Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

اسرائیل و بھارت کو کون روکے گا ؟ ……….. قادر خان یوسف زئی

Posted on
شیئر کریں:

دنیا بھر میں فلسطینی مسلمان مارچ کے آخری ہفتے کے دوران اور بالخصوص 30مارچ کو قومی سطح پر یوم الارض کا دن مناتے ہیں۔ گذشتہ 42برس سے یوم الارض منانے کا مقصد اقوام عالم کی توجہ فلسطینی جبراََ اپنی سرز مین سے بے دخل کئے جانے پر احتجاج ریکارڈ مقصود کرانا رہا ہے۔یوم الارض کے موقع پر جہاں فلسطینی مہاجرین کے اسرائیل میں اپنے گھروں کو لوٹنے کے حق میں چھ ہفتے طویل مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے تو دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قابض فوجیوں کے خلاف مظلومین کشمیر نے بھی کئی عشروں سے بھارتی جارحیت اور جبر کے خلاف احتجاجی مظاہرے اور ہڑتالوں کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے ۔ فلسطین میں قابض اسرائیلی کے ہاتھوں 20سے زائد فلسطینی جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوئے تو مقبوضہ کشمیر میں بھی بھارتی قابض فوجیوں کے ہاتھوں 20سے زائد پُرامن مظاہرین جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوئے ۔ مظلومین کی دونوں سر زمین میں کئی باتیں مشترکہ ہیں ۔ دونوں سرزمینوں پر یہود ، ہنود و نصاریٰ نے جبراََ قبضہ کیا اور طاقت کے استعمال سے نہتے عوام کو دبانے کی ہمیشہ کوشش کی جاتی ہے۔ فلسطین اور کشمیر کی عوام کو اپنی ہی آبائی سر زمین میں آزاد و خود مختیار زندگی بسر کرنے کا حق نہیں دیا جاتا۔ دونوں ریاستوں میں مسلمانوں کو اپنی مذہبی شعار و روایتی جلسے جلوس و تقاریب سمیت نماز جمعہ سمیت دیگراسلامی فرائض کو ادا کرنے آزادی حاصل نہیں ہے۔ دونوں ریاستوں کے عوام تحریک آزادی کے لئے نہتے و اپنی مدد آپ کے تحت مزاحمت کررہے ہیں۔ دونوں قابضین ریاستی دہشت گردی کے تمام تر ریکارڈ توڑ رہے ہیں ۔ دونوں ریاستوں میں قدرِ مشترک بھی ہے کہ ریاستی دہشت گردی کے خلاف اقوام متحدہ و سلامتی کونسل بے بس اور عضو معطل ہیں۔ دونوں مقبوضہ ریاستوں میں مسلم آبادی کو اقلیت بنانے کے لئے ناجائز اور غیر قانونی کالونیاں بناکر مسلمانوں کو ظلم کے آگے جھکنے میں مجبور کیا جارہا ہے ۔ دونوں ریاستوں میں خواتین ، مرد ،اور بزرگوں کے ساتھ یکساں توہین آمیز رویہ و تشدد کیا جاتا ہے ۔ اسرائیل اور بھارت نے مقبوضہ علاقوں میں استعماری قوتوں کی شہ پر ظلم و جبروت کا مظاہرہ اپنی پالیسی بنا لی ہے ۔ دونوں قابض ریاستیں پیلٹ گنوں کا استعمال کرتی ہیں جس سے نہتے پُرامن شہریوں کی بڑی تعداد آنکھوں سے معذور اور جسمانی طور پر اذیت ناک طریقے سے زخمی ہو رہی ہے۔ فلسطین اور کشمیر کا مقدمہ ایک جیسا ہے جس میں نہتے اور مظلوم عوام کو اپنی سر زمین میں جینے کے حق سے محروم کیا جارہا ہے اور اقوام عالم خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ امت مسلمہ کی جانب سے بھی افسوس ناک صورتحال کا سامنا ہے کہ صرف زبانی جنگ کے علاوہ کوئی متفقہ لائحہ عمل سامنے نہیں آرہا ۔

مسلم اکثریتی ممالک کے فروعی اختلافات نے مسلمانوں کے اہم مسائل و ظلم و ستم کا سدباب کرنے بجائے خود کو عملی طور پر معذور بنا رکھا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر میں جارح بھارت نے کشمیریوں عوام کے جنت نظیر خطے کو جہنم بنادیا ہے ۔ پاکستان مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کی اخلاقی ، سفارتی و اُصولی حمایت کرتے ہوئے بار بار عالمی ضمیر کو جھنجوڑ رہا ہے ۔ لیکن جہاں مغرب طاقت کے نشے میں مدہوش ہیں تو دوسری جانب مسلم اکثریتی ممالک خواب خرگوش میں سوئے نظر آتے ہیں۔ اقوام متحدہ ، سلامتی کونسل اور انسانی حقوق کے نا م نہاد علمبرداروں کی راویتی روش و بے حسی نے امت مسلمہ میں سخت بے چینی اور بے بسی کو جنم دیا ہواہے ۔ موت کی ان وادیوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اقوام عالم نے مجرمانہ چپ سادھی ہوئی ہے۔بھارت اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ اور مشترکہ مسلم کش منصوبہ مسلم اکثریتی ممالک کے لئے بھی نوشتہ دیوار ہے ۔ مسلم اکثریتی ممالک بے لگا م ہونے والے ان فرعونوں کے خلاف اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرنے کے بجائے باہمی چپقلش اور خانہ جنگیوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ اپنے کھربوں ریال ، مسلم نسل کشی کرنے والے ممالک کے سرپرستوں کے قدموں میں نچھاور کررہے ہیں۔ لیکن نمرود کے پیروکاروں کی جانب سے عظمتیں لٹنے والی بہن ، بیٹوں پر چادر ڈھانپنے کے لئے ان کے پاس وقت و الفاظ اور قوت نہیں ہیں۔ ترکی کے صدرطیب اردوغان نے اسرائیل کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے سخت بیان دیا تھا۔ ٹیلی ویژن پر نشر کیے جانے والے خطاب میں صدر اردوغان نے کہا’ارے نتن یاہو، تم قابض ہو۔ تم ان زمینوں پر قابض ہو۔ ساتھ ہی تم دہشت گرد بھی ہو۔’فلسطین کے وزیر تعلیم ڈاکٹر صابری صادیم کہتے ہیں ’آپ لوگ ان فوٹوز اور ویڈیوز میں دیکھ سکتے ہیں جو نشر کی گئیں، آپکو معلوم ہو گا کہ وہ لوگ پرامن مارچ کر رہے تھے۔انھوں نے کسی بندوق کا استعمال نہیں کیا اور نہ ہی ان کی طرف سے کسی قسم کی جارحیت نظر آتی ہے۔ جو چیز نظر آتی ہے وہ صرف جھنڈے ہیں جو وہ مارچ کے دوران لہرا رہے تھے۔‘دوسری جانب اسرائیل نے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل سمیت کئی بین الاقوامی رہنماؤں کی جانب سے اس واقعے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ مسترد کر تے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم نے الٹا اردوغان کو طعنہ دیا کہ” نہتے شہریوں پر خود بمباری کرنے والوں کو اخلاقی درس دینا نہیں دینا چاہیے”۔ یہ بہت بڑی تلخ حقیقت ہے۔ کہ ایک جانب جب کشمیر و فلسطین میں ڈھائے جانے مظالم پر آواز اٹھائی جاتی ہے تو غیر مسلم بلاک کی جانب سے مسلم امہ کو آئینہ دکھایا جاتا ہے کہ پہلے شام ، عراق ، لیبیا ، صومالیہ ، یمن، پاکستان اور افغانستان پر توجہ دیں ۔ کبھی ایران کی جانب سے مسلم ممالک میں جنگجو ملیشیاؤں کی مداخلت اور خانہ جنگی میں ملوث ہونے پر خنداں زن ہوتے ہیں تو کبھی سعودی عرب و متحدہ عرب امارات کی جانب سے قطر ، مصر ، یمن اور افغانستان میں مداخلت کا منظر نامہ پیش کردیا جاتا ہے کہ پہلے خود کو ٹھیک کریں ۔ خاص طور پر قدرت کی جانب سے معدنی وسائل سے مالامال عرب و عجم کے درمیان روز بہ روز بڑھتی کشمکش و جنگ کی دہمکیوں نے دنیا بھر میں موجود مسلم امہ کو پریشان کردیا ہے کہ منقسم مسلم اکثریتی ممالک امت واحدہ کب بنیں گے ۔اسلامی ممالک کے نام پر بننے والے اسلامی تعاون تنظیم کا کردار اتنا مایوس کن ہے کہ اس حوالے سے کچھ لکھنا ماسوائے وقت ضائع کرنے کے کچھ نہیں ہے۔ عرب لیگ کا اپنا الگ جداگانہ ایجنڈا ہے ۔ اسلامی اتحادی فوج کے اغراض و مقاصد و فعالیت سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے ، ایران کی مہم جوئیاں اور سعودی عرب کے مسلسل حالت جنگ میں رہنے کی وجہ سے مسلم اکثریتی ممالک کے تما م وسائل یہود و نصاری کے خزانوں میں جا رہے ہیں۔ یہوو ، ہنود و نصاریٰ مسلم اکثریتی ممالک کی نااتفاقی و انتشار کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ مسلم امہ کی بیداری کی مہم کون سا ملک کرے گا ۔ اس کا تعین بھی کئے جانا ان حالات میں ممکن نہیں رہا ہے۔ تھوری بہت طاقت رکھنے والے مسلم اکثریتی ملک خانہ جنگیوں اور پڑوسیوں سے جنگ میں مصروف ہے ، قدرت کے عطاکردہ خزانوں کو بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کے بجائے دنیا کی بربادی پر صَرف کیے جا رہے ہیں ۔ پل کی خبر نہیں اور پر تعیش زندگی بسر کرنے کی سو برس کے منصوبے بن رہے ہیں ۔ بدقسمتی نہ کہیں تو اور کیا کہیں کہ پاکستان واحد ایک ایسا ایٹمی طاقت رکھنے والا ملک تھا جس نے ہمیشہ مسلم اکثریتی ممالک کی اخلاقی و عسکری مدد کی اور اپنے ہزاروں جوانوں کی قربانیاں بھی دیں ۔ عرب ، اسرائیل جنگ ہو یا پھر کسی بھی مسلم اکثریتی ملک کے ساتھ شانہ با شانہ کھڑا ہونا ۔ پاکستان نے تمام مسلم حکمرانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع بھی کردیا تھا ، مسلم حکمرانوں کو ان کی اصل طاقت سے بھی آگاہ کردیا تھا لیکن پاکستان استعماری قوتوں کے زیر خرید غلاموں کے ہاتھوں اس قابل نہیں رہا کہ وہ مسلم امہ پر ہونے والے ظالموں کی گو شمالی کرسکتا ۔ دنیا سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو نجات دہندہ کی صورت میں دیکھتی رہی ہے لیکن جب سے سعودی عرب کے ولی عہد نے اصلاحات متعارف کراتے ہوئے سعودی ویژن 2030کو متعارف کرایا ہے ۔ آل سعود کے امریکا اور مغربی ممالک کے ساتھ بڑھتی قربتوں اور ترجیحات کی تبدیلی نے امت مسلمہ میں بے چینی کی نئی لہر پیدا کردی ہے۔صہیونی ذرائع نے انکشاف کیا تھا کہ سعودی ولی عہد نے دورہ قاہرہ کے وقت یہودی ریاست کے ایک وفد سے ملاقات اور بات چیت کی تھی جس کے فورا بعد ہندوستانی فضائی کمپنیوں نے خبر دی تھی کہ سعودی حکام نے تل ابیب کی طرف پرواز کا دورانیہ کم کرنے کے لئے ہندی طیاروں کو سعودی فضائی حدود سے مقبوضہ فلسطین جانے کی اجازت دے دی ہے۔ واضح رہے کہ سعودی حکمرانوں نے پہلی بار بیرونی فضائی کمپنیوں کو اپنی حدود سے مقبوضہ فلسطین کی طرف پرواز کرنے کی اجازت دی ہے۔ ایک امریکی اخبار کو سعودی ولی عہد نے انٹرویو دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ اسرائیل کو وطن حاصل کرنے کا حق ہے۔ دوسری جانب امریکا نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھارت کی خوشنودی کے لئے پاکستان پر مزید دبا ؤ بڑھادیا ہے۔ امریکی دفتر خارجہ کی جانب سے اٹھائے اقدامات کے ساتھ ساتھ امریکی محکمہ خزانہ نے ‘ملی مسلم لیگ کی مرکزی قیادت کے سات ارکان کو غیر ملکی دہشت گرد کے طور پر نامزدگی کا اعلان کیا ہے۔ امریکی محکمہ خزانہ میں غیرملکی اثاثہ جات پر کنٹرول کے دفتر (او ایف اے سی) نے دفتر خارجہ نے لشکرطیبہ اور ملی مسلم لیگ (ایم ایم ایل) کے خلاف کارروائی کی جس میں ملی مسلم لیگ اور اس کے سات رہنماؤں کو بھی انتظامی حکم (ای او) 13224 کی مطابقت سے خصوصی طور پر نامزد کردہ عالمی دہشت گرد (ایس ڈی جی ٹی) قرار دیا گیا ہے۔ یہ حکم دہشت گردوں، ان کی معاونت کرنے والوں یا دہشت گردی کے اقدامات میں مدد دینے والوں کو ہدف بناتا ہے۔ خاص طور پر‘او ایف اے سی’نے‘ ملی مسلم لیگ’کی مرکزی قیادت کے سات ارکان کو نامزد کیا ہے جن میں سیف اللہ خالد، مزمل اقبال ہاشمی، محمد حارث ڈار، تابش قیوم، فیاض احمد، فیصل ندیم اور محمد احسان شامل ہیں۔ یہ امریکی دفتر خارجہ نے لشکر طیبہ کی بطور دہشت گرد تنظیم نامزدگی میں ترمیم کرتے ہوئے ‘ایم ایم ایل’اور‘تحریک آزادی کشمیر’(ٹی اے کے) کو بھی شامل کر لیا ہے۔ان نامزدگیوں کے دیگر نتائج کے علاوہ امریکی دائرہ کار میں ان لوگوں کی جائیداد اور جائیداد میں ان کے مفادات پر روک لگا دی گئی ہے اور عمومی طور پر امریکی شہریوں کا ان کے ساتھ کسی بھی طرح کا مالی لین دین ممنوع قرار پایا ہے۔

سیف اللہ خالد (خالد) کو‘ملی مسلم لیگ’کے صدر کی حیثیت سے متعارف کرایا گیا کیونکہ انہوں نے 8 اگست 2017 کو پارٹی کی ترتیب اور اغراض و مقاصد کے بارے میں پریس کانفرنس کی تھی۔مزمل اقبال ہاشمی (ہاشمی) ملی مسلم لیگ کا نائب صدر ہے اور 8 اگست 2017 کی پریس کانفرنس میں انہیں ملی مسلم لیگ کی مرکزی قیادت کے رکن کے طور پر متعارف کرایا تھا۔محمد حارث ڈار (ڈار) ملی مسلم لیگ کا جوائنٹ سیکرٹری ہے۔تابش قیوم ملی مسلم لیگ کا سیکرٹری اطلاعات ہے اور 8 اگست 2017 کی پریس کانفرنس میں ملی مسلم لیگ کی مرکزی کمیٹی کے رکن کے طور پر متعارف کرایا گیا تھا۔فیاض احمدملی مسلم لیگ کا جنرل سیکرٹری ہے اور 8 اگست 2017 کی پریس کانفرنس میں انہیں بھی ملی مسلم لیگ کی مرکزی قیادت کے رکن کی حیثیت سے متعارف کرایا گیا تھا۔فیصلندیم ملی مسلم لیگ کے شعبہ نشرواشاعت کا سیکرٹری ہے۔احسان ایم ایم ایل کا سیکرٹری مالیات ہے۔ وہ ملی مسلم لیگ کے ترجمان کی حیثیت سے بھی کام کر چکا ہے۔امریکا کی جانب سے ملی مسلم لیگ پر پابندی کا مقصد بھارت کو خوش کرنا اور کشمیر کی تحریک کو متنازع بنانا ہے۔

بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم پر بھی مسلم اکثریتی ممالک کے صرف رسمی بیانات ہی دیکھنے میں آئے ہیں۔ اقوام متحدہ میں منظور شدہ قرادادوں پر بھارت کی جانب سے عدم تعاون اور لائن آف کنٹرول پر مسلسل اشتعال انگیز کاروائیوں نے بھی اقوام متحدہ کی بند آنکھوں کو کھولنے کی زحمت نہیں کی ۔ پُر امن عوامی مظاہرے میں مقبوضہ کشمیرکے شوپیان، اننت ناگ اور پلوامہ میں احتجاج کرنے والے نہتے لوگوں پر بھارتی انتہا پسندفورسز اہلکاروں کی براہ راست فائرنگ سے20سے زاید زخمی و سینکڑوں افراد زخمی ہوئے جن میں اکثریت کو سرینگر کے مختلف اسپتالوں میں علاج و معالجہ کیلئے داخل کیا گیاتھا۔ کچھ ڈورہ میں بڑے پیمانے پر زخمی ہونے والوں کو شوپیان ضلع اسپتال میں داخل کیا گیا جن میں 14کو گولیاں لگی تھیں جبکہ دیگر پیلٹ اور شلوں سے مضروب ہوئے تھے۔ان میں سے درجنوں کو سرینگر ،لگام اسپتال،کو زینہ پورہ اسپتال، حرمین اسپتال میں داخل کیا گیا۔17افراد کو گولیاں لگیں تھیں۔مختلف اسپتالوں کی جانب سے فراہم کئے گئے اعدادوشمار کے مطابق سرینگر منتقل کئے گئی زخمیوں کی بڑی تعدادد میں س آنکھوں پر چھرے لگنے کی وجہ سے زخمی ہوئے جبکہ متعددافراد جسم کے مختلف اعضاء میں گولی لگنے سے مضروب ہوئے۔گولیوں سے زخمی ہونے والے بون اینڈ جوائنٹ برزلہ سرینگر، شیر کشمیر انسٹیچوٹ آف میڈیکل سائنسز صورہ، جے وی سی سرینگر جبکہ متعدد کو صدر اسپتال منتقل کیا گیا۔ تفصیلات فراہم کرتے ہوئے شیر کشمیر انسٹیچوٹ آف میڈیکل سائنسز صورہ کے میڈیکل سپر انٹنڈنٹ ڈاکٹر فاروق احمد جان کے مطابق زخمی افراد کے پیٹ میں گولیاں پیوست ہوئی تھیں جبکہ دیگر کے بازو اور ٹانگوں میں گولیاں آئی تھیں۔ بون اینڈ جوائنٹ اسپتال میں موجود ذرائع نے بتایا کہ اسپتال میں اتوار کو 9زخمی افراد کو داخل کیا گیا جو گولیاں لگنے کی وجہ سے زخمی ہوئے تھے۔ زخمی افراد میں سے اکثر افراد ٹانگوں میں گولیاں لگنے کی وجہ سے زخمی ہوئے تھے۔ جے وی سی سرینگر کی میڈیکل سپر انٹنڈنٹ ڈاکٹر شفاء نے بتایا کہ اتوار کو جے وی سی میں ایک زخمی نوجوان کو داخل کیا گیا جو پلہالن پٹن کا رہنے والا ہے۔ ڈاکٹر شفاء نے بتایا کہ مذکورہ نوجوان کی چھاتی اور بائیں آنکھ پیلٹ کا نشانہ بنی ہے۔سرینگر کے صدر اسپتال میں سب سے زیادہ زخمی افراد کو داخل کیا گیا۔صدر اسپتال سرینگر کے میڈیکل سپر انٹنڈنٹ ڈاکٹر سلیم ٹاک کے مطابق ’’اتوار کو کل 41افراد کو اسپتال میں داخل کیا گیا جن میں 40افراد کی آنکھوں میں چھرے لگے ہیں۔ “پاکستان نے مقبوضہکشمیر میں قابض بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ” بے گناہ کشمیری نوجوانوں کی ہلاکت” کی مذمت کرتے ہوئے بین الاقوامی برداری سے ایسے واقعات رکوانے کا مطالبہ کیا ہے۔پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے بھارتی سیکورٹی فورسز کی طرف سے مظاہرین کو چھرے والی بندوقوں سے نشانہ بنانے کی اطلاعات پر کہا ہے کہ یہ کشمیریوں کو دبانے کی کوشش ہے۔اقوام متحدہ کی ایمنسٹی انٹرنیشنل ( برائے انسانی حقوق) نے بھارتی انتہا پسند وزیر اعظم کو عالمی دہشت گرد قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قابض جارح شدت پسند افواج کے خلاف اقدامات کرے ۔ لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ ہماری ان زبانی جنگوں سے کچھ نہیں ہونے والا ۔ ہم صرف لفاظی اور زیادہ تر زور صرف زبانی بیانات تک محدود رکھتے ہیں۔ پاکستان کے آرمی چیف نے بھی شدید الفاظوں میں بھارتی فورسز کی شدید مذمت کی ہے ، وزیر خارجہ خواجہ آصف نے مختلف وفود دوست ممالک بھیجنے کا عندیہ دیا ہے ۔ لیکن ان سب زبانی اقدامات سے کیا بھارت کسی قسم کا دباؤ کا شکار ہوسکتا ہے ۔ بھارتی انتہا پسندوں کو اسرائیل قاتل فورسز کی طرح دنیا کی کوئی پرواہ نہیں ۔ شاید وہ جانتا ہے کہ جب مالی وسائل سے مالا مال ممالک اسرائیل کا بال بیکا نہیں کرسکے تو بھارت کی ناراضگی مول لیکر کہاں جائیں گے ۔ مغرب بھارتی تجارتی منڈی کے سحر میں مبتلا اور مفادات کے حصول کے خاطر بھارت کی خوشنودی چاہتا ہے ۔ امریکا ، خطے میں چین کے خلاف عظیم تجارتی جنگ چھیڑ چکا ہے ۔ چین جوابی وار کرچکا ہے۔ پاکستان ماضی کی غلطیوں کی سزا بھگت رہا ہے ۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں رہنے والے کشمیر ی مہاجرین بے بس ہیں ۔ کچھ کرنا چاہتے ہیں تو حافظ سعید کی طرح ان کے سروں پر پابندیوں عالمی دہشت گرد قرار دینے کی تلوار لٹکا دی جاتی ہے ۔ حال ہی میں بھارت اور امریکا کے درمیان 12915واں ورکنگ ریلشن شپ اجلاس دہلی میں ہوا تھا ۔ اجلاس کے خاتمے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں کئی روز سے جاری جارحیت ظاہر کرتی ہے کہ امریکا کی شہ پر بھارت ، مقبوضہ کشمیر میں اسرائیلی طرز پر کشمیری مسلمانوں کو پاکستان کے ساتھ حب الوطنی کی سزا دی جا رہی ہے کیونکہ فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ کشمیر کا بھی ایک نعرہ ہے کہ ہمیں اپنی سر زمین پرجینے کا حق دو۔ کیونکہ یہ زمین ہماری ہے ، ہمارے آبا و اسلاف کی ہے ۔ اقوام متحدہ بہری اندھی ، سلامتی کونسل بہری اور اسلامی تعاون تنظیم گونگی بنی ہوئی ہے لیکن کب تک ۔ ایک دن نہ ایک آتش فشاں پھٹے گا ۔اور فروعی مفاداتی حصول کے شکار جانب دار ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا ۔ مسلم امہ پر فلسطین سے لیکر کشمیر تک بہیمانہ ظلم و ستم کئے جا رہے ہیں ۔ پاکستان میں مولانا فضل الرحمن کی جانب سے فلسطین و کشمیری عوام کے خلاف ظلم و بربریت پریوم احتجاج اور حکومت کی جانب سے یوم یک جہتی کشمیر منایا جارہا ہے ۔ یہاں تک کہ جب شاہد خان آفریدی نے کشمیریوں کے حق میں بیان دینے پر مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ نے آفریدی کے بیان کی حمایت کی توپورے بھارت میں پاکستان اور شاہد آفریدی کے خلاف غصے کی آگ بھڑک اٹھی۔ سوال یہی ہے کہ کیا اس سے فلسطین یا کشمیر کا حل نکل سکتا ہے ۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , ,
8379