Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

رشتوں کی دنیا……………تحریر :اقبال حیات اف برغذی

Posted on
شیئر کریں:

حال ہی میں پنجاب میں ایک گھرانے کے چھوٹے بھائی کی اچانک موت کا صدمہ برداشت نہ کرتے ہوئے اس کے دوسرے دوبھائیوں کی زندگی کی بازی ہارجانے کا واقعہ دور حاضر کے تناظر میں اپنی نوعیت کے اعتبار سے انتہائی حیران کن نظرآیا۔ کیونکہ مادہ پرستی نے جہاں رشتوں ناتوں کی باہمی پیار اور خلوص کا بندن توڑ رکھی ہے۔ وہاں پوری انسانیت کو نفس پرستی کا مرض لاحق ہے۔ رشتوں کی لذت اور حرمت ختم ہوتی جارہی ہے۔ اور ہر کوئی بھیڑئے کاروپ دھار رکھا ہے۔ دل کا شفاف آئینہ خودغرضی،مفاد پرستی اور لالچ کی میل کچیل سے دُھندلاگیا ہے۔ اور ایک ہی خاندان اور چھت کے اندر رہتے ہوئے بھی اپنائیت نظر نہیں آتی۔ میں اور میرے الفاظ کا بول بالا ہے اور ہم اورہمارے الفاظ کم مائیگی کی کیفیت سے دوچار ہیں ۔ پیار اور محبت بھرے بول سننے سے کان ناآشنا ہوتے جارہے ہیں۔آنکھیں حقارت اور للچاہت کی عادی ہوگئی ہیں۔ ایک ساتھ دھڑکنے والے دل اپنے اپنے من کے گیت گارہے ہیں۔ حالانکہ ایمان اور عمل صالحہ کا خاصہ یہ ہے۔کہ یہ باہمی اخوت اور محبت کو پروان چڑھاتے ہیں۔ قرآن کے مطابق اللہ رب العزت ایمان اور عمل کے حامل افراد کے آپس میں قلبی اور گہری دوستی پیدا کرتے ہیں۔مگرآج کل ہمارے ان اوصاف میں کوتاہی کا شاخسانہ ہے کہ آپس کے باہمی تعلقات ذاتی اغراض کے تابع ہوتے جارہے ہیں۔گھروں کے اندر عداوت اور نفرت کی فضا نظرآتی ہے۔ مسلمان کو مسلمان کا بھائی ہونے کا تصور تو دور کی بات ایک ہی رحم مادر سے جنم لینے والوں کے اندر یہ جذبہ مفقودہوتا جارہا ہے۔ حالانکہ بھائی ایک ایسالفظ ہے جوزبان پر آتے ہی لذت اور مٹھاس کا احساس ہوتا ہے ۔ اس نام میں محبت کی خوشبو رچی بسی ہے اور اس نام سے دل میں ہمدردی اور محبت کی حرارت پید اہوتی ہے۔اس نام کو کھوار زبان میں قوت بازو،لخت جگر اور طاقت کے اوصاف سے سمویا گیا ہے۔ قرآن میں قیامت کا منظر اور نقشہ پیش کرتے ہوئے انسانوں پر بیتنے والے حالات کے مداوے کے معاملے میں بھائی کے بھائی سے بھاگنے کے تذکرے کو دوسرے رشتوں پر فوقیت دینا اس رشتے کی نوعیت کو اجاگر کرتا ہے۔ اور ساتھ ساتھ قرآن عظیم میں مسلمان کو مسلمان بھائی کے رشتے سے منسوب کرنا اس تعلق کی عظمت کا نشان ہے۔ اسلامی تاریخ حقیقی بھائیوں کی باہمی محبت کے واقعات سے جہان مزین ہے وہاں مسلمان کو مسلمان کا بھائی قرار دئے جانے کے بعد اس رشتے کیلئے دی جانے والی قربانیوں کا تذکرہ قصۂ پارینہ معلوم ہوتی ہیں۔ مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ جانے والوں کو مواخات کے ذریعے ایک دوسرے کا بھائی بنانے کے بعد ان کی آپس میں محبت کی خوشبو سے تاریخ کے اوراق آج بھی مہک رہے ہیں مگر بدقسمتی سے آج حقیقی بھائی کو بھی بار گیران تصور کیا جاتا ہے۔ دنیا کے ساتھ بھائی کو پیدا کرنے کا خدا سے گلہ کیا جاتا ہے۔ اور زیادہ بھائیوں کی صورت میں میراث کی تقسیم کے وقت والدین کو کوسا جاتا ہے۔ اس رشتے کا تقدس ایک دسترخوان پر بیٹھ کر کھانے کی حد تک کچھ نہ کچھ برقرار رہتا ہے۔ بہو گھر میں داخل ہونے کے بعد ترچھی نظروں کے تیر برسنے شروع ہوتے ہیں۔ اور بچوں کو چھوٹا اور بڑا گردہ دینے کا تنازعہ پیدا کرکے ایک دوسرے کے گریبانوں کی طرف ہاتھ اٹھنے لگتے ہیں۔ پگڈنڈی اور دیوار کے لئے بھائی کا مقدس لفظ دشمنی میں بدل جاتا ہے اور ایک ہی رحام میں کروٹ لینے کی حرارت اور ایک گود میں پرورش کی خوشبو باہمی نفرت اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے کا روپ دھار لیتے ہیں۔
اس رنگ اورڈھنگ کی زندگی اگرچہ ہر قسم کی نعمتوں اور پیٹ رنگ برنگی خوراک سے مستفید ہے مگر پیٹ کے جہاں سے بالشت بھر فاصلے پر دھڑکنے والا وجود کا بادشاہ خوشی نام کو ترستا ہے۔


شیئر کریں: