Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سیاست میں ہم کہاں آگئے………….ولی اللہ چترالی

Posted on
شیئر کریں:

سنا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں سیاسی بحث ومباحثے کا رواج صرف الیکشن کے دنوں تک محدود ہوتا ہے، اس سےہٹ کر نمائندے اپنا فرض منصبی انجام دیتے ہیں اورعوام اپنے منتخب نمائندوں سے ان کے وضع کردہ منشور کے مطابق اپنا حق طلب کرتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے ان کے ہاں باتوں سے زیادہ کام کا رواج ہے لیکن ہمارے ہاں معاملہ الٹا ہے۔ الیکشن کے زمانے میں سیاسی بحث و مباحثے ہوتے ہی ہیں اور ہونے بھی چاہئیں لیکن اس کے علاوہ بھی سارا سارا سال سیاست اور گالم گلوچ ایک دوسرے پر بلا جواز تنقید کا سلسلہ تواتر سے جاری رہتا ہے اور پھر یہ رجحان صرف لیڈروں کے مابین ہو تو کسی حد تک سمجھ میں آنے والی بات ہے کیونکہ ان کے درمیان مقابلے کی فضا ہوتی ہے لیکن غضب یہ ہے کہ عام کارکنان جن کا کام صرف ووٹ دینا ہے کے مابین بھی جنگ و جدال کا ماحول گرم رہتا ہے۔ خصوصا سوشل میڈیا کے عام ہونے کے بعد لفظوں کی یہ فضول گولہ باری صبح سے رات گئے تک مختلف محاذوں میں اخلاقی حدود کو پار کرتی نظر آتی ہے حالانکہ ان میں سے اکثر کی حیثیت چاہے وہ جس پارٹی میں بھی ہوں مجھ جیسے ایک روڈ چھاپ کارکن کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔ جن کا واحد مصرف صرف جلسہ اور جلوس کی رونقیں بڑھانا ہے۔ اس ساری لفظی جنگ میں جو موضوع زیر بحث نہیں آتا وہ عوام کی فلاح و بہود ہے۔ حالانکہ یہ ساری لڑائی عوام کے نام پہ ہی لڑی جاتی ہے۔

یہ تلخ حقیقت ہمیں پلے باندھنی چاہئے کہ چاہے آپ کا تعلق جس پارٹی سے بھی ہو اگر کل کلان وہ پارٹی بر سر اقتدار آتی ہے تو سب سے پہلے لیڈر، اس کے بچے، عزیز و اقارب، پھر چمچے نوازے جائیں گے اور آپ کو ماسوائے اس جھوٹی خوشی کے کہ میری پارٹی کی حکومت ہے یا کسی وزیر یا ایم این اے کے ساتھ تصویر بنوانے کے اور کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا۔

کل کی ہی بات ہے یہی میاں نواز شریف صاحب پارلیمنٹ اور اپنے ایم این ایز اور وزیروں تک کو ٹائم دینے کے لئے تیار نہ تھے اور آج جب برے وقت نے لپیٹ میں لے لیا تو آئے دن کارکنوں کے درمیان دکھائی دے رہے ہیں اور پارلیمنٹ کا تقدس بھی انہیں شدت سے یاد آرہا ہے۔

باقی سیاسی رہنمائوں کا حال بھی اس سے مختلف نہیں۔ عمران خان صاحب کل تک زرداری کو ڈاکو کہتے رہے، پھر ڈپٹی چئیرمین سینیٹ کے لئے انہی “ڈاکو” کو ووٹ دے بیٹھے۔ پی ٹی آئی کے میرے بے چارے دوست اس حرام کے وقت بدلنے کے ساتھ حلال ہونے پر یقینا دل میں شرمندہ تو ہوں گے۔۔۔

اب پیپلز پارٹی کو دیکھ لیجئے۔ یہ پچھلے دس سال سے سندھ میں برسر اقتدار ہے۔ یہ اندرون سندھ کے حالات کیا سدھارتے، کراچی کا بھی کباڑا کر دیا اور ہر ہر محکمے میں کرپشن کی داستانیں قائم کیں لیکن انہیں پنجاب کی فکر کھائی جارہی ہے۔حالانکہ جس بھٹو کی یہ جماعت ہے، ان کی سوچ جمہوریت کے ساتھ کمٹمنٹ میں کھلی کتاب ہے، مگر آج انکے سیاسی جانشین غیر جمہوری قوتوں کی خوشنودی میں پنجاب فتح کرنے چلے ہیں اور مقتدر حلقے بھی ان کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہوئے سندھ کے کرپشن کیسز سردخانے منتقلی کا پروگرام بنا چکے ہیں۔

تازہ واقعہ ہے، ہمارے جمعیت کے کچھ ساتھی جماعت اسلامی پر اور جماعت والے کچھ دوست ہم پر بے جا تبرا کرتے نہیں تھکتے تھے لیکن آج متحدہ مجلس عمل کے وجود میں آنے کے بعد وہ ایک جھنڈے تلے ووٹ کے حصول کے لئے جدوجہد کر رہے ہوں گے۔۔۔۔ سو سیاست اپنی جگہ کہ اس کی آنکھ میں حیا نہیں ہوتی لیکن ضمیر کے بوجھ تلے ضرور گھٹن محسوس کر رہے ہوں گے لہذا ندامت اور شرمندگی سے بہتر ہے کہ پہلے ہی الفاظ تول کر بیان کئے جائیں تاکہ کل شرمندگی اور خفت اٹھانا نہ پڑے، لہذا گزارش یہ ہے کہ اپنے موقف کو مہذب انداز میں کھل کر بیان کریں، اگر کسی کو اعتراض ہو تو وہ بھی شائستہ انداز میں اس کا اظہار کریں اور کسی پارٹی سے وابستگی بھی ہے تو ڈنکے کی چوٹ پر اس کا اظہار ہونا چاہئے لیکن اپنے مخالف نظریے والے بھائی اور دوست سے خواہ مخواہ اس حد تک بغض اور مخالفت کا بازار گرم کئے مت رکھیں کہ کل کو یہ لیڈر سیاست اور ملکی مفاد کے نام پر ایک ہی اسٹیج پہ ہاتھوں میں ہاتھ دے کر بیٹھے نظر آئیں تو آپ دوسری پارٹی کے اپنے جیسے کارکن سے جلسہ گاہ کی آخری صف میں بیٹھے ان رہنماوں کی خاطر لڑی جانے والی ماضی کے کسی لڑائی کی وجہ سے آنکھیں چار نہ کر سکیں۔

یہ فضول بحث و مباحثے نوجوانوں میں بکثرت عام ہیں۔ جن کو اس عمر میں اپنے مستقبل کا زاد راہ تیار کرنا ہوتا ہے لیکن وہ اپنے اس کے بجائے بے مقصد بحثوں میں اپنا قیمتی وقت برباد کرتے نظر آتے ہیں اور پھر نہ سوال کا ڈھنگ نہ جواب کا سلیقہ، مخص سنی سنائی باتوں کو لے کر ایک دوسرے کے رہنماؤں پر کیچڑ اچھالنے میں اخلاص کے ساتھ سرگردان نظر آتے ہیں۔

سوال ایشوز پر ہو اور جواب بھی اس زاویے میں آئے تو سننے اور دیکھنے والوں کے علم میں اضافے کا سبب ہوتا ہے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ آپ ایک لیڈر کو چور بولیں، دوسرا جواب میں آپ کے لیڈر کو ڈاکو کہہ دے۔ یہ وقت کے ضیاع کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یاد رکھئے آپ کو بغیر فیس کی اس وکالت سے سوائے کل اپنا وقت برباد کرنے پہ ندامت اور پشیمانی کے کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا۔۔۔۔۔۔


شیئر کریں: