Chitral Times

Apr 18, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

کتاب المعارف (حصّۂ دوم)……… فکرونظر: عبدالکریم کریمی

شیئر کریں:

استادِ محترم ڈاکٹر عزیز اللہ نجیب صاحب کی تصنیف ’’کتاب المعارف‘‘ (حصۂ اوّل) پر تفصیلی بات ہوئی تھی۔ کچھ دن پہلے ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب کا حصّۂ دوم بھی عنایت کرکے مجھے حیرت میں ڈال دیا کہ اتنی جلدی میں حصّۂ دوم بھی زیور طباعت سے ہمکنار ہوا۔ میں نے شکریے کے ساتھ بے ساختہ ڈاکٹر صاحب سے سوال کیا تھا۔ اس پر انہوں نے یہ کہہ کر مجھے مزید حیرت میں ڈال دیا ’’کریمی! اگر وسائل ہوں اور علم کے قدرداں موجود ہوں تو میں ایک مہینے میں ایک کتاب لکھ سکتا ہوں۔ لیکن اس مادیت پرستی کے دور میں اور خصوصاً کتاب دشمنی اور علمی لوگوں کی کمی کی وجہ سے شائع شدہ کتابوں پہ بھی افسوس ہوتا ہے کہ جس محنت، لگن اور شوق سے کتاب لکھی گئی تھی اس کی پذیرائی اس کی عشر عشیر بھی نہیں ہوتی ہے۔‘‘

استادِ محترم بہتر جانتے ہیں کہ ہم جس دور میں زندگی گزارتے ہیں یہ دور، دورِ ٹھیکیداران یا انتظامی امور کے نام پر چھوٹی حیثیت کے لوگوں کو نوازنے کا دور ہے۔ جس کی وجہ علم اور علمی اثاثوں کی کال ہے۔ جوکہ ایک لمحۂ فکریہ ہے۔

ڈاکٹر صاحب سے اکثر سر راہ بھی ملاقات ہو جاتی ہے۔ ابھی بھی اس پیرانہ سالی کے باوجود ان کو پیدل دفتر جاتے ہوئے دیکھتا ہوں تو حیرت میں ڈوب جاتا ہوں۔
kitabul maarif
زمانے کی بے قدری تو دیکھئیے کہ آپ کا اسکالر پیدل سڑکوں کی خاک چھانتا ہوگا جبکہ چھوٹے چھوٹے لوگ کاروں میں فراٹے بھرتے پھر رہے ہوں گے۔ کہانی ختم نہیں ہوئی یہ چھوٹے چھوٹے لوگ جب اپنی چھوٹی چھوٹی ذہنیت کے ساتھ اسکالرز کی بے قدری بھی کریں تو سچ پوچھئیے مجھے اسماعیلی تاریخ کے ایک متنازعہ کردار بدرالجمالی اور ان کے بیٹے وزیر افضل یاد آتے ہیں۔ جنہوں نے اپنے دور میں نہ صرف دینی علما کو دیوار سے لگایا تھا بلکہ اسماعیلی تاریخ کے اٹھارویں امام حضرت مستنصر باللہ علیہ السلام کو بھی مشکلات میں ڈالا تھا اور اس کے نتیجے کے طور پر نزاری اور مستعلوی جماعت کی صورت میں اسماعیلی دو گروہوں میں تقسیم ہوگئے تھے۔ لیکن وقت بڑا مہربان ہوتا ہے اور تاریخ بڑی منصف کہ اب بھی بدر الجمالی یا وزیر افضل کا نام لیتے ہوئے احساسات میں قدرے تلخی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ جبکہ اس دور کے عظیم اسکالرز پیر ناصر خسروؒ، حمید الدین کرمانیؒ، قاضی نعمان، حسن صباح اور المؤئد فی الدین شیرازی کے علمی و ادبی سرمائے پر نظر پڑتی ہے تو انہیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کو دل کرتا ہے کہ اتنی بےقدری کے باوجود وہ تاریخ میں نہ صرف زندہ ہیں بلکہ ان پاکیزہ ہستیوں کا نام لینا بھی سکون کا باعث ہوتا ہے۔ شاید علم و ادب کی قدر حال سے زیادہ مستقبل میں ہوتی ہے۔ تاریخ یاد تو بدرالجمالی اور وزیر افضل کو بھی کرتی ہے اور ان اسکالر کو بھی لیکن اس یاد میں ایک فرق ہے بالکل اسی طرح جس طرح حضرت امام حسین علیہ السلام بھی تاریخ میں زندہ ہے اور یزید کا بھی تذکرہ ہوتا ہے۔ امام عالی مقام کا نام لیتے ہوئے درود و صلوات پڑھی جاتی ہے جبکہ یزید کا تذکرہ ہوتے ہی لعنت و ملامت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ بس یہی فرق ہے یاد کرنے کا۔

اس لیے علمی و ادبی لوگوں کی علمی کاوشوں کی زمانہ اور زمانے والے لاکھ ناقدری کریں لیکن وقت بڑا مہربان ہے۔ ہیرے اور کوئلے کی حیثیت کا فیصلہ تاریخ کرتی ہے اور تاریخ کا فیصلہ بڑا بے رحم ہوتا ہے۔ کیا تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دھرائے گی؟ اللہ کرے ایسا نہ ہو۔ کسی دل جلے نے خوب ہی کہا ہے؎

وہ وقت بھی دیکھا ہے تاریخ کی گھڑیوں نے
لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی

کتاب کا انتساب ان نا مساعد حالات کی ترجمانی کرتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کتاب کا انتساب اپنی شریکۂ حیات کے نام کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’میری رفیقۂ حیات بی بی مرینہ کے نام جنہوں نے وہ تمام صعوبتیں جھیلیں جن کا ہمیں کراچی منقل ہونے کے بعد سامنا کرنا پڑا۔ مجھے ملنے والی انتہائی قلیل تنخواہ پر گزر بسر کرنا اور دو بیٹیوں، دو بیٹوں کے تعلیمی اخراجات پورے کرنا تقریباً ناممکن ہوا۔ ان نا مساعد حالات میں اس با ہمت خاتون نے انتہائی صبر و شکر کے ساتھ بوری بازار سے خریدے جانے والے ڈیڑھ سو روپوں کے کپڑوں پر قناعت کی اور اپنے چاروں بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا۔ مرینہ بی بی صبر میں حضرت ایوبؑ کی چیلی ہے اور شکر میں حضرت نوحؑ کی۔ خدا انہیں سلامت رکھیں۔‘‘

اب ذرا بادل چھٹنے لگے۔ یہ سچ ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے لیکن یہی سوال کئی برس پہے جب میں ’’قندیل‘‘ کا ایڈیٹر تھا، ڈاکٹر صاحب سے انٹرویو لیتے ہوئے پوچھا تھا تو آپ کا جواب عجیب تھا۔ کہنے لگے:

’’کریمی صاحب! مجھے دو وجوہات کی بنا پر اس قضئیے میں ذرا تأمل ہے۔ اوّل یہ کہ یہ بات بعض حالات میں یا جزوی طور پر درست ہوسکتی ہے مگر کلّی طور پہ یا ایک اصول کی حیثیت سے نہیں۔ یہ ایک عامیانہ بیان ہے جس کا رواج زیادہ تر استقبالیہ تقریبات، کنسرٹ ہالز اور موسیقی کی محفلوں میں دیکھا گیا ہے جو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ خواتین کی داد حاصل کرنے کے لیےمردوں کی ایک خوش آمدانہ چاپلوسی ہے۔ ورنہ کوئی شخص بطور عکس و عدل یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ ہر ناکام مرد کے پیچھے ایک خاتون کا ہاتھ ہے۔ پھر کیا کیا جائے گا۔ دوم یہ کہ یہ ثابت ہونا ابھی باقی ہے کہ میں کوئی کامیاب مرد ہوں۔ اس لیے معذرت خواہ ہوں۔‘‘

بھلا اس میں کس کو شک ہے کہ جہاں ایک کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے تو وہاں لامحالہ ایک ناکام مرد کی ناکامی میں بھی بنتِ حوا پیش پیش ہے۔

یہ بات جملۂ معترضہ کے طور پر بیچ میں آگئی۔ بات ہو رہی تھی ڈاکٹر صاحب کی تصنیف ’’کتاب المعارف‘‘ کے حصۂ دوم کی۔ حسبِ سابق اس جلد میں بھی اسماعلی تھیولوجی پر بڑی گیرائی و گہرائی سے بحث کی گئی ہے۔ دو سو صفحات پر مشتمل اس کتاب کا پہلا باب آیات خداوندی کی معرفت کے گرد گھومتا ہے۔ اسی طرح بالترتیب دوسرا باب اسما الحسنیٰ کی معرفت، تیسرا باب کلماتِ تامات کی معرفت، چھوتا باب روح القدس (نفسِ واحدہ) کی معرفت، پانچواں باب خدا و رسولؐ کی امانتوں کی معرفت، چھٹا باب قیامت کی معرفت، ساتواں باب کنز مخفی (چھپے ہوئے خزانے) کی معرفت، آٹھواں باب خلیفۂ خدا کے مرتبے کی معرفت، نواں باب انسانِ کامل کے مقام کی معرفت، دسواں باب بہشت اور دوزخ کی معرفت، گیارواں باب دینی اعلام کی معرفت، بارواں باب وسیلۂ نجات کی معرفت، چودواں باب میزانِ عمل کی معرفت، پندرواں باب الکوثر کی معرفت، سولہواں باب حقیقت کی ذاتی تلاش اور اس کی معرفت، سترہواں باب حق کی معرفت، اٹھارواں باب شہادہ (شہادت) کی معرفت، انیسواں باب اسلام کے ارکان کی معرفت اور بیسویں باب میں آپ کے سوالات اور ان کے جوابات کے عنوان سے اکثر اسماعلی جماعت اور جماعت کے باہر سے پوچھے جانے والے مخصوص سوالات کا تسلی بخش جوابات دئیے گئے ہیں۔ آج کا دور چونکہ ٹیبل ٹاک کا دور ہے۔ علمی بحث و مباحثے کے ذریعے سے ہی آپ اپنے بارے میں دُنیا کو بتا سکتے ہیں۔ اور جب تک ہمارے درمیان ایک دوسرے کے بارے میں جاننے کی مثبت تجسس ہوگی ہم ایک دوسرے کے قریب آجائیں گے اور جتنی دوری ہوگی اتنی ہی غلط فہمیاں جنم لیں گی۔ اس حوالے سے ڈاکٹر صاحب کی یہ کاوش اسماعیلی مسلمانوں کے بارے میں جاننے کے لیے ایک راہ فراہم کرتی ہے۔

حوالہ جات و حواشی کتاب کی اہمیت کو اٹھان دینے کے لیے کافی ہیں جس میں بہت ساری کلاسیکل کتابوں کا حوالہ آپ کو ملے گا۔ اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ ڈاکٹر صاحب کی زیر تبصرہ کتاب ان کلاسیکل کتابوں کا حاصلِ مطالعہ ہے۔

کتاب کے آخر میں ڈاکٹر صاحب کی دیگر تصانیف و تراجم کی فہرست دی گئی ہے۔ کتابوں سے شغف رکھنے والے ڈاکٹر صاحب کی ان تصانیف سے بھی استفادہ کرسکتے ہیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
10144