Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

نواز شریف کا بیان اور اسٹبلشمنٹ……….. تحریر: ظہور الحق دانش

Posted on
شیئر کریں:

اس میں دو رائے نہیں کہ ملکی سیاست اور اندرونی معاملات میں اسٹبلشمنٹ کے غیرضروری بالواسطہ یا بلاواسطہ کردار کے ہم حامی نہیں رہے ہیں۔۔لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ گلوبل سیکیورٹی ڈائنامکس کے تناظر میں اپنی ریاستی اداروں کے کردار اور ریاستِ پاکستان کے تحفظ کی خاطر اُن کی قربانیوں کو یکسر نظر انداز کرکے اُنکو عالمگیر سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ دُنیا آج کل انٹلیجنس وار کی زد میں ہے اور کئی ایک ممالک کی ایجنسیاں ریاستِ پاکستان کی تذلیل اور تباہی کے پیچھے دن رات ایک کیے لگی ہوئی ہیں اور کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔۔ اسی تناظر میں ہمارے قابلِ فخر خفیہ ادارے ہی ہیں جو ایسی ایجنسیوں کا سارا گیم اُلٹا کرکے اُن کے منہ پہ دے مارتے ہیں اور وطنِ عزیز کی مٹی کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔۔ مثال کے طور پر کلبھوشن والا معاملہ اور آئی ایس آئی کی شاندار کامیابی کے بارے میں پڑھا جاسکتا ہے۔۔
اب اِن گلوبل اور ریجنل ڈائنامکس کے تناظر میں نواز شریف صاحب کے حالیہ بیان کو دیکھا جائے تو یہ انتہائی غیر اخلاقی اور غیرذمہ دارانہ بیان ہے جو نہ صرف مذکورہ ڈائنامکس کے تناظر میں ہمارے ریاستی اداروں کے جسیم کردار کی تذلیل ہے بلکہ عالمگیر سطح پر بھی ریاستِ پاکستان کے خلاف جذبات رکھنے والے ممالک اور اداروں کو اُکسانے کے مترادف ہے۔۔
ہمارا گلہ نواز شریف سے یہ ہے کہ جب وہ اسٹبلشمنٹ کی گود میں بیٹھے تھے تو سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا، اور ادارے بھی اپنی “آئینی حدود” میں کام کر رہے تھے۔ لیکن اب جا کے اس کے ذاتی و سیاسی مفادات سے ٹکراؤ کا مرحلہ آیا تو جناب ریاستی و آئینی اداروں کی تذلیل و تضحیک پر اتر آئے ہیں۔۔
میاں صاحب، ملک کی جمہوری تاریخ میں تین بار آپ حکومت کے سربراہ رہے، آپ سے زیادہ اور کس کو پتہ ہوگا کہ کچڑی کس طرح پَک رہی تھی؟ اُس وقت آپ کی عوام دوستی و جمہوریت دوستی کس مفاد کے ہاتھی کے کان میں سو رہی تھی؟
جب کچھ کر سکنے کا موقع تھا آپ نے کچھ نہیں کیا، جب موقع ہاتھ سے چلا گیا تو بے وقت اپنے اداروں کی تذلیل و تضحیک چہ معنی دارد؟
کیا اس کا مطلب ہم یہ لے سکتے ہیں کہ ابھی عالمِ بے بسی میں آپ اُن بیرونی طاقتوں کی توجہ چاہتے ہیں جن کے کردار کا طعنہ آپ مشرف جیسے آمر کو دیتے آئے ہیں؟
خدارا، ذاتی و سیاسی مفادات کے حصول کی خاطر ریاستی اداروں کو بیجا تذلیل و تضحیک کا نشانہ نہ بنایا جائے۔۔ یہ ہمارے ادارے ہیں، عوام کے ادارے ہیں، ہمارے محافظ ادارے ہیں، ہمارے پیسوں پر پلنے والے ادارے ہیں۔۔ ان کی کمزوریاں اور خامیاں اپنی جگہ، اندرونی معاملات میں انکی کمزوریوں کی تنقید بھی اپنی جگہ، لیکن عالمگیر سطح پر اُن کی اس طرح تذلیل کسی محبِ وطن پاکستانی کو ہرگز برداشت نہیں ہوگی۔۔
تم تو خواص ہو۔۔ خواص کا بھلا کیا جاتا ہے! ملک میں ہنگامی صورتحال آنے پر تم لوگ ایک ائیر ٹکٹ کے فاصلے پر ہو، کوئی فلائٹ پکڑ کر پانامہ جاؤگے تو کوئی نیویارک و لندن و دوبئی۔۔ مگر خدارا ہم عام پاکستانیوں پر کچھ رحم کرو۔۔ یہ مٹی تمہارے لئے تماشاگاہ ہو سکتی ہے لیکن ہمارے لئے یہی زندگی ہے اور یہی سب کچھ ہے۔۔ یہ مٹی ہم سے عبارت ہے اور ہم اس سے۔
افتخار عارف نے کیا خوب فرمایا ہے:
کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہوگا
یہی کٹھ پتلیاں رقصاں رہیں گی رات کی رات
سحر سے پہلے پہلے سب تماشا ختم ہوگا
چراغِ حجرہء درویش کی بجھتی ہوئی لو
ہوا سے کہہ رہی ہے اب تماشا ختم ہوگا


شیئر کریں: