Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

محکمہ تعلیم کے چشم کشا اعدادوشمار……………محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

محکمہ تعلیم خیبر پختونخوا کی حالیہ رپورٹ نے صوبائی حکومت کے ان دعووں کی نفی کردی ہے کہ صوبے میں سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار بہتر ہونے کی وجہ سے پرائیویٹ سکولوں سے ڈیڑھ لاکھ بچے سرکاری سکولوں میں داخلہ لے چکے ہیں۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق گذشتہ چار سالوں کے دوران پرائیویٹ سکولوں میں زیرتعلیم بچوں کی شرح 27فیصد سے بڑھ کر 31فیصد ہوگئی ہے جبکہ سرکاری سکولوں میں زیر تعلیم بچوں کی شرح 69فیصد سے کم ہوکر 65فیصد رہ گئی ہے جبکہ دینی مدارس میں زیر تعلیم بچوں کی شرح 4فیصد پر برقرار ہے۔رپورٹ کے مطابق 2014سے اب تک سرکاری سکولوں میں زیرتعلیم طلبا کی تعداد میں دو لاکھ 18ہزار کا اضافہ ہوا۔ جبکہ اس کے مقابلے میں پرائیویٹ سکولوں میں طلبا کی تعداد میں چار لاکھ60ہزار کا اضافہ ہوا ہے۔ تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا و طالبات کی تعداد 43لاکھ 80ہزار ہے جبکہ پرائیویٹ سکولوں میں 20لاکھ 69ہزار بچے زیر تعلیم ہیں ۔دینی مدارس میں پڑھنے والے بچوں کی مجموعی تعداد دو لاکھ 43ہزار ہے۔یوں خیبر پختونخوا کے دینی مدارس، پرائیویٹ اور سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی مجموعی تعداد66لاکھ 94ہزار سے زیادہ ہے۔جن میں دارالعلوم، سکول، مکتب، کالج اور یونیورسٹیوں میں تحصیل علم میں مصروف بچے اور بچیاں شامل ہیں۔ ان سرکاری اعدادوشمار سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں ۔ کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں وسیع پیمانے پر اصلاحات کے باوجود وہاں تعلیم کا معیار اتنا بہتر نہیں ہوا کہ صوبائی وزراء، اراکین اسمبلی، حکومتی اہلکار، سرکاری افسران اور خود سرکاری سکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکولوں سے نکال کر سرکاری سکولوں میں داخل کرنے کا رسک لے سکیں۔ 2014سے 2018تک میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے سالانہ امتحانات کے نتائج کوجانچا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ تمام اعلیٰ پوزیشنیں اب بھی پرائیویٹ سکولوں کے حصے میں آتی ہیں۔ سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے بچے مشکل سے ہی ٹاپ 20میں جگہ بناپاتے ہیں۔جس کی بنیادی وجوہات میں سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں میں پڑھایاجانے والا نصاب اور پڑھانے والے اساتذہ ہیں۔گریڈ چودہ سے اوپر کے درجات پر فائز اساتذہ پبلک سروس کمیشن کے ذریعے تعینات کئے جاتے ہیں۔ ان کی قابلیت پر اعتماد کیا جاسکتا ہے لیکن گریڈ سات سے چودہ تک کے اساتذہ کی اکثریت لکیر کے فقیروں پر مشتمل ہے۔ جن کی پیشہ ورانہ تربیت پر کسی حکومت نے توجہ نہیں دی ۔قواعد و ضوابط اور سروس کی بنیاد پر انہیں ترقیاں ملتی رہیں۔ آج سرکاری سکولوں کے اساتذہ کم سے کم 30اور زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ دو لاکھ تک تنخواہیں لے رہے ہیں ۔جبکہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں سے گنے چنے سکول ہی اپنے اساتذہ کو بیس پچیس ہزار روپے تنخواہ دیتے ہیں اکثر پرائیویٹ سکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ کی تنخواہ حکومت کی طرف سے مقرر کی گئی مزدور کی کم سے کم اجرت پندرہ ہزار روپے سے بھی کم ہے۔اوراکثر پرائیویٹ سکول اپنے اساتذہ کو چھٹیوں کی تنخواہ بھی نہیں دیتے جبکہ طلبا سے یہ فیسیں پیشگی وصول کرتے ہیں۔یہ اپنی جگہ مسلمہ حقیقت ہے کہ سرکاری سکولوں میں پڑھانے والے بعض اساتذہ رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی قابلیت کی مثالیں دی جاتی ہیں لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ سرکاری سکول قوم کا اثاثہ ہیں۔ یہ عوام کے ٹیکسوں سے چلتے ہیں۔ان کا معیار بہتر ہوگا تو قوم کو اس کی محنت کا صلہ ملے گا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے پہلی بار تعلیمی اداروں کی حالت سدھارنے کے لئے اقدامات کئے ہیں ۔ تعلیمی بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا ہے۔ اساتذہ کی کمی پوری کرنے اور سکولوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی پر بھی اربوں روپے خرچ کئے گئے ہیں لیکن جس رفتار سے ان سکولوں کا معیار بہتر ہونا چاہئے تھا۔ وہ اطمینان بخش نہیں ہے۔حکومت اور محکمہ تعلیم کے ارباب اختیار کو سرجوڑ کر سوچنا چاہئے کہ اربوں روپے کے قومی وسائل تعلیم پر لٹانے کے باوجود ان کا معیار بلند ہونے کا نام کیوں نہیں لے رہا۔اور لوگ اب بھی پرائیویٹ تعلیمی اداروں پر کیوں انحصار کر رہے ہیں؟؟


شیئر کریں: