے۔ لیکن لمبائی میں دیگر دونوں وادیوں سے زیادہ ہے۔ وہاں گھنے جنگلات ہیں اور ایک جھیل بھی ہے۔انٹرنیٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق یہ قبیلہ کیلاش زبان بولتا ہے جو کہ دری زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ زبان اس خطہ میں نہایت جداگانہ مشہور ہے۔ لسانیات کے ماہر رچرڈ سٹرانڈ کے مطابق ضلع چترال میں آباد قبائل نے یہ نام قدیم کافرستان سے مستعار لیا ہے۔

کالاشہ یا کالاش قبائل نے وقت کے ساتھ چترال میں اپنا اثرورسوخ بڑھایا۔ ایک حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کالاش نام دراصل ‘‘کاسوو‘‘ جو کہ بعد میں ‘‘کاسیو‘‘ استعمال ہوتا تھا۔ یہ نام نورستان کے قبائل نے یہاں آباد قبائل کے لیے مخصوص کر رکھا تھا۔ بعد کے ادوار میں یہ کاسیو نام کالاسایو بنا اور رفتہ رفتہ کالاسہ اور پھر کالاشہ اور اب کالاش بن گیا۔ کیلاش قبائل کی ثقافت یہاں آباد قبائل میں سب سے جداگانہ خصوصیات کی حامل ہے۔ یہ قبائل مذہبی طور پر کئی خداؤں کو مانتے ہیں اور ان کی زندگیوں پر قدرت اور روحانی تعلیمات کا اثر رسوخ ہے۔ یہاں کے قبائل کی مذہبی روایات کے مطابق قربانی دینے کا رواج عام ہے جو کہ ان کی تین وادیوں میں خوشحالی اور امن کی ضمانت سمجھی جاتی ہے۔ کالاش قبائل میں مشہور مختلف رواج اور کئی تاریخی حوالہ جات اور قصے عام طور پر روم قدیم روم کی ثقافت سے تشبیہ دیے جاتے ہیں۔ گو وقت کے ساتھ ساتھ قدیم روم کی ثقافت کے اثرات میں کمی آئی ہے اور اب کے دور میں زیادہ تر ہند اور فارس کی ثقافتوں کے زیادہ اثرات واضع ہیں۔ کالاش قبائل کے قبائلی رواج میں اختلاف پایا جاتا تھا۔

بیسویں صدی سے پہلے تک یہاں رواج نہایت وسیع تھے اور گذشتہ صدی میں ان غیر مسلم قبائل میں ان رواجوں کی پیروی اسلام قبول کرنے کے بعد سے کافی کمی آئی ہے۔ کیلاش قبائل کے سردار سیف جان جو کہ اقلیت کے مطابق، ‘‘اگر کوئی کیلاش فرد اسلام قبول کر لے، وہ ہمارے درمیان زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ ہم اپنی شناخت کے لیے انتہائی سخت مزاج رکھتے ہیں ‘‘تقریباً تین ہزار کیلاش اسلام قبول کر چکے ہیں یا پھر ان کی اولادیں مسلمان ہو چکی ہیں۔ یہ لوگ اب بھی وادی کیلاش کے علاقے میں رہائش پزیر ہیں اور اپنی زبان اور قدیم ثقافت کی پیروی کرتے ہیں۔ اب ان لوگوں کو ‘‘شیخ‘‘ کہا جاتا ہے اور کالاش قبائل کی تقریباً نصف آبادی پر مشتمل یہ لوگ اپنا جداگانہ اثررسوخ رکھتے ہیں۔ کالاش عورتیں لمبی اور کالی پوشاکیں پہنتی ہیں، جو کہ سیپیوں اور موتیوں سے سجائی گئی ہوتی ہیں۔ کالے لباس کی وجہ سے یہ چترال میں سیاہ پوش کہلائے جاتے ہیں۔ کیلاش مردوں نے پاکستان میں عام استعمال کا لباس شلوار قمیص اپنا لی ہے اور بچوں میں بھی پاکستانی لباس عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔پاکستانی معاشرے کے برعکس عورتوں اور مردوں کا سماجی میل ملاپ برا نہیں سمجھا جاتا۔ ‘‘باشیلانی‘‘ ایک جدا گاؤں ہے جو کہ عورتوں کے لیے مخصوص ہے۔ یہاں حاملہ عورتیں ہی لازمی رہائش پذیر ہوتی ہیں اور پیدا ہونے والے بچوں کو باشیلانی کہا جاتا ہے۔ بچے کی پیدائش کے بعد عورتوں کا پاک ہونا لازم ہے اور ایک رواج بھی عام ہے جس کو اپنانے کے بعد ہی کوئی عورت اپنے شوہر کی طرف واپس جا سکتی ہے۔ گھر سے فرار ہو کر شادی کا رواج عام ہے۔ نوعمر لڑکیاں اور شادی شدہ عورتیں بھی گھر سے فرار اختیار کرتی ہیں۔ زیادہ تر یہ قبائل اس رویہ کو عمومی خیال کرتی ہے اور اس صورت میں جشن کے موقع پر قبول کر لیا جاتا ہے۔ کئی مواقعوں پر زیلی قبیلوں میں اس موضوع پر فساد بھی برپا ہو جاتا ہے۔ امن کے قائم ہونے تک تلخی برقرار رہتی ہے اور صلح عام طور پر ثالث کی موجودگی کے بغیر طے نہیں ہوتی۔ صلح کے لیے جو رواج عام ہے اس کے مطابق مرد جس کے ساتھ عورت فرار اختیار کرے وہ اس عورت کے خاندان یا پہلے شوہر کو قیمت ادا کرتا ہے۔ یہ قیمت عام طور پر دگنے خرچے کے برابر ہوتا ہے جو اس عورت کا شوہر شادی اور عورت کے خاندان کو ادا کرتا ہے۔

موسم بہار کے آتے ہی تینوں وادیوں میں چلم جوش کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں لیکن تہوار کے خاص تین دن تمام مرد و خواتین وادی بمبوریت میں جمع ہوجاتے ہیں۔ مقامی لوگ اسے ’’ چلم جوشٹ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ چلم جوشی کے پہلے دن ’بیشاہ ‘ یعنی پھولوں سے گھروں کی سجاوٹ،دوسرے دن’چیرک پی پی ‘ یعنی د ودھ تقسیم کرنے کی رسم کی ادائیگی اور’گل پریک‘ یعنی نو مولود بچوں کے والدین پربعض مقامات پرجانے کی مذہبی پابندی اْٹھانے اور سوگ کے خاتمے کا اعلان کیا جاتا ہے۔یہاں کے سادہ لوح افرادآج بھی صدیوں پرانی روایات کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہیں۔ انہوں نے پرانی روایات کو مذہب کی طرح اپنایا ہواہے۔اسی سبب سیاحوں کے لئے ان کی شادیاں، اموات، مہمان نوازی، میل جول، محبت مذہبی رسومات اور سالانہ تقاریب وغیرہ انتہائی دلچسی کا باعث ہیں۔ اِنہی دلچسپیوں کے باعث یہ عِلاقہ سیاحوں کے لیئے ایک جنت ہے۔چلم جوش جشن بہار اں کی تقریب ہے۔ مقامی افراد اس تہوار کیلئے کافی پہلے سے اوربہت سی تیاریاں کرکے رکھتے ہیں۔ مئی کا مہینہ شروع ہوتے ہوتے یہاں ہر طرف سبزہ اگ آتا ہے اور چاروں طرف خْوشبو پھیل جاتی ہے۔فیسٹول والے مقام پر ڈی سی چترال ارشادسودھرہم سے پہلے پہنچ چکے تھے۔سیکورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے۔پاک فوج،ایف سی ،پولیس کے جوان موقع پر موجود تھے۔بارش کے باوجود فیسٹول جاری تھا۔رنگ برنگے لباس میں کیلاشی مردو خواتین ،بچے تین چار چار کی ٹولیوں میں رقص کر رہے تھے۔سیٹیوں کی آواز دور دور تک جا رہی تھی۔ڈی پی او چترال منصور امان بھی اس موقع پر موجود تھے۔ایکسپریس نیوز کے اینکر عمران خان بھی پروگرام کی ریکارڈنگ کے لئے موجود تھے۔نوید ستی،اشتیا ق گوندل نے بھی پروگرام کی ریکارڈنگ کی۔فیسٹول میں وفد کی چائے بسکٹ کے ساتھ تواضع کی گئی۔وفد میں شامل خواتین کیلاشی خواتین کے ساتھ گھل مل گئیں اور ان کے ساتھ رقص بھی کیا۔سیلفیوں اور تصاویر کا دور بھی چلا۔شام چھ بجے فیسٹول ختم ہوا تو ڈی سی چترال ارشاد سودھرکی جانب سے مقامی ہوٹل میں کھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔کھانے کے بعد رات دیر تک اسی ہوٹل میں ہی ڈی سی چترال ارشادسودھراور ڈی پی او چترا ل منصور امان کے ساتھ گپ شپ رہی۔ڈی پی او چترال نے خیبر پختونخواہ پولیس کے حوالہ سے کافی معلومات دیں ۔وہ ایک بہادر افسر ہیں جن پر کوہاٹ میں خود کش حملہ بھی ہو چکا ہیے لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں محفوظ رکھا۔رات قیام دوسرے ہوٹل میں تھا۔وہاں پہنچے ،آرام کیا اور پھر صبح فجر کے بعد واپسی کی سفر کی راہ لی۔

واپسی پر پانچ گاڑیوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا دو گاڑیاں آگے نکل آئیں جن میں ایکسپیر یس نیوز کے پروڈیوسر اور دوسری میں میرے سمیت کالم نگار دوست شامل تھے جنہوں نے رمضان شروع ہونے کی وجہ سے جلدی واپس پہنچنے کی خاطر ڈرائیور سے گزارش کی کہ بغیر کسی سٹا پ کے لاہور پہنچا جائے۔راستے میں نمازوں اور کھانے کے لئے قیام کیا۔سحری پنڈی پہنچ کر کی اور صبح دس بجے اگلے دن لاہور پہنچ چکے تھے۔یوں یہ سفر اختتام پذیر ہوا۔دوسری تین گاڑیاں شام چھ بجے لاہور پہنچی تھیں۔لاہور پہنچتے ہی پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ کے صدر ملک سلمان کی جانب سے میسج موصول ہوا کہ کیلاش جانے والے وفد کے اعزاز میں جلد لاہور میں افطار ڈنر کا انتظام کیا جائے گا،اب انتظار ہے افطار ڈنر کا تا کہ ہمسفر دوستوں سے پھر ملا جائے اور دورہ کیلاش کی یادیں تازہ کی جائیں جنہیں کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔

journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 32journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 1journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 31journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 2journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 30journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 27
journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 28journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 29journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 21journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 22journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 24journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 25journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 26journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 16journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 17journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 18journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 19journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 20journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 11journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 12journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 13journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 14journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 15journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 6journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 7journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 8journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 9journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 10journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 3journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 4journalists from Lahore visit Chitral and kalash valley 5


شیئر کریں: