Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

انتخاب سے پہلے احتساب …………محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

الیکشن کمیشن نے 25جولائی 2018کو بدھ کے روز قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرانے کا اعلان کیا ہے۔ انتخابی شیڈول کا اعلان جون کے پہلے ہفتے میں کیا جائے گا۔ 2008میں جمہوریت کی بحالی کے بعد مسلسل دوسری مرتبہ منتخب اسمبلیوں نے اپنی آئینی مدت پوری کرلی ہے۔ جو ملک میں جمہوریت کے لئے نہایت خوش آئند ہے۔ بعض دوستوں نے تجویز دی ہے کہ انتخاب سے پہلے احتساب ہونا چاہئے۔ اگر کرپٹ عناصر کو سیاست سے دور نہیں رکھا گیا تو وہی فرسودہ اور کرپٹ نظام آئے گا۔اور عوام کی زندگی میں تبدیلی آنے کا خواب چکنا چور ہوجائے گا۔ ان حلقوں کی رائے یہ ہے کہ بغیر احتساب کے اگر انتخابات ہوتے ہیں تو 95فیصد وہی کرپٹ لوگ دولت کے بل بوتے پر اسمبلیوں میں پہنچیں گے جو گذشتہ کئی عشروں سے اس قوم کا خون چوس رہے ہیں۔جن لوگوں کے خلاف کرپشن کے الزامات میں مقدمات چل رہے ہیں یا ان کی بدعنوانیوں کی تحقیقات ہورہی ہے۔ ان کے مقدمات کا فیصلہ ہونے تک انہیں عوامی نمائندگی کے لئے نااہل ہونا چاہئے۔تاہم سیاسی جماعتوں کا موقف ہے کہ احتساب کا کام عوام پر چھوڑنا چاہئے وہ اپنے ووٹ کے ذریعے سیاست دانوں کا محاسبہ کریں گے۔ نااہل قرار دیئے گئے سابق وزیراعظم کو یہی شکوہ ہے کہ بائیس کروڑ عوام کے نمائندے کو پانچ افراد نے اٹھا کر ایوان اقتدار سے باہر پھینک دیا۔جمہوری معاشروں میں سیاسی جماعتوں اور رہنماوں کا محاسبہ عوام ووٹ کی پرچی کے ذریعے کرتے ہیں۔ لیکن یہ کام ان معاشروں میں ہوتا ہے جہاں سو فیصد لوگ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ وہ شخصیات کو نہیں۔بلکہ سیاسی پارٹیوں کے منشور اور کارکردگی کو ووٹ دیتے ہیں۔ وہاں ووٹنگ کا ٹرن آوٹ 85سے 90 فیصد کے درمیان ہوتا ہے۔پاکستان میں 2013کے انتخابات پرانی نتخابی فہرستوں پر ہوئے تھے۔ ساڑھے آٹھ کروڑ رائے دہندگان میں سے صرف ساڑھے تین کروڑ نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ اور ٹرن آوٹ صرف 35فیصد رہا۔ انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کرکے حکومت بنانے والی جماعت مسلم لیگ ن کو ایک کروڑ 48لاکھ74ہزار ووٹ ملے۔ دوسری بڑی جماعت کے طور پر ابھرنی والی تحریک انصاف کو 76لاکھ79ہزار جبکہ تیسرے نمبر پر پیپلز پارٹی کو 69لاکھ11ہزار ووٹ ملے۔ جبکہ پانچ کروڑ رائے دہندگان نے اپنا حق رائے دہی استعمال ہی نہیں کیا۔ اس لئے یہ طے ہے کہ جب تک ملک میں خواندگی کی شرح 80 یا 90فیصد تک نہیں پہنچتی۔ اور الیکشن میں ٹرن آوٹ 80فیصد سے زیادہ نہیں آتا۔ اس وقت تک ووٹ کی پرچی کے ذریعے احتساب ممکن ہی نہیں۔آج قوم کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے۔ جس نے تمام قومی اداروں کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے۔ محاسبہ نہ ہونے کی وجہ سے قوم کے اربوں کھربوں روپے لوٹ کر ملک سے باہر منتقل کردیا گیا۔ کرپٹ سیاست دان، بیوروکریٹ اور اعلیٰ سرکاری افسران چوریاں چھپاتے اور ایک دوسرے کو بچاتے رہے۔ جب تک چوروں، خیانت کاروں اور بدعنوانوں کو پکڑ کر سرعام لٹکایا نہیں جاتا۔ اس وقت تک ملک ترقی کرسکتا ہے نہ ہی عوام کی حالت بدل سکتی ہے۔انتخاب سے پہلے احتساب مملکت خداداد پاکستان سے کرپشن کی لعنت کا خاتمہ چاہنے والے محب وطن لوگوں کا خواب ہے لیکن اسٹیس کو برقرار رکھنے اور موجودہ نظام سے فائدہ اٹھانے والے کبھی یہ نہیں چاہیں گے کہ سیاست سے گنداگیروں کا صفایا ہو۔کرپٹ عناصر کو ایوانوں تک پہنچنے سے روکنے کی ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ الیکشن کمیشن
کاغذات نامزدگی جمع کرانے والوں کی پوری چھان بین کرے۔ جن لوگوں کے خلاف مقدمات یا عوامی شکایات ہوں۔ ان کے کاغذات مسترد کردے۔ لیکن ایسا تب ہی ممکن ہے کہ الیکشن کمیشن مکمل طور پر بااختیار ہو۔ اور کسی بھی دباو سے آزاد ہو۔ہمارے پاس بس یہی ایک راستہ رہ گیا ہے کہ انتخابی عمل یونہی بلاتعطل جاری رکھنے کی دعا کریں ۔اورپاکستان کے بائیس کروڑ عوام کے اچھے دن آنے کی امید وں کے ساتھ جینے کی کوشش کریں۔ کیونکہ ناامیدی اور مایوسی گناہ ہے۔


شیئر کریں: