Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

لہو روشنائی……… شام پر غیر جانبداری یا بے حسی……میاں‌احمد ڈار

Posted on
شیئر کریں:

کئی ایک عظیم آثار کی حامل سرزمینِ شام میں یقیناًشام پڑ چکی ہے ٗ اور سرزمینِ انبیاء اپنے ہی باسیوں کے خون سے سیراب ہو رہی ہے۔تین برِ اعظموں ایشیا ، یورپ و افریقہ کے سنگم اور بحیرہءِ رُوم کے مشرقی ساحل پر واقع اِس سرزمین کے چپے چپے کی ایک تاریخ ہے جہاں آپکو دنیا کی قدیم سے قدیم تہذیبوں اور تاریخی عمارات کے آثار جا بجا نظر آئیں گے۔ شام کی وادیاں ،اِسکے صحرا اور ساحل اپنے اندر صدیوں کی تاریخ سمیٹے ہوئے ہیں۔شام میں آپ چھ ہزار سال پرانی تاریخ کے آثار بآسانی دیکھ سکتے ہیں ۔عیسائیت کی بنیاد اِسی سرزمین پر رکھی گئی جبکہ اسلام کی آمد سے قبل سلطنتِ رُوما Great Roman Empireکا مرکز یہی سر زمین تھی۔طلوعِ اسلام پر جب آپ ﷺ کے ایک ایلچی نے شاہِ رُوم ’’ہرقل‘‘کو شام میں آپکا خط مبارک پیش کیا تو اُس نے اُسوقت مکہ سے شام کی منڈیوں میں تجارت کی غرض سے آئے ہوئے تاجروں کو ڈھونڈ لانے کا کہا،جس پر اتفاق سے نبی ؐ کے چچا ابو سفیان مل گئے جنہیں ہرقل کے سامنے پیش کیا گیا جہاں اُسکا نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ گرامی اور اُنکی دعوت کے متعلق ایک تاریخی مکالمہ ہُوا،جس کے اختتام پر ہرقل نے یہ تاریخی کلمات ادا کئے کہ ’’اگر یہ باتیں جو تم کہ رہے ہو ،سچ ہیں تو عنقریب جہاں میرے یہ پاؤں ہیں وہ اِس جگہ کا مالک ہو جائے گا‘‘(بحوالہ کتاب بخاری:7)چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ 15ہجری میں ایک عظیم تاریخی معرکے ’’جنگِ یرموک‘‘ کے بعد ہرقل کی پیشن گوئی سچ ثابت ہوتی ہے تو سرزمینِ شام اپنے دروازے مجاھدینِ اسلام کے گھوڑوں کے استقبال کیلئے کھول دیتی ہے ۔شامی دارالحکومت دمشق کے بارے میں کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ دنیا کا واحد شہر ہے جو کبھی بھی مکمل تباہ نہیں ہُوا اور شاید اپنے اِسی ’’جرم‘‘کی سزا کاٹ رہا ہے ٗ جس کیلئے ’’فرعونِ ثانی‘‘ بشارُ الاسد اپنے باپ سے ورثے میں ملی فرعونیت کا خُوب حق ادا کر رہا ہے جسکی بدولت کل دو کروڑ آبادی کے حامل اِس ملک کے نصف یعنی ایک کروڑ افراد تو بے گھر ہو چکے ہیں جبکہ تین لاکھ قتل اور پانچ لاکھ شدید زخمی جاں بلب ہوکر ہر لمحہ اپنی موت کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں کہ اب آئی کہ آئی۔آسمانی کتابوں اور قدیم صحیفوں کے اندر اِس سرزمین کو بہت مقدس شمار کیا گیا ہے جبکہ خود قرآن مجید میں لگ بھگ پانچ مقامات پر اِسے نہائیت بابرکت قرار دیا گیا ہے۔جہاں جَدُّ الانبیاء سیدنا ابراھیم ؑ ،لوط ؑ ،اسحاق ؑ اور یعقوب ؑ سے لیکر یوسف ؑ ،ایوب ؑ ،داؤد ؑ ،سلیمان ؑ ،موسیٰ ؑ اور عیسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر انبیاء و رُسل نے اپنے قدموں سے اِس سرزمین کو برکت بخشی۔شام اگرچہ زمانہء حال میں اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے لیکن جس طرح اِسکا ماضی بڑا بابرکت تھا اُسی قدر اِسکا مستقبل بھی یقیناًتابناک ہے جسکی گواہی صادق المصدوق زُبانِ اطہر سے ملتی ہے ٗ اِس حوالہ سے نبی ءِ مکرم جنابِ محمدُ رسولُ اللہ ﷺکا یہ فرمان عالی شان ہماری راہنمائی کیلئے کافی ہے کہ آپؐ نے فرمایا’’میں نے دیکھا کہ میرے تکیے کے نیچے سے کتاب کا ایک حصہ مجھ سے واپس لیا جا رہا ہے ٗ جسکا میری نظروں نے تعاقب کیا تواُس طرف بہت ہی نور پھوٹ رہا تھا۔میں نے دیکھا کہ وہ ’’شام‘‘ ہے ٗ خبردار ! جب فتنے رُونما ہوں گے تو ایمان شام میں ہی ہوگا۔‘‘(بحوالہ مستدرک حاکم:8554) سبُحان اللہِ العظیم ، یعنی فتنوں کے دور میں آپ ؐ نے ’’ایمان کا مرکز :شام‘‘کو ہی قرار دیا۔ایک اور مقام پر پیارے نبی ؐ نے شام کی عظمت کو کچھ اِسطرح سے بیان کیا کہ’’طُوبیٰ لِلشَّام: مبارک ہو شام کیلئے، (صحابہؓ کہتے ہیں) ہم نے عرض کی کہ کس چیز کی ؟تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ رحمن کے فرشتے اِس پر اپنے بازو بچھاتے ہیں‘‘۔(بحوالہ سنن ترمذی:3954)ایک اور موقع پر آنحضرت ﷺ نے شام کیلئے برکتوں کی دُعائیں فرمائیں، چنانچہ ہم کتابُ اللہ قرآنِ مجید فرقانِ حمید کے بعد حدیثِ نبوی ؐ کی سب سے معتبر ترین کتاب ’’بخاری‘‘میں آپ ﷺ کے فرمان کو اِن الفاظ کیساتھ لکھا ہوا دیکھتے ہیں ’’اللھم بارک لنا فی الشامنا‘‘۔(بخاری :7094) آپﷺ نے فتنوں کے دور میں شام میں ہی ٹِکے رہنے کی تلقین فرمائی،فرمایا:’’عنقریب ایک ایسا وقت آنے والا ہے جب تمھارے لشکر متفرق ہو جائیں گے ، ایک لشکر شام ایک یمن اور ایک عراق میں ہو گا۔صحابی نے پُوچھا اے اللہ کے رسول اگر میں اُس وقت کو پاؤں تو میں کہاں جاؤں؟آپ ؐ نے فرمایاکہ تم شام کیطرف جاناکیونکہ یہ اللہ کی بہترین سرزمین ہے اور اللہ اپنے بہترین بندوں کو چن کر یہاں اکٹھا فرمائے گا۔‘‘(بحوالہ مسند احمد :17005) سرزمینِ شام کے متعلق اِن تمام بشاراتِ نبویؐ کو دیکھ کر میرے جیسا تاریخ کا ادنیٰ طالبعلم اِس نتیجے پر بڑی آسانی سے پہنچ جاتا ہے کہ جیسی اہلِ شام نے قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کی ہیںیقیناًوہ ایسی ہی بشارتوں کے مستحق تھے۔آج اگرچہ بشارُالاسد کے اتحادی رُوسی طیاروں کی وحشیانہ بمباریوں کے نتیجے میں اُنکے اپنے گھر ہی اُنکی قبروں میں تبدیل ہو چکے ہیں لیکن آفرین ہے اہلِ شام کے حوصلوں اور جذبوں پر کہ وہ فرعونِ ثانی بشارُالاسد کی بربریت کے آگے اب تک استقامت کی دیوار بنے کھڑے ہیں ۔اب جبکہ اہلِ شام نے قربانیوں کی وہ لازوال داستانیں رقم کی ہیں کہ موجودہ دور میں جسکی کوئی نظیر نہیں ملتی تو یہ کیسے ہو سکتاتھا کہ اللہ اِن قربانیوں کا کوئی صلہ نہ رکھتا چنانچہ آپ اِن درج بالا بشاراتِ نبوی ؐ سے اِس بات کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اللہ ربُّ العالمین نے اپنے نبی کی زُبانِ مبارک سے اہلِ شام کو یہ فضیلتیں بخشیں جبکہ اِسکے ساتھ ساتھ اِنھی قربانیوں کے اعزاز میں نزولِ عیسیٰ ؑ کیلئے اِسی سرزمین کو مقرر کیا ،آپﷺ کے فرمودات کی روشنی میں قُربِ قیامت ہونے والی آخری جنگِ عظیم کا میدان اِسی’ شام‘ میں سجے گاجہاں اِسلامی فوجیں ’’امامِ مہدی‘‘ کی قیادت میں خیمہ زن ہوں گی۔حدیثِ نبوی ؐ کی نہائیت معتبر ترین کتاب ابوداؤد (3746) کے مطابق آپؐ کا فرمان ہے کہ’’یقیناًآخری جنگِ عظیم میں مسلمانوں کا خیمہ شام کے شہر ’غوطہ‘ جوکہ دمشق کے قریب ہے ٗ میں ہوگا۔‘‘اور آج اِنھی دنوں میں اہلِ غوطہ اپنے ہی خوں میں غوطے کھانے میں مصروف ہیں۔اِسقدر مقدس اور پُر فضیلت سرزمین کے باسیوں پر یُوں گولہ و بارود کی برسات ظلم و جبر اور بدبختی کی انتہا نہیں تو اور کیاہے؟جنکا جرم فقط گذشتہ 50سالوں سے قابض اسدی حکومت کے خلاف آواز بلند کرنا ٹھرا۔2011ء میں مشرقِ وسطیٰ میں آنے والی ’’عرب بہار‘‘کے نتیجے میں تیونس ،لیبیا،مصر اور شام میں موجودظالم و غاصب حکمرانوں کیخلاف انقلاب کا آغاز ہو ا تو تیونس کے حکمران زین العابدین نے 24سالہ ، لیبیا کے قذافی نے 42سالہ جبکہ مصر کے حسنی مبارک نے 40سالہ اقتدار سے مستعفی ہوکر ملک کو بہرحال تباہی سے بچا لیا مگر اپنے باپ سے ورثے میں ملی فرعونیت کا مالک ’’فرعونِ ثانی‘‘ بشارُ الاسد اقتدار سے ایسا چمٹا کہ چھوڑنے کا نام ہی نہیں لیتا،چنانچہ آج اُسکی حکومت انسانوں پر نہیں بلکہ اُسکے اتحادی رُوسی بمباریوں کے نتیجے میں تباہ شدہ عمارات کے کھنڈرات پر قائم ہے۔
اب جبکہ ایک طرف سرزمینِ انبیاء ’’شام‘‘ کی یہ المناک صورتحال ہے تو دوسری طرف عالمِ اسلام کی بے حسی نہائیت قابلِ افسوس ہے ،مسلم حکمران اِسے’’ شیعہ سنی لڑائی ‘‘ کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں جبکہ دنیا بھر کے شیعہ محض ایک شیعہ حکومت کو برقرار رکھنے کیلئے ظالم جابر اور 50سالہ آمرانہ’’ اسدی حکومت‘‘ کو سپورٹ کررہے ہیں جس کیلئے بالخصوص ایران حکومتی سطح پر علی اعلان اور لبنانی حزب اللہ رہنما حسن نصراللہ برملا ڈکٹیٹر بشارُ الاسد کی پشت پناہی میں جُتے ہوئے ہیں اور اپنے فوجی ،پیسے اور اسلحہ کے ذریعے بھرپور تعاون کر رہے ہیں۔ اِس مقصد کیلئے عراق سے ایک شدت پسند شیعہ لیڈر آیت اللہ سیستانی بہت متحرک ہے ٗ جو اپنے پیروکاروں کو بشارُ الاسد کی مدد کیلئے روانہ کر تا ہے۔افغانستان سے بھی ’’فاطمیون‘‘کے نام پر شیعہ نوجوانوں کو بھرتی کیا گیا جنھیں ایران لے جا کر باقاعدہ عسکری ٹریننگ کے بعدشام بھیجا گیاجبکہ اِسی طرح کی ایک بھونڈی کوشش وطنِ عزیز پاکستان میں بھی کرنے کی کوشش کی گئی اور بالخصوص’پاراچنار‘ کے قبائلی علاقے میں ’’زینبیون‘‘کے نام سے بھرتی کی گئی جسے ہماری سیکورٹی ایجنسیز نے نہائیت مناسب حکمتِ عملی کے تحت ناکام بنا دیا۔ضرورت اِس امر کی ہے کہ ملتِ اسلامیہ اور بالخصوص واحد اسلامی ایٹمی طاقت پاکستان کو شام میں مظلوم نہتے شہریوں اور معصوم بچوں کے بہیمانہ قتلِ عام پر ’’غیر جانبداری‘‘کا منافقانہ طرزِ عمل ترک کرکے ’’خاموش تماشائی ‘‘ بننے کی بجائے اپنا متفقہ نکتہ نظر واضح کرنا چاہیئے اور اِس جنگ کو ’’شیعہ سنی لڑائی ‘‘ کے زاویے سے دیکھنے کی بجائے مظلوم مسلمانوں کے تناظر میں دیکھنا چاہیئے۔ حال ہی میں قائم ہونے والا 34ملکی اسلامی اتحاد کہاں گھوڑے بیچے سو رہا ہے ؟ آخر وہ کس مرض کی دوا ہے ؟۔لہذا ’’ اسلامی اتحاد‘‘ کو شام کے مسئلہ پر اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ٗاُسے شامی ڈکٹیٹر حکومت پر زبردست دباؤ ڈالنا چاہیئے اور اِس مسئلے کو شامی عوام کی اُمنگوں کیمطابق جمہوری رائے عامہ کے ذریعے حل کیا جانا چاہیئے۔آخر میں یاد رہے کہ جہاں شام کے متعلق کثیر تعداد میں نبویؐ بشارات موجود ہیں، وہیں پر سخت نبوی ؐوعید بھی ہیں ٗ چنانچہ اِس حوالے سے ہمیں نبیﷺ کا یہ انتباہی فرمان بھی سامنے رکھنا چاہیئے کہ آپؐ نے فرمایا : ’’اذا فسد اھل الشام فلا خیر فیکم ۔ جب اہلِ شام تباہی کا شکار ہو جائیں تو پھر تم میں کوئی خیر باقی نہ رہے گی(سنن ترمذی)۔‘‘اِس بات میں کچھ شک نہیں کہ بطورِ عام شہری ہم اِس مسئلہ میں کوئی ایک بڑا کردار ادا نہیں کر سکتے لیکن رات کے پچھلے پہروں تہجد کے وقت ، تنہائیوں کے عالم میں پُر نم آنکھوں کے ساتھ مظلوم شامی بھائیوں کیلئے دستِ دُعا تو بلند کرسکتے ہیں کہ ؂ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے ، نیل کے ساحل سے لیکر تابخاکِ کاشغر.


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامین
9821