Chitral Times

Apr 16, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

میں سوداگر، سپنے لایا ہوں……………. پیامبر….. قادر خان یوسف زئی

Posted on
شیئر کریں:

سعودی عرب کی داخلی و خارجی تبدیلیوں پر چہار اطراف سے مختلف آرا کا اظہار کیا جارہا ہے۔ لبرل ، سیکولر اور مغربی حلقے شاہی حکمرانوں سے قدامت پسند نظریات ختم کرنے کے مطالبے کرتے رہے تھے ۔ اب جبکہ سعودی عرب ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے تو سعودی حکمرانوں کی داخلی و خارجی پالیسیاں خاص و عام میں موضوع بحث بنی ہوئی ہیں۔اس وقت سعودی سرزمین ’ حوثی باغیوں کے میزائل حملو ں کے سبب خطرات میں گھری ہوئی ہے تو دوسری جانب’ یمن جنگ‘ خاتمے کے آثار بھی نظر نہیں آتے۔ شاہی خاندان کے بااثر شہزادوں کے خلاف سب سے بڑی کاروائی نے سعودی حکمرانوں کے پہلے رخ کو نمایاں کردیا تھا کہ آل سعود اقتدار کے راہ میں آنے والی مشکلات کا قبل ازوقت سدباب کرنے کے خواہاں تھے ۔ چونکہ شاہی خاندان کے قوانین اپنی مملکت میں انتہائی سخت ہیں اور عام سعودی شہری سمیت خواص پر بھی سخت انٹیلی جنس رکھی جاتی ہے ا س لئے کسی بھی ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لئے نرمی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا ۔ تاہم سعودی شاہی خاندان کے حکمرانوں نے نئے سعودی عرب کے خدوخال واضح کرنا شروع کردیئے ہیں ۔ خواتین پر عائد پابندیوں میں نرمی کرتے ہوئے شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے خواتین کو ڈرائیونگ کرنے کی اجازت دینے کا شاہی فرمان جاری کرکے دنیا بھرکی داد و تحسین وصول کی۔ اب سعودیہ میں خواتین کاروں کے علاوہ سائیکل اور ٹرک بھی چلا سکیں گی۔ خواتین کو فٹ بال کا میچ اسٹیڈیم میں دیکھنے اوربغیر محرم سعودی عرب میں داخلے کی اجازت بھی دی گئی۔ ایک لاکھ خواتین ڈرائیور بن جانے کے امکانات پر کروڑوں ریال کی بچت ہونے کی توقعات ظاہر کی گئی۔سعودی عرب نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ دارلحکومت ریاض کے ایکوفرینڈلی اپیکس سینیٹر میں26مارچ سے 31مارچ تک فیشن شو کا انعقاد کرتے ہوئے اکتوبر میں دوسرے ایڈیشن کا بھی اعلان کردیا۔ اس سے قبل عرب فیشن لیگ پیرس ، دوبئی سمیت دیگر ممالک میں منعقد ہوتا تھا ۔ موسیقی کے دلدادہ خواتین کے لئے ریاض میں ہی کنگ فہد کلچرل سینیٹر میں میوزیکل کنسرٹ کے انعقاد نے بھی دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ سعودی عرب اب واقعی بدل رہا ہے۔ لبنانی گلوکارہ حبا رواجی کے علاوہ بھی بین الاقوامی فنکاروں نے کئی میوزیکل کنسرٹ کئے۔ 35برس بعد پہلے بلیک پینتھر سنیما کا 18اپریل کوافتتاح اور پانچ برسوں کے اندر چالیس اور 2030تک 100کے قریب جدید ترین سنیما گھروں کے قیام کا منصوبہ منظور کرلیا گیا۔گزشتہ دنوں مقبول سعودی کارڈ گیم بالوٹ کا پہلا ٹورنامنٹ کا افتتاح کیا گیا ۔ یہ پہلا قومی بالوٹ چمپئن شپ ٹورنامنٹ کنگ عبداللہ پٹرولیم سٹڈیز اینڈ ریسرچ سینٹر میں 18اپریل تک جاری رہے گا۔

سعودی عرب میں سماجی حوالے سے کئے جانے والے یہ اقدامات یقیناََ قدامت پسندی سے جدت پسندی کی جانب راغب ہونے کی نشان دہی کررہے ہیں ۔لیکن اس کے ساتھ ہی شاہی حکمرانوں نے خارجہ پالیسیوں میں بھی بڑی نمایاں تبدیلیوں کی جانب قدم بڑھا دیا ہے ۔ سعودی عرب نے بھارت کی ائیر لائن کواسرائیل کی پروازوں کے لئے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی بھی اجازت دے دی ۔اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا کہ بھارت اسرائیل پروازیں سعودی فضائی حدود سے گزریں گی، اور پھر کچھ دن بعد ہی سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان نے واشگاف اعلان کردیا کہ فلسطین کی طرح اسرائیل کو’ اپنی سرزمین کا حق145حاصل ہے۔ محمد بن سلیمان نے یہ اظہار امریکی جریدے اٹلانٹک کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔انٹرویو کے دوران ان سے پوچھا گیا، ’’کیا یہودی عقیدے کے لوگوں کو تاریخی طور پر ان کے آبائی وطن میں ریاست بنانے کا حق ہے؟‘‘ تو ان کا جواب تھا، ’’میری رائے میں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کو اپنی سرزمین کا حق حاصل ہے۔‘‘سعودی ولی عہد نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں بہتری کا اقرار کرتے ہوئے مزید کہا کہ گوکہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ابھی استوار نہیں ہے تاہم اسرائیل کو حلیف قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ سعودی عرب اور اسرائیل کا مشترکہ دشمن ایران ہے۔ محمد بن سلیمان نے ایران کے خلاف جنگ کرنے کے امکان کو بھی مسترد نہیں کیا کہ سعودی عرب ایران پر حملہ کرسکتا ہے۔ جوہری طاقت بننے کا عزم بھی ظاہر کیا۔ قطر کے خلاف پابندیوں سمیت اخوان المسلمین کے خلاف اقدامات اس کے علاوہ ہیں۔
سعودی عرب ( سرزمین حجاز)سے مسلم امہ کو خاص انسیت اور محبت اس لئے حاصل ہے کیونکہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے گھر ہیں ۔ حج کے لئے خانہ کعبہ اور مسجد بنوی میں نبی آخر الزماں ﷺ کے ساتھ دلی محبت کی وجہ سے سر زمین حجاز کے تقدس کو مقدم رکھنا ملت اسلامیہ کے لئے ہمیشہ اولین فرض رہا ہے۔لیکن جس طرح سعودی شاہی خاندان جدت پسندی میں اپنی مخصوص ترجیحات میں مسلسل تبدیلی لا رہا ہے اس سے مسلمانوں کو سخت تشویش کا بھی سامنا ہے ۔ خاص کر اس وقت ملت اسلامیہ کو جن نامساعد حالات کا سامنا ہے ۔ اس کے سدباب کے لئے امت مسلمہ کی توجہ کا مرکز 35مسلم اکثریتی ممالک کے تعاون سے 14دسمبر2015کو قائم ہونے والی اسلامی فوجی اتحاد پر مرکوز ہے ۔ جس کے خدوخال ابھی تک واضح ہی نہیں ہوسکے کہ یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف کاروائی کے علاوہ یہ فوجی اتحاد اپنے قائم ہونے کے اغراض و مقاصد پر کب کاربند ہوگا ۔ اتحاد کے مطابق اس کا مقصد یہ ہے کہ ”مذہب اور نام سے قطع نظر ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف مزاحمت اور جنگ کا محاذ قائم کیا جائے ۔”لیکن امت مسلمہ اس وقت اس فوجی اتحاد کو یمن کے علاوہ کہیں بھی متحرک نہیں دیکھ رہی ۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ فوجی اتحاد صرف سعودی سرزمین کو حوثی باغیوں کو روکنے کے لئے بنایا گیا ہے۔ امت مسلمہ کا خیال تھا کہ برما میں روہنگیائی مسلمانوں کے خلاف مظالم کو روکنے کے لئے یہ فوجی اتحاد اپنا کوئی کردار ادا کرے گا لیکن بد قسمتی سے روہنگیائی مسلمان انتہائی ابتر و مشکل ترین صورتحال کا شکار ہیں ۔ دنیا کی مظلوم ترین اقلیت روہنگیائی مسلمانوں کی نسل کشی کو روکنے والا کوئی نہیں ۔ روہنگیائی مسلم خواتین کے بڑی تعداد بنگلہ دیش میں انسانی بھیڑیوں کے ہتھے چڑھ رہی ہے عصمتیں پامال ہو رہی ہیں ، چند لقموں کے لئے عزت و حرمتیں قربان کی جا رہی ہیں۔ تو دوسری طرف سونے چاندی اور ہیرے جواہرات سے محلات بنائے جا رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت قابض افواج کی جانب سے ظلم و بربریت کا جو طوفان برپا ہے ۔ اس پر اقوام عالم کی خاموشی اور اسلامی فوجی اتحاد کا غیر فعال کردار امت مسلمہ میں سخت مایوس پھیلا رہا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ شام میں جس طرح نہتے ، معصوم اور بے گناہ عوام استعماری قوتوں کا نشانہ بن رہے ہیں انہیں روکنے والے اپنی طاقت کے مظاہرے نہتے معصوم بچوں اور خواتین سمیت ہسپتالوں میں کررہے ہیں۔ عرب ممالک تو اُس فلسطین پر بھی خاموش بیٹھے ہوئے ہیں جس کے تحفظ کے لئے عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔آج اسرائیل جس طرح فلسطین میں فسطائیت کا مظاہرہ کررہا ہے اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی ۔ عراق ، شمالی افریقہ سمیت افغانستان میں جس طرح استعماری قوتیں نہتے انسانوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں اور مسلمانوں کی نسل کشی کررہے ہیں اس کے بعد قیامت کا انتظار کس کو ہوگا۔

سعودی عرب اپنے معاشی اصلاحاتی ویژن 2030پر جس طرح چاہے عمل کرے یہ اس کا داخلی معاملہ ہے۔ لیکن جب مسلمانوں کا قبلہ ہونے کی وجہ سے واجب تکریم کہلاتا ہے تو ان پر بھی کچھ حدود و قیود فرض ہوجاتی ہیں ۔ امت مسلمہ ایران کے بڑھتے اثر و رسوخ کو فرقے و مسلک کے نکتہ نظر سے دیکھتی ہے۔ خانہ جنگیوں میں فرقہ کے نام پر انسانیت کے قتل پر قوم مسلم کی کمزوری پر گریہ کرتے ہیں۔ لیکن جب سعودی مملکت ایک ایسی فوج اسلامی اتحاد کے نام سے بنا کر کہتی ہے کہ ”مذہب اور نام سے قطع نظر ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف مزاحمت اور جنگ کا محاذ قائم کیا جائے گا ۔”تو پھر سعودی اصلاحات پر نہیں بلکہ اس کے یکطرفہ اقدامات پر سوال ضرور اٹھیں گے ۔ یا تو سعودی عرب اس دعوے سے دستبردار ہوجائے کہ اسلامی فوجی اتحادکا قیام کا مقصد عالمگیر ہے۔ یا پھر دنیا میں مسلم امہ کو درپیش مسائل کے حل کے لئے اپنا مثبت کردار ادا کرے ۔ ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ امریکا کی طرح کسی بھی ملک پر چڑھائی کرتا پھرے لیکن اپنا اثر و رسوخ برما ، بھارت ، شام ، امریکا اور افغانستان پر استعمال کرسکتا ہے۔شاہی فرما روا ،خادم الحرمین و شریفین کہلاتے ہیں ۔ امت مسلمہ کا ایک ایک فرد مکہ و مدینہ کی حفاظت کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرے گا ۔ اللہ و اس کے رسول ﷺ کی حرمت کے لئے اپنی جان و آل قربان ، لیکن شاہی خاندان کا موجودہ رویہ ہنود،یہود ، نصاریٰ کے لئے جس قدر مصلحت آمیزہوتا جارہا ہے اس سے امت مسلمہ میں تشویش کی لہر پائی جاتی ہے۔ سوداگر سیرابی سپنے لایا ہے ۔ ذرا دیکھ کر امت مسلمہ کے خوابوں کا سودا کرنا ۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
8591