Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

کیا یہی ہے رخت سفر میر کارواں کیلئے؟………….. تقدیرہ خان رضا خیل

Posted on
شیئر کریں:

خشونت سنگھ کی تحریریں بولڈمگر معنی خیز ہیں۔ وہ پہلے معاشرتی برائیوں کا کینو س پھیلاتا ہے اور آخر میں ان کے مضمرات سے نہ صرف آگاہ کرتا ہے بلکہ خوف بھی دلاتا ہے۔ خشونت مٹی کا انسان تھا اور اسے اپنی مٹی سے بے حد لگاؤ تھا۔ وہ جہاں بھی گیا، جس عہد اور مرتبے پر فائز ہوا ھڈیالی، خوشاب ، کوہستان ، نمک، جہلم ، ٹلہ جوگیاں، لاہور اور نمک کی بوریوں سے لدھے اونٹوں کے کاروان اس کے ساتھ رہے۔ وہ کانگریسی تھا مگر گاندھی کا پیروکار نہ تھا ۔ وہ ٹیگور کو بھی بڑا شاعر مانتا تھا مگر اقبالؒ کی مریدی کا اعتراف کرتا تھا۔ اس کے سارے پسندیدہ شاعر مسلمان تھے جن کے ریفرنس کے بغیر وہ اپنی کوئی تحریر مکمل نہیں کرتا۔
وہ لکھتا ہے کہ اقبالؒ ایک شاعر، مصلح، قانون دان، سیاستدان یا فلاسفر ہی نہیں بلکہ ایک عہد کا نام ہے جو ماضی، حال اور مستقبل تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کا وجود فنا فی اللہ، فنا فی الرسول اور فنا فی النفس ہے۔ وہ ایسا عہد ہے جس کا تعلق اور رشتہ ہر دور سے منسلک ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ اقبالؒ کا ایک ہی شعر قائد اعظمؒ کی سوانح حیات کا ترجمان ہے۔
نگاہ بلند، سخن دلنوار، جاں پر سوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
قائد اعظمؒ اقبال ؒ کے اس شعر کی تشریح اور تصویر تھے ورنہ نوابوں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی جماعت مسلم لیگ کے لیے کسی طور ممکن نہ تھا کہ وہ لارڈ مونٹ بیٹن، پٹیل، گاندھی، نہرو، مولانا آزاد اور دیگر شاطر سیاستدانوں کا مقابلہ کرتے ہوئے محض سات سال کی قلیل مدت میں پاکستان بنا لیتے۔ ایس کے موجمدار اپنی کتاب (جناح اور گاندھی) میں لکھتے ہیں کہ قائد اعظمؒ شخصیت اور کردار کے حوالے سے ہمیشہ گاندھی پرحاوی رہے ۔گاندھی کے قول و فعل میں تضاد تھا اگر برطانوی حکومت اور وائسرائے ہندکی پشت پر کھڑے نہ ہوتے تو نہروسبھاش چندر بوس اتحادابتداء ہی میں گاندھی کو واپس افریقہ بھجوا دیتا۔ بر طانو ی حکومت اور وائسرائے نے نہرو سبھاش اتحاد تو توڑ دیا مگر قائد اعظمؒ جیسے عظیم شخص کے سامنے انگریز کی کوئی چال کا میاب نہ ہوئی۔

پاکستان بننے کے بعد کے حالات کا جائزہ لیں تو ہمیں کوئی ایسا قائد یا لیڈر نظر نہیں آتا جو اقبالؒ کے نظریے کا کسی حد تک ہی ترجمان ہو۔ ہر طرف افراتفری، نفسا نفسی ، خود غرضی، خود فریبی اور خوش فہمی کے دیوتاؤں کے بت سیاست، صحافت، دانشوری، اور دانائی کے لبادے اوڑھے کھڑے ہیں اور عوام ان کی پوجا میں عافیت سمجھتے ہیں ۔ ہم قائد اعظم ؒ اور اقبالؒ کا نظریہ بول کر زرداری اور نواز شریف کے نظریے پر یقین کر چکے ہیں اور تباہی کے دھانے پر کھڑے آخری جھٹکے کے منتظر ہیں۔ دانشوری اور دانائی قابل فروخت اشیاء میں شامل ہیں اور صحافت چانکیای اور میکا ولین نظریات کی تشہیر کانام ہے۔ صحافت، سیاست اور دانش کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کا دوسرا نا ہے اور زمانہ حال کا سب سے بہترین اور منافع بخش کاروبار ہے۔

یہاں نواز شریف بار ہا کہہ چکے ہیں کہ وہ اب ایک نظریاتی سیاستدان ہیں اور ان کا نظریہ وہی ہے جو سرحدی گاندھی جناب باچا خان ، عبد الصمد اچکزئی ، الطاف حسین اور شیخ مجیب الرحمن کا نظریہ تھا۔ بینظیر بھٹو، نوازشریف، جنرل پرویز مشرف اور چوھدری شجاعت حسین کے آستانوں اور لنگروں کے ذائقے چکھنے اور سیاسی فیض حاصل کرنے والے مشاہد حسین سید ایک با پھر میاں نواز شریف کے نئے نظریے کی تشہیر کا مشن لے کر میدان عمل میں ہیں اور جگتو فرنٹ بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ فرنٹ پاکستان، نظریہ پاکستان ، اسلام ، عوام، افواج پاکستان اور محبان پاکستان کے اس نظریے کی نفی کرے گا جس کی بنیاد اتحاد، تنظیم اور یقین محکم ہے۔ہو سکتا ہے کہ جگتو فرنٹ میاں برادران کو ایک بار پھر ملک کی بادشاہت سونپ دے مگر انجام کیا ہو گا اس کی کسی کو فکر نہیں۔ مشاہد حسین نے حال میں قوم پرست جماعتوں اور تنظیموں کے نمائندوں سے تفصیلی ملاقات کے بعد ایک انٹرویو میں بتایا کہ میاں نوازشریف کا یہ بیان کہ ووٹ کو عزت دو عوام میں مقبول ہو رہا ہے اور عوام میاں صاحب کے نظریے پر متفق ہے۔ عارف نظامی نے شاہ صاحب سے یہ نہیں پوچھا کہ تین بار عوام نے دھوکہ کھانے کے بعد چوتھی بار یہ کیسے یقین کر لیا کہ اس بار میاں برادران انھیں سونے کے چمچے سے کھلائیں گے۔ عارف نظامی کو یہ بھی پوچھنا چاہیے تھا کہ میاں نواز شریف ان کے نظریے کو اپنا کر ووٹ کے تقدس کی بات کرتے ہیں انھیں تو عوام میں پذیرائی ہی نہیں اور وہ کبھی بھی نظریہ پاکستان کے حامی نہیں رہے۔ عارف نظامی اور ان کے سدا مسکرانے والے معاون کو دانشور پاکستان سے یہ بھی پوچھنا چاہیے تھا کہ جو لوگ بھارت کے ایماء پر کالا باغ ڈیم اور بھاشا ڈیم سمیت دیگر ڈیموں کی مخالفت کر رہے ہیں اور ملک کو بنجر اور عوام کو بھوکوں مارنے کے منصوبے پر کاربند ہیں آپ انھیں عطاروں کے لونڈوں سے کونسی دوا مانگنے چل پڑے ہیں۔پشتون تحفظ موومنٹ ، بی ایل اے، کشمیر لبریشن فرنٹ مہاراجہ گروپ، بشیر چوھدری اور شوکت کشمیری گروپ سمیت درجنوں نئی تحرکیں جنم لے رہیں ہیں جو آنے والے دنوں میں نئے مسائل پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کر چکی ہیں۔ نوائے وقت کی رپورٹ کے مطابق پشتون تحفظ موومنٹ کو حال ہی میں لندن اور کابل سے ایک ملین ڈالر بھجوائے گئے ہیں ۔ کیا آپ کو اس کی کچھ خبر ہے اورعباسی حکومت تحفظ پاکستان کے لیے کیا کر رہی ہے۔

اس وقت پاکستان دہشت گردی ، افراتفری، بے یقینی، عدم تحفظ، معاشی بد حالی، سیاسی ابتری، اندرونی خلفشار اور بیرونی یلغار کا شکار ہے جس کی ذمہ داری زرداری اور نوازشریف پر ہے اور شاہد خاقان عباسی اپنے قائدین کے نظریے پر گامزن عدلیہ اور فوج کے خلاف محاذ آرائی میں مصروف ہیں۔
خشونت سنگھ اپنے مضمون( بھارتی قائدین:خس کے پتلے کے عنوان سے لکھتا ہے) لیدروں کو نہیں بلکہ قوموں کو وقت گزرنے کے ساتھ عقلمند، سمجھدار اور ذہین ہونا چاہیے۔ انھیں ایسے لیڈروں کا چناؤ کرنا چاہیے جو ان ہی کی طرح اور ان جیسے ہوں۔ بصورت دیگر وہ غلاموں اور اچھوتوں جیسی زندگی گزار یں گے اور لیڈر انھیں رعایا سمجھ کر برا سلوک کریں گے۔ وہ لکھتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے حالات دیکھتے ہوئے مجھے ونسٹن چرچل کے یہ توہین آمیز الفاظ یاد آ رہے ہیں جو اس نے پارلیمنٹ میں آزادی ہند اور تقسیم ہند کی مخالفت میں کہے ۔ ہماری آزادی سے چند روز پہلے اس نے کہا۔

(اقتدار بد معاشوں، رہزنوں اور لٹیروں کے ہاتھ چلا جائے گا۔ پانی کی ایک بوتل اور روٹی کا ایک ٹکڑا بھی ٹیکس سے نہیں بچے گا۔ صرف ہوا مفت ملے گی اور ان کروڑوں بھوکوں، بیماروں، بد حالوں اور بے آسراؤں کا خون وزیراعظم کلیمنٹ اٹیلی کے سر ہو گا) وہ کہتا ہیکہ کسی ہندی اور پاکستانی لیڈر نے اس بیہودہ حطاب کا جواب نہ دیا۔ نہ غربت ختم کی ، نہ عوام کو تعلیم دی، نہ امن دیا، نہ بیماری کا سد باب کیا، نہ روزگاردیا اور نہ رزق کے مواقع فراہم کیے۔ عوام رعایا بن گئے اور جمہوریت کے لبادے میں لیڈر بادشاہ بن گئے۔ دیکھا جائے تو بھارت نے کسی حد تک اسکا تدارک کیا مگر پاکستان میں اس خطاب کو خطبہ سمجھ کر اس پر عمل کرنا شروع کر دیاگیا۔ ہمارے سیاستدانوں ، دانشوروں صحافیوں اور خاص کر وزرائے خزانہ نے عوام سے سب کچھ چھین کر اپنے ذاتی خزانوں میں دال دیا اور آج ڈھٹائی سے کہہ رہے ہیں کہ ہم مظلوم ہیں ہمیں کیوں نکالا۔ ہمارا لائف سٹائل شاہانہ ہے اور ہمارے طالب علم بچے اگر کھرب پتی ہیں تو تمہیں کیا تکلیف ہے؟ مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ میاں نوازش ریف کا نیا نظریہ ، مجھے کیوں نکالا اور ووٹ کو عزت دو کا نعرہ عوام میں مقبول ہو رہا ہے۔ مشاہد حسین سے کوئی پوچھے کہ میاں صاحب نے خود ووٹ کو کتنی تعظیم دی ہے؟ میٹروٹرین، بس اور موٹرویز ضروری تھے یا ڈیموں کی تعمیر؟ پہلے سے موجود سڑکوں کی بحالی، صحت ، صفائی، روزگار اور تعلیم کے مواقع کی فراہمی کی ضرورت تھی یا مودی سے ذاتی تعلقات، کھربوں ڈالر کی بیرون ملک جائیدادیں اور نا اہل لوگوں کی اداروں میں تعیناتی کیا یہ ووٹ کی توہین نہیں؟ووٹر کی بیچارگی کا رونا روتے ہوئے خشونت سنگھ لکھتا ہے کہ یہ ایک المناک مخمصہ ہے۔ ووٹر ہر بار ووٹ دے کر پشیمان ہوتا ہے مگر پھر دھوکہ کھا تا ہے چونکہ ووٹ اس سے لیا نہیں بلکہ چھینا جاتا ہے ۔ یہ کام سیاسی ورکر نہیں بلکہ سیاسی غنڈے کرتے ہیں اور پھر اقتدار میں حصہ لیتے ہیں۔ وہ سیماب اکبر آباد ی کا شعر عوام کی مجبوری کی صورت میں لکھتا ہے ۔ ووٹر ہر بار کہتا ہے۔

پھر لوٹ آیا ہوں تمہارے پاس، میر کارواں
چھوڑ آیا تھا جہاں تو، وہ میری منزل نہ تھی

وہ لکھتا ہے کہ علامہ اقبالؒ نے قائد کے تین اوصاف بیان کیے ہیں۔ نگاہ بلند ،سخن دلنواز اور جاں پرسوز، وہ اس ضمن میں کچھ بھارتی سیاستدانوں کا ذکر کرتا ہے جو ان اوصاف سے مزین ہیں۔ زرداری اور نواو شریف کے پاکستان پر نظر دوڑائی جائے تو ہر طرف مشاہد حسین سید کے سیاسی مظلوم ، شاہد خاقان عباسی کے من پسند لیڈر اور جگتو فرنٹ کے لٹھ بردار نظر آتے ہیں۔ عارف نظامی صاحب سے گزار ش ہے کہ وہ کسی سیاسی دانشور سے یہ تو پوچھیں کہ جو کچھ ان کے مظلوم کھرب پتی لیڈر کر رہے ہیں کیا یہی ہے رخت سفر میں کارواں کے لیے؟


شیئر کریں: