Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دنیا کی نظر سی پیک پر……….سونیا کریم برچہ

Posted on
شیئر کریں:

گوادر پورٹ پاکستان اور دنیا کی مشہور بندرگاہ جو عربین سی صوبہ بلوچستان پاکستان میں واقع ھے .گوادر پورٹ کو ١٩٥٤ میں پہلی مرتبہ بندرگاہ کے طور پر دیکھا گیا. مگر اس وقت اس پر کام نہیں ہو سکا تھا. ٢٠٠٧ میں اس کی تعمیر کے منصوبے کا کام شروع کروایا گیا. ٢٠١٥ میں یہ علان کیا گیا تھا کے کہ شمالی پاکستان اور مغربی چین کو گوادر سے ملا یا جائے. سی پیک منصوبے کے تحت ایک روڈ بنایا گیا جو گوادر پورٹ سے شروع ہوتا ہوا پنجاب سے ہو کر فاٹا جائے گا اور وہاں سے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے ہوتا ہوا چین کے صوبےزھنجیانگ اور کاشغر تک اختتام پذیر ہوگا . اس روٹ کو سی -پیک کا نام دیا گیا. یعنی( پاکستان، چائنا اکنامک کوریڈور). میڈل ایسٹ کا نقشہ دیکھئے تو ان میں وہ ممالک،جن میں تیل بہت زیادہ پایا جاتا ھے اور وہ ساری دنیا کو تیل مہیا کرتے ہیں.جن میں ایران ،عراق اور سعودی عرب ھے . یہ ممالک ( او پی ای سی ) کا حصہ ھے یعنی (آرگنائزیشن اف پٹرولیم اکسپورٹنگ کونٹریز ).وہ ممالک جن میں تیل کے زیادہ ذخائر موجود ہیں ان سے تیل بحری جہازوں کے ذریعے پاکستان، بھارت ،چین ،جاپان اور دیگرممالک کو سپلائی کیا جاتا ھے .یہ تیل گوادر پورٹ کے قریب سے ہوتا ہوا دنیا کے تقریبا ایک تھائی تیل دنیا کے مختلف ممالک کو سپلائی کیا جاتا ھے .گوادر پورٹ تکمیل کے بعد تیل کی اس سپلائی کو کنٹرول کر سکتا ھے . پاکستان میں تیل گوادر کے ہی راستے سے آ رہا ھے .گوادر پورٹ پاکستان کے لئے انتہائی اہم ھے.چین کل 130 ملین ڈالرز کی لاگت سے گوادر پورٹ کو سی-پیک کے ذریعے کاشغر سے کیوں ملانا چاہتا ھے؟
چین بھی تیل عرب ممالک سے خریدتا ھے . یہ تیل مختلف ممالک سے ہوتا ہوا عربین سی ،انڈین اشن اور پھر یہاں سے گزرتا ہوا اسٹیٹ اف ملاکا، پھر جنوبی چین کو عبور کرتا ہوا ھونگ کونگ پہنچتا ھے پھر شنگائی اور تیآنجن پورٹ تک پہنچتا ھے .چین کی تیل کی سپلائی کو چائنا ساؤتھ سی، سے گزرنا پڑتا ھے .ساؤتھ چائنا سی پر بہت سے ممالک اپنا حق جتاتے ہیں جن میں چین،ویتنام ،انڈونیشیا،ملائیشا ، تائیوان اور فلپائن شامل ھے.ہر ملک اپنے طور پر قبضہ جمانا چاہتا ھے .کیوں کی یہ اہم ٹریک ھے. اس لئے کوئی بھی ملک اس کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا ،جب کی چین نے اعلان کر دیا ھے کہ یہ علاقہ ہمارا ھے اور دوسرے ممالک اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے راضی ہی نہیں ہیں.مختصر یہ کہ جنوبی چین سی کے ساتھ منسلک جزیروں پر مشتمل یہ تمام ممالک اپنی فوج کو تعینات کر رہے ہیں اور وہاں تعمیرات بھی کر رہے ہیں. دوسری طرف امریکا ،چین کو دبانے کے لئے ویتنام،فلپائن،جاپان اور بھارت جیسے ممالک جو کی چین کےدشمن ھے ،ان کو ٹیکنالوجی اور دیگر ملیٹریہارڈویئر فراہم کرتا ھے.جن سے یہ ممالک اپنی فوجی طاقت بڑھا رہے ہیں .یہ چین کے لئے پریشان کن بات ھے اور جلد ہی بڑی جنگ کی طرف اشارہ ھے. جس کا ایک اور مقصد بھی ھے وہ یہ کہ ساؤتھ چائنا سی کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا کیوں کہ یہ جاپان کا اہم ترین روٹ بھی ھے جس پر چائنا اور جاپان دونوں قبضہ کرنا چاھتے ہیں. دونوں،چین اور جاپان ایک دوسرے کے کھلے دشمن ہیں .اگر چین اس پر قبضہ کرتا ھے تو جاپان کی سپلائی کاٹ سکتا ھے اور اگر جاپان اس پر قبضہ کرتا ھے تو چین کی سپلائی کاٹ سکتا ھے .چین سی – پیک کے ذریعے اپنی سپلائی شروع کروا کے اپنے دشمن ممالک کو منہ توڑ جواب دینا چاہتا ھے اور چین سی- پیک کے ذریعے بہت ہی کم فاصلے سے دنیا کے دوسرے ممالک سے تجارت بھی کر سکتا ھے اور پھر اپنے ملک کی آبادی کی زیادتی بھی کم کر پا ئگا، کیوں کہ کاشت کار ویسٹ پارٹ میں ہیں اور جب یہاں تجارت بڑے گی تو ایسٹ پارٹ سے ویسٹ پارٹ کی طرف رخ کریںگے کیوں کہ ویسٹ پارٹ میں آبادی بہت کم ھے. چین گوادر پورٹ کے ذریعے اپنے دشمن ممالک کا ٹریک روٹ بھی قابو کر پایئے گا اور پاکستان کو سی – پیک سے ملک میں خوشحالی آیئے گی اور پاکستان چین کے علاوہ روس کا بھی ٹریک روٹ بنے گا، کیوں کہ روس سی پیک کا حصہ ھے .اس سے چین کے صوبےزھجیانگ سے راستہ لے کر روس سے جوڑے گا . سی پیک سے پاکستان میں بےروزگاری کم ہوگی،معشیت مضبوط ہوگی اور دہشتگردی بھی کم ہوگی .اس وجہ سے بہت سے ممالک ایسے بھی ہیں جو کہ سی پیک کوختم کروانا چاھتے ہیں اور اس منصوبے کے خلاف ہیں. اس منصوبے کو روکنے کے لئے بہت سے حربے آزما رہے ہیں جو کہ ناکام رہے ہیں.سی پیک کی سکورٹی کے لئے پاکستان آرمی اور چین کی آرمی مل کر کام کرینگیں.انے اور جانے والے گاڑیوں اور بحری جہازوں کو مکمل سیکورٹی فراہم کریںگےاور سی پیک میں بنائے جانے والے راستے اور اس پورے منصوبے میں پاکستان آرمی کا کردار انتہائی اہم رہا ھے .سی پیک پایہ تکمیل کی طرف رواں دواں ہے،جس سے نہ صرف بلوچستان اور گلگت بلتستان ترقی کریں ینگے بلکہ پورا پاکستان ترقی کرےگا. (انشاالله). پاکستان زندہ باد.
( سونیا کریم برچہ -جناح یونیورسٹی کراچی ).


شیئر کریں: