Chitral Times

Apr 23, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

انگریستانو…………..(کھوار کا پہلا ناول)…… ایک جائزہ…………پروفیسر اسرار الدین

Posted on
شیئر کریں:

میں مشکور ہوں کہ میرے مہربان دوست جناب مولا نگاہ صاحب نے ظفر اللہ پرواز کا کھوار زبان کے پہلا ناول انگریستانوکی ایک جلد مجھے بھیج دی اور مجھے اس شہ پارے سے روشناس کیا۔ ورنہ میں ایک گوشہ نشین آدمی نہ معلوم کب تک اس سے محروم رہ جاتا ۔

ingrestano chitrali novel

 

ظفر اللہ پرواز سے میری صرف ایک دفعہ ملاقات ہوئی تھی۔ وہ بھی سررا ہے۔ اس نے اپنا تعارف یوں کرایاتھا۔ کہ وہ مرحوم شیر خفر خان (شیرہزار خان) المعروف خلاصہ میرزہ کے فرزندارجمند ہیں۔ بونی سے تعلق ہے آج کل کھوار زبان میں ایک ناول تحریر کررہے ہیں۔ مجھے اس سے زیادہ اورکیا خوشی ہوتی کہ میں ایک ایسے شخص سے مل رہا تھا۔ جن کا والد کا میرے والد مرحوم کے ساتھ گہرا تعلق تھا۔ میں خود بھی بچین سے ان کو جانتا تھا۔ جو مجھے پیار سے ’’مہ نویس‘‘ کہہ کے پکارتا تھا۔ یہ اُن دونوں کی بات ہے۔ جب ہزھائی نس محمد ناصر الملک کے زمانے میں اپنے والد کے ساتھ جو اُن کے نہایت قریبی مصاحب تھے اکثر نوغور کے اندر ایک خاص کمرے میں جو ان کو ملا تھا رہتا تھا۔ خلاصہ مرحوم کا اکثر میرے والد کے پاس آنا ہوتا تھا۔دراصل اسکی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ روزانہ تمام چترال سے متعلق ضروری خبروں کا خلاصہ ہزہائی نس کی خدمت میں پیش کرتے تھے اور دن بھر خاص خاص ملاقاتیوں کا جو سلسلہ ہوتا تھا۔ ان سے بادشاہ کو مطلع کرتے اور ان کی ملاقات کا بندوبست کرتے۔ دوسرے الفاظ میں افسر مہمانداری کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیتے تھے۔ یہ نہایت ذمہ واری کا اور کھٹن کام ہوتا تھا۔ جسکو وہ بخوبی انجام دیتے اسلئے ہزہائی نس کے نہایت معتمدملازمین میں شمار ہوتے تھے۔ وہ ہزھائی نس کی ملازمت میں اس وقت شامل ہوئے تھے۔ جب محمد ناصر الملک ولیعہدتھے اور مستوج کے علاقے کے گور نر تھے۔ خلاصہ مرحوم کا فی دیر تک ریاستی ملازمت میں رہے۔ محمد ناصر الملک کے بعد ان کے بھائی محمد ظفر الملک اوربتجھے سیف الرحمان کی حکمرانی کے زمانوں میں ان کی خدمات پر مامور رہے۔ بعد میں نئی تنظیم کے بعد کسی محکمے (غالباً محکمہ مالیہ) کے ساتھ منسلک ہوئے تھے۔

 

ایک ایسی شخصیت جن سے ہمارے خاندان کا پرانا تعلق تھا۔ سے ملاقات سے خوشی تو ہونی ہی تھے ۔ ساتھ ساتھ جب اس نے بتایا کہ وہ کھوار زبان میں ناول لکھ رہے ہیں تو میری خوشی کی انتہانہ رہی کیونکہ ابھی تک کھوار زبان ناول جیسے اہم صنف سے محروم رہا تھا۔ ہر طرف شاعری کے زورنے کھور نثر نویسی کو گرہن لگا کے رکھ دیاتھا۔ کھوار لکھا ریوں کے اس کہکشان میں نثر نگار خال خال نظر آتے تھے۔ وہ بھی مجبوراً شاعری کی طرف مائیل۔ اور اسی میں اپنے کو منوانے کے لئے زور لگاتے ہوئے۔

 

۱۹۶۰ ؁ء کے عشرے میں انجن ترقی کھوار (دروش)، ریڈیوپاکستان پشاور، (چترالی پروگرام )۔ تیر پچمیرہفت روزہ (پشاور) اخبار اور جمہور اسلام (رسالہ ) کی کوششوں سے کھوار زبان کو فروع دینے کی کوششیں شروع ہوئیں۔ تو اس وقت کچھ جو شیلے قسم کے چترالی نوجوانوں نے جو اس زمانے میں پشاور کے کالجوں یا یونیورسٹی کے طالبعلم تھے۔ اس مشن کو آگے بڑھانے کا عزم کیا۔ اور اس اہم کام کاٹھوس بنیادوں پر استوار کرنے کی کوششیں کیں، ان میں بے پناہ صلاحیتوں والا ایک نوجوان ولی زرخان ولی تھے۔ جو شاعر اور ادیب ہونے کے ساتھ ایک محنتی انسان تھے۔ اسے جو کام سونپ دیا جاتا نہایت لگن جوش جذبے سے اس کام کو سرانجام دینے کے لئے سے تیارہوجاتے۔ جمہوراسلام کے ادارے کی یہ کوشش تھی کہ مختلف اصناف ادب میں کھوار زبان میں لکھنے کی طرح ڈالی جائے۔ چنانچہ ہر کوئی اپنی سمجھ کے مطابق کوشش کرتا۔ کہ اپنی دلچسپی کے کسی صنف پر لکھے ۔ اسطرح افسانہ نویسی ، سفرنامہ، تاریخ نگاری، سوانح نگاری اور دیگر اہم موضوعات پر تحریریں سامنے آتی رہیں۔

 

کچھ عرصے کے بعد ایک دن ولی زرخان ولی ایک تحریر لے کے آئے اور بتایا کہ اس نے ناول لکھنا شروع کیا ہے یہ اسکا پہلا باب ہوگا۔ میں بہت ہی خوش ہوا کیونکہ کسی نے اس وقت تک اس اہم کام کی طرف توجہ نہیں دی تھی اس سے پہلے اس کا ایک افسانہ ’’ہمت‘‘ جمہور اسلام کے نومبر ۱۹۷۰ ؁ء کی شاعت میں چھپ گیاتھا۔ دراصل یہ اسکی اپنی کہانی تھی جسکو کچھ تبدیلی کے ساتھ فرضی ناموں کے ساتھ افسانوی رنگ دینے کی کوشش کی گئی تھی۔ تکنیکی لحاظ سے اگر چہ اسمین خامیاں تھیں لیکن کھوار ادب میں افسانہ کے طور پر شروعات کے لئے ہمارے لئے غنیمت تھی۔ اسلئے سب نے اس کاخیر مقدم کیا۔ اور ولی صاحب کی حوصلہ افزائی کی۔

 

یاد رہے اس سے پہلے فخرالملک فخر نے ’’متے ہمونیہ پت یاد‘‘ کے تحت ایک رپورتاژ(Reportage) تحریر کی تھی۔ اُن دنوں جمہور اسلام نے ایک سلسلہ چلا یا تھا۔ جسکا موضوع رکھا تھا۔ ’’متے ہمونیہ پت یاد‘‘ اس پر لکھنے والوں کو اپنی سچی سر گذشت لکھ کے بھیجنے کی دعوت دی گئی تھی۔ اس پر مختلف اصحاب کی طرف سے کئی تحریریں آگئی تھیں۔ جن میں سے ایک یہ تحریر تھی۔ فخر صاحب نے ایک خاص افسانوی انداز میں اپنی سچی سرگذشت لکھی تھی۔ جسمیں مصنف کی ذات، اسلوب، قوت تخیلہ، تخلیفی توانائی اور معروضی صداقت موجود تھی۔ جو ایک کامیاب رپور تاژ کے اوصاف ہوتے ہیں۔ اسلئے اسکو ہم کھوار زبان کا پہلا رپورتاژکہہ سکتے ہیں۔ اور کھوار افسانہ لکھنے میں اولیت کا حقدار بننے کے بعد ولی زرخان اب کھوارناول نویسی کی طرح ڈالنے کی کوشش میں تھے۔ یقیناًیہ خوشی کی بات تھی۔ میں نے وہ مختصرمسودہ پڑھا۔ لیکن مجھے لگا۔ ابھی ان کو ناول نگاری کے بارے میں کچھ مزیدمعلومات حاصل کرنے ہونگے اسکے بعد ناول لکھنے کی طرف توجہ دینی ہوگی۔ مسورے میں جو خاص باتیں تھیں ان کی طرف بھی ان کو توجہ دلائی۔ میری یہ بات اس نے کھلے دل قبول کیا اسکے بعد کافی عرصہ گذر گیا۔

 

وہ اپنی دوسری سرکاری اہم ذمہ داریوں میں مصروف ہوگئے۔ میری بھی وقت کے ساتھ ذمہ داریاں بڑھ گئی تھیں۔ ایک دن جب ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے اس ناول کا پوچھا۔ تو اس نے نہایت افسوس سے بتایا۔ کہ ناول قریباً ختم ہونے کو تھا۔ لیکن ایک دن پشاور میں زوردار بارشوں کے دوران ہمارے سرکاری مکانات واقع ڈبگری گارڈن نشیب پر ہونے کی وجہ سے گردوپیش کا پانی جمع ہوا۔ اور میرے سمیت تمام افسران کے گھروں کے تمام سامان تباہ وبرباد ہوگئے۔ جسمیں اس ناول کا مسودہ بھی تھا۔ ع اے لساآرزو کہ خاک شدہ

 

ولی صاحب نے اک کھوارریڈیائی تمثلچہ (خاکہ) ’’ریشو کوس بیرائے ‘‘ لکھا تھا۔ جو ۶۰ کے عشرے میں بنیادی جمہوریت کے کونسلروں کے کاموں پر ایک طنز یہ خاکہ تھا۔ جسے بہت پسند کیا گیا تھا۔ اسطرح کھوار تمثلچہ (خاکہ)نویسی کی اولیت کا بھی سہرا بھی ان کے سرجاتا ہے۔ اسکے بعد بھی اس نے کئی ڈرامے لکھے جن میں سے ایک منظوم ڈرامہ تھا۔

 

ولی صاحب کے ناول کے مسودے کے ’’سیلاب برد‘‘ ہونے کے بعد تاحال کئی عشرے گذرنے کے بعد بھی کسی نے ناول نگاری کی طرف توجہ نہیں دی تھی۔ چناچہ اب اس اہم کام کا بیڑہ ظفر اللہ پرواز کے ذریعے اٹھائے جانے کا سن کر مجھے جو خوشی ہوئی اس کا بیان مشکل ہے۔ اسکے بعد یہ کئی سال اس انتظارمیں گذرے کہ کب یہ ناول منصۂ دجودمیں آتا ہے۔ اور کھوار ادب کی ایک اہم ضرورت پوری ہوجاتی ہے۔ شکر ہے کہ اخرکار پرواز صاحب نے جس کام بیڑہ اٹھایا تھا۔ وہ انجام پذیر ہوا۔ اور کھوار ادب کو انگریستا نو کی صورت میں ایک خوبصورت، دلکش اور قیمتی معلومات سے بھر پور ناول میسر ہوا۔اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ۔

 

کالج کے زمانے سے ۱۹۷۰ ؁ء کے عشرے تک مجھے ناول خوانی کا بڑا شوق تھا۔ انگریزی اردو ہر قسم کے ناول پڑھے ۱۹۷۵ ؁ء کے بعد غالباً یہ پہلا ناول ہے جو میں نے مکمل پڑھا۔ اتنا مکمل کہ ایک ایک لفظ پڑھا۔ اور لطف اٹھاتا رہا۔ میں کوئی ادیب تو نہیں ہوں البتہ ادب پسند ضرور ہوں۔ اسلئے ڈاکٹر فیضی صاحب اور مولانگاہ صاحب کے خوبصورت اور معلومات سے بھر پور دیبا چوں کے بعد میرے لئے اس ناول پر لکھنے کی گنجایش نہیں رہتی۔ لیکن ’’مشق سخن‘‘ کی میری شوق نے کھوار ادب کے اس پہلے ناول پر کچھ نہ کچھ لکھنے پر مجھے اکسایا۔ زیادہ باتیں تودہی ہونگی جو مذکورہ حضرات نے قلمند کئے ہیں۔ البتہ کچھ انکی تکرار اور کچھ تھوڑے اضافی خیالات کے ساتھ اگر میں شہیدوں میں شامل ہونے کی کوشش کروں۔ تو امید ہے۔ کہ آپ برانہیں مناینگے۔

 

کہا جاتا ہے کہ ناول فرانسیسی ( یا اطالوی) زبان کے لفط Novella سے نکلا ہے۔ یعنی نیا، نادر اورنئی بات۔ لیکن صنف ادب میں اسکی تعریف بنیادی زندگی کے حقایق کو بیان کرنا ہے۔ طلسماتی قصے کہانیوں کو ناول کے زمرے میں شامل نہیں کیا جاتا بلکہ اصطلاحی معنوں میں ناول وہ قصہ یاکہانی ہے۔ جس کا موضوع انسانی زندگی ہو۔ یعنی انسانی زندگی کے حالات وواقعات اور معاملات کو نہایت گہرے اور مکمل مشاہدے کے بعد ایک خاص انداز میں ترتیب کے ساتھ پیش کرنے کا نام ناول بتایا جاتا ہے۔ پرانے واستانوں کو اگر چہ ناول تصور نہیں کیا جاتا لیکن ناول نویسی کو پرانے داستانوں کی ایک ترقی یافتہ شکل ضرور قرار دی جاسکتی ہے۔
ناول نویسی کا سفر اٹلی سے چترال تک: دنیا کا سب سے پہلا ناول نویس اٹلی کے شاعر اور ادیب جینودینی بتایا جاتا ہے۔ جس نے ۱۳۵۵ ؁ء میں اپنا اور دنیا کا پہلا ناول لکھا۔

 

برصغیر میں ناول انگلستان کی وساطت سے آیا۔ جہاں ۱۴۸۵ ؁ء اور ۱۷۲۲ ؁ء کے دوران ذیل ناول نویسوں پر اتفاق نہ ہوسکا ہے کہ ان میں کس کو صحیح مضمون میں اولیت کا شرف دیا جاسکے۔

 

۱) تھامس میلوری(۱۴۸۵ ؁ء)
۲) ڈان کویکسوڈ (۱۶۰۵ ؁ء)
۳) اورونکو(۱۶۸۸ ؁ء)
۴) مال فلنیڈرز (۱۷۲۲ ؁ء)
۵) رابن کروسو (۱۷۹۱ ؁ء)

 

برصغیر میں اردو ادب میں ناول نویسی انگلستان سے آیا ۔ اور سب سے پہلا ناول ڈپٹی نذیر احمد کا مراۃ العردس بتایا جاتا ہے (اگر چہ اس پر بعض نقاد کا اعتراض بھی ہے) جو ۱۸۶۹ ؁ء میں لکھا گیا تھا۔

 

ہماری صوبائی زبانوں میں سندھی میں پہلا ناول زینت میرزا قلیچ بیگ نے ۱۸۹۰ ؁ء میں لکھا۔پنجابی میں پہلا ناول پاوترا پاپی نانک سنگھ نے ۱۹۴۲ ؁ء میں، پشتو کا پہلا ناول پیغلہ صاحبزادہ محمد ادریس نے ۱۹۵۰ ؁ء میں اور بلوچی میں پہلا ناول نازک سید ظہور ہاشمی نے ۱۹۷۰ ؁ء میں تحریر کئے۔اور اب ۲۰۱۷ ؁ء میں کھوار زبان کا پہلا ناول اگریستانو لکھنے کاشرف ظفر اللہ پرواز کو حاصل ہوا۔ اسطرح وہ دنیا کے ادلین ناول نویسوں کی صف میں شامل ہو جاتے ہیں۔ جس پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے۔

 

 

اگریستانو کاجائزہ:
انگریستانو چترال میں ایک گاوں کے لوگوں کی دیہاتی زندگی کو سامنے رکھکر لکھا گیا ہے۔ اور اسمیں گاؤں کو مرکز بنا کر غالباً ڈیڑھ دوسو سال پہلے کے دیہاتی معاشرہ کے رسم و رواج ثقافت ، فوک لور،روایات، آپس میں بھائی چارہ ، باہمی تعاون، مشکل قدرتی حالات کے چیلنجوں کا سامنا کرنے کا عزم،اور صدیوں کے تجربات کے نتیجے میں قدرتی ماحول کے ساتھ ایڈجسٹ کرکے زندگی کے سفر کوآگے بڑھائے کی کوششوں کے قرینے وغیرہ مختلف اہم پہلوؤں کی نہایت خوبصور ت انداز میں عکاسی کی گئی ہے۔

 

پاکستان بننے کے بعد آردو ناولوں میں غلام اثقلین نقوی نے ایک ناول لکھا تھا۔ ’’میرا گاؤں‘‘۔ جو مختلف قسم کا ناول بتایا جاتا ہے۔ اور مشہور نقاد ڈاکٹر وزیر آغا اس کے بارے لکھتے ہیں کہ ایسا ناول تو کبھی کبھار لکھا جاتا ہے۔ جب تخلیق ہوتا ہے۔ تو اپنے عہد کا عظیم ناول قرار پاتا ہے‘‘۔
میرے نزدیک پرواز کا یہ ناول بھی کھوار ادب میں اولیت کی صفت کے ساتھ ایسا ناول ہے جو بہت کم لوگوں نے کسی بھی ادب میں لکھا۔ مزید اسے ایسی ٹھیٹ کھوار زبان میں لکھی گئی ہے۔ کہ ایک اہل زبان بھی اسکی زباندانی کی خوبیوں کا صحیح معنوں میں لطف اٹھا سکتا ہے۔ اسکا کوئی انگریزی یااُردو میں ترجمہ کرنا چاہے تو مفہوم توادا ہوسکے گا۔ لیکن کتاب کی اصل خوبی سامنے نہیں آسکیگی۔

 

ناول کے عناصر ترکیبی :
جیسا کہ ذکر ہوا۔ ناول ایک نثری قصہ ہے۔ جسیں پوری زندگی بیان کی جاتی ہے۔ ناول کے عناصرترکیبی ماہرین کے مطابق حسب ذیل ہیں۔
کہانی : پلاٹ، کردار نگاری، مکالمہ نگاری، اسلوب، نکتہ نظر (یانقطہ نظر) ۔ ان کے علاوہ بعض موضوع، منظر نگاری اور زبان ومکان بھی شامل کرتے ہیں۔

 

۱) کہانی: انگرستیانو کی کہانی نہایت مختصر اور سادہ کہانی ہے۔ اور صحیح معنوں ایک پرانے سادہ گاؤں کی سادہ کہانی ہے۔ اس میں کوئی پیچدگی نہیں۔ جسطرح ایک ہموار خوبصورت چمن میں پانی لگاتے ہیں اور پانی خوبصورت انداز میں چمن کو سیراب کرتا ہوا آگے بڑھتا رہتا ہے۔ یہی اس کہانی کی مثال ہے۔ اسکے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں۔ ایک ایسا گاؤں جسمیں پیارہی پیار ہمدردی ہی ہمدردی اور خیر خواہی ہی خیرخواہی کوئی کسی کی ٹانگیں کھنچنے کی کوشش نہیں کرتا ۔ سب قناعت پسند۔ جو کچھ ملااس پر شکر۔ جو نہیں ملا اس پر صبر ۔ گاؤں کا بڑا سب کا بڑا۔ سب کی مدد کرنے کیلئے ہروقت تیار : گاؤں کی بہتری کے لئے ممدومعاون ۔ یتیموں یسیروں کی مدد کو اپنی ذمہ داری تصور کرنے والا۔ اور گاؤں کا ہر جھوٹا بڑا اسکی قدر کرے۔

 

ایک ایسے آئیڈیل معاشرے کی عکاسی جس پر موجودہ زمانے کے ہزاروں لاکھوں نام نہادتہذیب یافتہ معاشروں کو قربان کیا جائے کم ہے۔
کہانی مختصر ہونے کے باوجود مصنف نے نہایت فن کاری سے اسکو تمام کتاب میں پھیلادیا ہے۔ جب کہانی کے ہیرو (وشلی) کی اک جگے رشتہ طے ہو جاتی ہے۔ تو اس کے بعد کہانی کی کشش میں کوئی خاص بات نہیں رہ جاتی تھی۔ موضوع سے ہٹ کے بھی دوسری باتوں میں کب تک قاری کومشغول رکھا جاسکتا تھا۔ یہاں مصنف نے وشلی کو ایک دوسری حسینہ غوچون کی محبت میں گرفتار کرتا ہے۔ وشلی کی لہ ابالی طبیعت کے لئے یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں تھی۔ قلا ہور کے ساتو اسکی شادی کی رخصتی تیار اور اُدھروہ غوچوں کے عشق میں گرفتارگھر واپس جانے کا نام نہ لے۔ اسطرح مصنف قاری کی دلچسپی اور سپنس قائم رکھنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اور آخیرتک اپنی گرفت میں رکھتا ہے۔

 

۲۔ پلا ٹ: اس ناول کے لکھنے سے مصنف کاخاص مقصد یہ معلوم ہوتا ہے۔ کہ کھو تہذیب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی معاشرتی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کی جائے۔ چنانچہ اس نے نہایت خوبصورت انداز میں ناول کی اصل کہانی کو طوالت دینے کی بجائے جگہ جگہ Digression (یعنی اصل موضوع سے تجاوز ) اختیار کرکے بے شمار چھوٹے موٹے واقعات۔ Cultural traits یعنی ثقافتی او صاف وخصوصیات اور کئی دلچسپ شوشوں کا تانابابن کر ناول کو نہ صرف دلچسپ بلکہ کئی لحاظ سے معلوماتی بنانے کی کوشش کی ہے۔ مشتے از خروارذیل کے موضوعات سے اندزہ ہوگا۔ کہ مصنف نے قائین کو بتانے کے لئے کتنا وسیع میدان (Scope) اپنے پیش نظر رکھا ہے۔

 

۱۔ مختلف رسومات پیدائش ، شادی موت دانت نکلنے کا رسم وغیرہ۔
۲۔ مختلف تہوار عید، پھندک ۔پتھاک وغیرہ۔
۳۔ مختلف رقص کے اقسام اور ذکر۔
۴۔ مختلف قسم کے گیتوں کاذکر۔
۵۔ مختلف قسم کے توہمات کاذکر۔
۶۔ ہرن کے شکار کاذکر۔
۷۔ باز شکارہ کاذکر اور بازنامہ ۔
۸۔ دریائیں تیرا کی سیکھنے اور اس موقع پر جشن کاذکر۔
۹۔ اس زمانے ترک (وسط ایشیائی ) قافلے کاذکر۔
۱۰۔ بدخشان سے متعلق بعض دلچسپ باتیں۔
۱۱۔ چترال میں چرس کی آمد۔
۱۲۔ افیون کا استعمال۔
۱۳۔ چترال میں تیل کے دیوے کی آمد اور لوگوں کی خوشی وحیرانگی۔
۱۴۔ قحط سالی اور اثرات۔
۱۵۔ جنگلی حیات کاذکر ۔ جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے مقامی روایات
۱۶۔ مصنوعی گلیشیئر (شایوز) بنانے کا طریقہ۔
۱۷۔ زمینداری سے متعلق رسومات۔
۱۸۔ دیسی طبابت ۔
۱۹۔ سفر کے مشکلات

اور نہ جانے کیا کیا ؟ اور ان مختلف ذیلی موضوعات کو اسطرح خوبصورت انداز میں ترتیب دی ہے جیسے موتی پروئے جاتے ہیں۔

 

۳۔ کردار نگاری:
ناول میں بہت سارے چھوٹے بڑے کردار ہیں جس طرح مشین کے پرزوں کی طرح گاؤں کے چھوٹے کردار بھی اہم ہوتے ہں۔ اور ہر کوئی گاؤں کے کاروبار میں اپنا کردار ادا کرکے گاؤں کے معاملات کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ اسطرح یہ چھوٹے کردار بھی اہم ہوتے ہیں۔ اور جو جہاں بھی ہے۔ مناسب ہے۔ اور فٹ ہیں لیکن ہم صرف ان چنداہم کرداروں کا ذکر کرینگے ۔ جن کے گرد کہانی گھومتی ہے۔ یا جو کہانی کو آگے بڑھانے میں مدد دیتے ہیں۔

 

سب سے اہم کردار لنگر آباد کا ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے۔ وہ واقعی صحیح مصنوں لنگر آباد ہے اور گاؤں کا بڑا ہے۔ اور اپنی بڑائی کا حق صحیح طور پر ادا کرتا ہے۔ کاش تمام رئیس چو دھری خان وغیرہ ان کی طرح ہو جائیں تو طبقاتی کشمکش دنیا سے ختم ہو جائے۔ اس کی کردار نگاری خوبصورت انداز میں ہوئی ہے۔ اور یہ ایک جاندار کردار کے طور پر سامنے آتا ہے۔ دوسری جاندار کردار وشلی کی ماں ہے۔ ایک بیوہ جس نے جوانی میں شوہر کا غم سہا۔ ایک بھائی کی جدائی برداشت کی۔ دوسرے گمشدہ بھائی کی واپسی کے انتظار کی عمر بھر گھڑیا ں گنتی رہی اور جب وہ واپس آیا تو اس کے جانے کا دن آگیا تھا۔ ایک بیٹا وشلی اسکی انکھوں کی ٹھنڈک تھا۔ وہ بھی بچپن سے لااُبالہ قسم کا ۔ بے پرواہ اور غیرذمہ دار جسکے لئے ہر وقت وہ پریشان رہی۔ اور آخری دنوں میں عرصہ دراز تک گھر سے غائب رہ کے اسکیلئے دکھ کی وجہ بنا۔ لیکن البتہ اتنا ہواکہ مرتے وقت اسکے غم دور ہوچکے تھے۔ بھائی بھی واپس آگیا تھا۔ وشلی کی شادی خانہ آبادی بھی شانداز طریقے انجام پذیر ہوگئی تھی۔

 

تیسرا اہم کردار وشلی کا ہے۔ اسکو کہانی کا ہیروکہہ سکتے ہیں۔ کیونکہ کہانی اسی کے ساتھ آگے بڑھتی ہے۔ بیوہ ماں کا اکلوتا بیٹا۔ اسلئے ماں کا لا ڈلا ۔ بچپن کالا ابالا پن بے پرواہی اور غیر ذمہ دارانہ حرکتیں جو زندگی بھر کسی نہ کسی صورت میں ظاہر ہوتی رہتی ہیں۔ البتہ بعض خوبیاں بھی اس نے غالباً لنگر آباد کی صحبت یا سرپرستی میں وقت کے ساتھ اپنا لی تھی۔ مثلاً بہترین فن کا جِسکو کئی قسم کے رقص کرنے میں مہارت حاصل ہوچکی تھی۔ ایک اچھا گلو کار جسکو سن کے لوگ جھوم اٹھتے تھے۔ ماہر تیراک جس نے ڈوبتے شہزادے کو بچالیا تھا۔ اور انعام حاصل کیا تھا۔ اچھا تفتگ انداز۔ اور دشمن کے مقابلے ئے چوق وچوبند۔ چناچہ تمام گاؤں والے اس سے محبت کرتے تھے۔ اور جہاں جا تا تھا۔ یہ لوگوں کی محبت وشفقت جیت جاتا تھا۔ اسکی یہ خاصیت تھی کہ پہلے ایک انجانے گاؤں کے لوگ اسکو اپنی بیٹی دینے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ بعد میں ایک دوسرے گاؤں کی ایک حسینہ اسکے ساتھ جانے کے لئے تیار ہو جاتی ہے۔

 

تیسرا اہم کردار دولوک کا ہے۔ نام کے حوالے سے اور کچھ کاموں کے حوالوں سے ڈرپوک اوربے وقوف لگے۔ لیکن بعض کام ایسے کئے حیران کرے۔ مثلاً اپنے کو دُعا گو دکھا کے ایک عورت کے شوہر کو دوسری شادی سے روکنا بدخشان کا سفر وہاں لوگوں سے ملاقا ت اور باتیں وہاں سے چرس کا تخم لانا وغیرہ ۔ لیکن انجام اس کا برا ہو جاتا ہے۔ اسکی بے وقوفی اور حرص کی وجہ سے ۔

ان علا دو کئی چھوٹے کردار ہیں ۔ جن میں چھوئی موخی اپنے حرص وہوس اورلالچی پن کی وجہ سے پورے گاؤں میں نفرت سے دیکھا جائے۔ اور انجام بھی اسکا نہایت عبرت ناک ہو جاتا ہے۔ ٹصور پیچو کائی کاکردار بن نہایت ہی مختصر لیکن متاثر کن ۔ ایک ایسی لڑکی جو اپنے گاؤں سے کبھی باہر نہیں گئی۔ کنواں کا ایک مینڈک ۔ اسکی خوبصورت کردار نگاری کی گئی ہے۔ ایسے لوگ دنیا کے تمام حصوں میں پائے جاتے ہیں۔ لنڈن میں ایک آدمی کا کسی نے بتایا کہ نوے برس کی عمر تک اپنے محلے سے باہر کہں نہیں گیا تھا۔

 

یہ بات دلچسپ ہے کہ اس ناول کا کوئی ویلن (رقیب بے نصیب) نہیں ہے۔ جو اس کمیونٹی کی خوبصورتی کو مزید اجاگر کتی ہے۔

 

۴۔ مکالمہ نگاری:
خوبصورت مکالمہ نگاری بھی ناول کو جاندار بناتی ہے۔ اور قاری کو اپنے گرفت میں رکھتی ہے۔ اس ناول میں بھی مکالمے مختصر جامع اور خوبصورت ہیں۔ لیکن اصل توجہ چونکہ دوسرے امور کی طرف تھی۔ اسلئے مکالمہ نگاری کو صرف ضرورت کے مطابق ہی پیش نظر رکھی گئی ہے۔

 

۵۔ اسلوب:
اور مصنف کے پیش نظر یہ بات تھی کہ کسطرح کھوار زبان کو اسکی اصلی حیثیت میں پیش کی جاسکے۔ اس کتاب کو پڑھ کے مجھے ایسا لگا کہ میں اب تک کھوار لکھنے کی کوشش میں جھک مارتا رہا ہوں۔ اس کتاب کی مدد سے مجھے کئی نئے کھوار الفاظ کا پتہ چل سکا۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ غیر ملاوٹ شدہ یہ کھوار کتنی خوبصورت ہے۔ اور ہم اس سے کس قدرمحروم ہیں اور مزید محروم ہوتے جارہے ہیں۔ میری طرح کئی دوستوں کو لفظ انگریستانوں کا بھی پتہ نہیں تھا۔ شروع میں اسکو انگریزستانوپڑھتا رہا۔ اور مولانا نگاہ صاحب کے پیش لفظ نے اور ناجی خان صاحب کی لغت نے مجھے صحیح راستے پر ڈالا ۔ یقیناًپرواز صاحب کی یہ کتاب نہ صرف کھوار ناول نگاری کے لئے اہم تحفہ ہے۔ بلکہ کھوار نثر نگاری کے لئے ایک بہترین نمونہ پیش کرتا ہے۔ اللہ کرے زدرقلم اور زیادہ نقطہ نظر، جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے کہ مصنف کا مطمع نظر یہ بات ہے کہ ایک پرانے گاؤں کا صحیح نقشہ پیش کرسکے۔ جس میں وہ پوری طرح کامیاب ہوئے ہیں۔

 

۷۔ موضوع:
کتاب کا موضوع کھوار کلچراور ثقافت کو ایک پرانے گاؤں کے حوالے سے اجا گر کرنا ہے۔ ایک ٹھنڈے علاقے ہیں آگ کی کتنی ضرورت نہ صرف تاپنے کے لئے بلکہ زندگی کے دوسرے کاموں کے لئے بھی آگ اگر بجھ جائے تو دوبارہ آگ جلانااس وقت کس قدر مشکل ہوتا ہوگا۔ اسکے لئے انگریستانو کا طریقہ اپنا یا جاتا تھا۔ اور کئی گھروں میں ایک ہی دفعہ آگ جلاکے اسکو انگریستانو کی مدد سے عرصہ دراز تک زندہ رکھا جاتا تھا۔
کہا جاتا ہے آگ کو زندہ رکھنے کا عمل ایرانی زرتشتوں کے زمانے سے (جن کی حکومت کئی ہزارو ں سال پہلے ان علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی)۔ چلاآتا تھا۔ اسی طرح آگ سے متعلق اور بھی رسوبات ان وادیوں میں پائے جاتے تھے۔

 

انگریستانو کی مدد سے دوسری صبح کے نئے آگ کو زندہ رکھنے کا یہ عمل دوسرے دن کا گرم جوشی سے استقبال کرنے کا عزم بھی ظاہر کرتا ہے۔ یہاں بھی مصنف نے ناول کے اخری سطر میں ٹھور پیچوکائی کے ذریعے ’’بہچرو اوژ گوران بڑاچھئے ایفونسی انگتی انگر یستانو دیتی چریوان دوپصئے۔۔۔‘‘ ایک ماتم کدہ گھر کو آنے والے صبح سے نئی امنگ کے ساتھ زندگی کے سلسلے کو آگے بڑھانے کی ترغیب ہے۔ نیز میرے نزدیک یہ تر غیب پرواز صاحب کے لئے بھی ہے کہ ناول نگاری کی جس آگ کو اس نے روشن کیا ہے۔ اسکو بچھنے نہیں دینا ہے۔ بلکہ زندہ رکھناہے۔
۸۔ منظر نگاری: مصنف کے منظر نگاری کے کیا کہنے پہلے صفحے سے ہی جسیں لنگر آباد کے گھر کی جو منظر کشی ہے۔ اس سے لیکر آگے مختلف صفحات میں جابہ جاکئی مناظر کو خوبصورت انداز میں بیان کرتا ہے جن کو پڑھ کے قاری جھوم اٹھتا ہے۔ اورکھوار زبان پر مصنف کی مہارت کو داد دئیے بغیر نہیں رہتا۔ آپ کی دلچسپی کے لئے چند صرف چند صفحات کا حوالہ دیتا ہوں جنہیں پڑھیں اور داد دیں۔
صفحات۔ ۷۳، ۸۵، ۱۳۸، ۱۵۱، ۱۶۶، ۱۷۲، ۱۸۹، وغیرہ وغیرہ ۔

 

۹۔ زمان وومکان:
عموماً ناول کے زمان ومکان فرضی ہوتے ہیں لیکن درمیان میں کوئی تاریخی اشارے یا کسی مقام کی طرف اشارہ آجائے تو پڑھنے والا اس کھوج میں لگتا ہے۔ کہ یہ کونسا زمانہ ہوگا یا یہ علاقہ کہاں واقع ہوگا۔ اس ناول میں واضح طور پر زمان ومکان کے بارے کچھ نہیں بتایا گیا۔ لیکن جواشارے ہیں ان کاذکر کرکے آپ پر چھوڑدوں گا۔تاکہ آپ خودہی کسی نتیجے پر پہنچ سکیں۔

 

زمانے کا تعین کرنے کے لئے دو اشارے ہیں مثلاًتیل کا دیوا چترال لانا۔ دوسرا راجہ وآئی۔ دنیا میں روشنی کے لئے تیل کا استعمال ہزاروں سالوں سے رائیج ہے۔ لیکن یہ تیل مختلف بیجوں سے نکالا گیا تیل ہو تا تھا۔ مثلاً سرسوں، زِیتون وغیرہ۔ چترال میں پرانے زمانے میں بھی اس قسم کے تیل کے استعمال کے(جہاں تک میرا خیال ہے) شواہدنہیں ملتے۔ اسلئے یہ دیوا والا تیل مٹی کا تیل ہوگا۔ اور مٹی کا تیل سب سے پہلے پولینڈمیں ۱۸۵۴ ؁ء میں دریافت ہوا اور ۱۸۶۹ ؁ء میں ہندوستان میں استعمال ہوناشروع ہوا۔ وہاں سے چترال پہنچنے پہنچتے کم از کم ۴۰ ، ۵۰ سال لگے ہوں گے؟
دوسرا تاریخی اشارہ راجہ وائی کا ہے کیا اگر یہ دہی کلاش بادشاہ راجہ وائی ہے تو اس کازمانہ سولویں صدی کا شروع تھا۔ اور اس کا علاقہ پائیں چترال تھا؟

 

اس گاؤں کا محل وقوع اگر بدخشان (براستہ پامیر) کے نزدیک تصور کریں تو غالباًیہ یا رخون کا یا بالائی تور کھوعلاقہ ہوگا۔ اور اگر راجہ وائی کے حوالے سے دیکھا جائے تو جنوبی چترال میں ڈھوننا پڑے گا۔ جو اس لئے ناممکن ہے کہ گاؤں کا تعلق اصلی کھو تہذیب کے علاقوں سے ہے۔ بہر صورت اس بحث کو یہاں چھوڑ دیتا ہوں۔

 

خلاصہ کلام :
خلاصہ کلام انگریستانو نہ صرف کھوار کا پہلا ناول ہے بلکہ ہر وقت کے لئے اور آنے والے زمانوں کے لئے ایک نہایت اہم ناول ہے۔ جسمیں کھوار تہذیب کو اپنی اصل حالت میں پیش کیاگیا ہے اور کھوار زبان کو اپنی اصلی ہئیت کے ساتھ قارئین کے سامنے پیش کیاگیا ہے۔ میرے خیال میں ائندہ نئے کھوار لکھنے والوں کے لئے یہ ایک ماڈل کا کام دے سکتا۔

کتاب کی چھپائی بہت خوبصورت ہے۔ کاغذ بھی عمدہ استعمال ہوا ہے۔ البتہ سرورق کتاب کے بارے ایک ادیب نے یوں کہا کہ’’ مجھے لگا کہ یہ مطالعہ پاکستان کے نصابی کتاب کی کوئی جلد ہے‘‘۔ ایندہ ایڈیشن اس کا ضرور چھپ جائے گا۔ بہتر ہوگا اگر سرورق بدل دیا جائے۔ قیمت کچھ زیادہ لگی۔

پروف کی غلطیاں نہایت کم ہیں۔ جو پروف ریڈر کا کمال ہے۔ کیونکہ ا نسان جتنی بھی کوشش کرے کوئی نہ کوئی غلطی نظروں سے چھپی ہوئی پائی ہوجاتی ہے۔

 

آخر میں پرواز صاحب خدمت میں ایک تجویز ہے کہ پرواز صاحب کے پاس چترال کی انتھر پولوجی پر جو معلومات ہیں ان کو الگ کرکے اور مزید اضافے کے ساتھ ایک کتاب تحریر کرلے۔ اسطرح یہ اہم معلومات زیادہ سے زیادہ قارئین تک پہنچ سکیں گی۔ اسی کتاب کا انگریزی میں اگر ترجمہ ہوا تو باہر کی دنیا میں اسکی بڑی قدرافزائی ہوگی۔ ترجمے کے لئے ڈاکٹر الینا بشیر ہی موذوں ترین شخصیت ہوسکتی ہیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
8318