Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

میری ملالہ………..تقدیرہ خان

Posted on
شیئر کریں:

قندہار سے چالیس میل کے فاصلے پر کوہ ماوند کے مغرب میں واقع ماوند کا قلعہ غزنی، کابل اور ہرات کی سمت جانے والے راستوں پر ایک ایسا مقام تھا جسے افغانستان کی فتح کی چابی کہا جاتا تھا۔ اس قلعے اور ارد گرد کے علاقوں کی اہمیت قدیم دور سے تسلیم شدہ تھی جس پر قبضے کے بغیر کسی بھی سمت آگے بڑھنا خود کشی کے مترادف تھا۔ یوں تو افغانستان پر امیر کابل کی حکومت تھی مگر قبائلی سرداروں کی اہمیت کسی بھی صورت بادشاہ سے کم نہ تھی۔ قبائلی اپنے سردار کا حکم، قبیلے کی غیرت اور بانگ (للکار) پر کٹ مرنے کو ترجیح دیتے اور یہی ان کے لیے آخری حکم ہوتا۔ قبائلی سرداروں کی مرضی کے بغیر بادشاہ نہ کابل سے باہر نکلتا اور نہ واپس آتا تھا۔ معاملات ملکی ہوں یا بین الاقوامی ، بادشاہ جرگے کی حمایت حاصل کرے کے بعد ہی فیصلہ کرتا ۔
امیر عبد الرحمن، امیر امان اللہ خان اور امیر دوست محمد کے ادوار مین روسی اور برطانوی ہند کی افغانستان میں مداخلت نے امیر کابل اور قبائلی سردارون کے درمیان اخوت، ہمدردی اور بھائی چارے کا رشتہ کمزور کیا تو بادشاہ کی اپنی اہمیت بھی کم ہو گئی۔ پہلی افغان جنگ کے دوران برطانوی ہند نے سخت ہزیمت اٹھائی جس کے تدارک کے لیے دوسری افغان جنگ کی تیاری کی گئی۔ اگرچہ دونوں بار برطانوی ہند کی فوجیں افغانستان میں تو داخل ہو گئیں مگر تا دیر قبضے کا خواب پورانہ ہو سکا۔
یہ جولائی1887ء کا مہینہ تھا۔ گندم کی فصل کٹ چکی تھی اور سردیوں کے پھل محفوظ کر لیے گئے تھے۔ قندہار اور غزنی کے درمیانی علاقوں میں سبزے کے تخت بچھے تھے، باغوں میں ٹھنڈا سا یہ تھا اور پہاڑوں پر برف پگھلنے کی وجہ سے ندیوں میں ٹھنڈا خوشبودار پانی رواں تھا۔ چرواہے اپنا مال مویشی وادیوں میں لے آئے تھے اور دیہاتوں میں سرخ ملبوس پہنے عورتیں قطاروں میں چشموں اور ندیوں کی طرف رخ کرتیں تو سبزے پر سرخ لکیر قوس و قزاح کے رنگ بکھیرتی۔
امیر محمد ایوب خان دو ماہ سے قلعے میں ہی موجود تھا اور مقامی سرداروں سے صلح مشورے میں مصروف تھا۔ سارے علاقے میں خبر پھیل چکی تھی کہ وائسرائے ہند کی فوجیں سندھ کے صحراؤں سے ہوتی درہ بولان عبور کر چکی ہیں اور امیر کابل کی اجازت سے قندر ہار کا رخ کر رہی ہیں۔ یہ بھی خبر تھی کہ انگریزی لشکر میں انگریز کم ہیں جبکہ ہندوستانی مسلمانوں، ہندوؤں، سکھوں، کشمیری ڈوگروں کے علاوہ اٹک، کوہاٹ، پشاور، مردان اور دیگر علاقوں کے پٹھان بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ علماء اور سردار اس بات پر حیران تھے کہ آخر ان لوگوں نے تنخواہ اور انعام کے لالچ میں1857ء کے غدر میں انگریز کا ساتھ دے کر اپنے ہی بادشاہ کے خلاف غداری کیوں کی اور اب امیر کابل ایسے لوگوں پر کیوں بھروسہ کر رہاہے۔
ماوند کے علاوہ ہرات، غزنی،میران اور دیگر علاقوں کے علماء اور سردار بھی اسی سوچ میں تھے اور فیصلہ کر چکے تھے کہ ہندی لشکر کا ہر حالت میں مقابلہ کیا جائے اور اسے کابل جانے سے روکا جائے۔
دوسری جانب جنرل جارج براڈنس بھی اپنے کمانڈروں اور حامی سرداروں سے مسلسل رابطے میں تھے۔ کمانڈروں اور سرداروں نے جنرل جارج کے سامنے دو آزمودہ نسخے رکھے جن کی مدد سے پیشقدمی آسان اور کسی حد تک بحفاظت ممکن تھی۔ اول علماء اورسرداروں کو دولت اور انعامات کی قوت سے خریدا جائے اور دوئم فوجی قوت سے کچھ دیا جائے ۔ جنرل جارج براڈنس نے اپنی فوجی قوت کا اندازہ لگایا اور فوجی قوت استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔

جنرل جارج براڈنس کو اطلاع مل چکی تھی کہ امیر محمد ایوب خان کو محض سات ہزار لشکریوں کی حمایت حاصل ہے جن میں سے بیشتر ابھی تک پہاڑوں سے نہیں اترے۔ رسم و رواج کے حوالے سے افغان خفیہ ایجنٹوں نے جنرل براؤن کو مطلع کیا کہ اس موسم میں رواج کے مطابق شادیاں ہوتیں ہیں اور بہت سے لوگ شادیوں کی تیاریو ں میں مصروف ہونے کی وجہ سے جنگ کے شغل میں نہیں پڑتے۔ تیسری خبر یہ دی گئی کہ افغان قبائلی انگریز ی تو پ خانے سے خائف ہیں چونکہ ان کے پاس کوئی ایسا ہتھیار نہیں جسے توپ کے مقابلے میں استعمال کیا جائے۔ زمینی حقائق اور قوت کی مقدار کو سامنے رکھتے ہوئے جنرل جاج کے لیے ماوند پر بھر پور یلغار اور فتح محض چند گھنٹوں کی بات تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ ماوند کی فتح سے افغانوں کو ایک سخت پیغام دیا جائے تا کہ کابل تک کوئی سردار برٹس انڈین فورس کا سامنا کرنے کی جرات نہ کرے۔
جنرل جارج کا برٹس انڈین ڈویژن دو انفنٹری بریگیڈروں ، ایک رائل کیولری رجمنٹ اور توپ خانے کی دو بیڑیوں پر مشتمل تھا۔ اس کے علاوہ اس ڈویژن کو تین ہزار لیویز اور کلیوں کی مدد حاصل تھی جو اونٹوں اور خچروں پر جنگی اور دیگر امدادی سامان اٹھانے پر مامور تھے۔
ماوند قلعے سے کچھ ہی فاصلے پر غلزئی قبیلے کی بستی جس کا نام خگ تھا میں قبیلے کے سردار کی بیٹی کی شادی کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ سردار کی بیٹی اپنے چچا کے بیٹے اکبر خان سے منسوب تھی جن کی شادی 27جولائی1887ء کے دن ہونا تھی۔ اکبر خان ایک وجہہ نوجوان تھا۔ گھوڑ سواری، نیزہ بازی، شمشیر زنی، اور بزکشی میں کوئی اس کا مقابلہ نہ کر سکتا تھا۔اکبر خان ایک خوش شکل اور تعلیم یافتہ نوجوان اور اپنے قبیلے کا ہیرو تھا۔ قلعے میں ہونے والی ملاقاتوں اور مشوروں میں بھی اکبر خان اور اس کا چچا شیر خان شریک ہوئے اور امیر محمد ایوب خان کو اپنے قبیلے کی جانب سے مکمل حمایت کا یقین دلاتے۔

ایک طرف ماوند میں سرداروں کے مشورے اور ملاقاتیں جاری تھیں اور دوسری جانب جنرل جارج براڈنس کا ڈویژن ماوند کی طرف کوچ کر چکا تھا۔26جولائی کی رات توپ خانے نے اپنی جگہ سنبھالی اور دونوں برٹش انڈین بریگیڈ حملے کے لیے صف آراء ہو گئے۔رائل کیولری رجمنٹ کو دونوں بریگیڈوں کے درمیان رکھا گیا تا کہ مناسب وقت پر کیولری درمیان سے راستہ بنا کر قلعے کے قریب پہنچ جائے۔ جنرل جارج نے افسروں سے مخاطب ہو کر کہا کہ اس حملے کو مچھر بھگانے والا ہوا کا جھونکا تصور کیا جائے اور سورج ڈھلنے سے پہلے قلعے پر فتح کا جھنڈا لہرا دیا جائے۔
برٹش انڈین ڈویژن کی آمد اور صف بندی کی خبر ملتے ہی ارد گرد کے دیہاتوں، قصبوں اور پہاڑوں پر مقیم قبائلی مختلف سمتوں میں آکر مورچہ زن ہو گئے اور امیر ایوب خان نے بھی قلعہ خالی کرنے کے بعد پہلے سے تجویز کردہ مقامات پر دفاعی پوزیشن اختیار کر لی۔
قبائلی سردار شیر خان کی خوبرو بیٹی اور اکبر خان کی آج کے دن بننے والی دلہن دیگر عورتوں کے ہمراہ زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے کا سامان لے کر میدان جنگ سے ہٹ کر ایک طرف بیٹھ گئی۔صبح ہوتے ہی برٹش تو پ خانے نے آگ برسانا شروع کر دی اور جہاں جہاں لشکروں کے چھپ کر بیٹھنے کا شبہ تھا وہاں اندھا دھند گولے برسائے۔ سورج نکلنے ہی انفنٹری اور کیولری نے یلغار شروع کی اور قبائلی لشکر بھی زمین سے امڈ آئے ۔ دونوں اطراف سے لاشیں گرنے کا سلسلہ شروع ہو ا جو کسی صورت رکنے کا نام نہ لے رہا تھا ۔ جنرل جارج کی پریشانی دیدنی تھی اسے یقین نہیں تھا کہ افغان برٹش توپ خانے اور برٹش رائفل برداروں کا اس ہمت اور جرآت سے مقابلہ کریں گے۔ دوپہر کو خبر ملی کے شیر خان نے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کر لیا اور اب قبیلے کا جھنڈا اکبر خان کے ہاتھ میں ہے۔ اور وہ ایک ہاتھ میں جھنڈ اور ایک ہاتھ میں تلوار اٹھائے انگریز افسروں کی گردیں اڑا رہا ہے۔ اور کئی بار گولیاں لگنے سے زخمی بھی ہو چکا ہے۔ یہ خبر سنتے ہیں گھوڑ ے پر سوار ہوئی اور تلوار لے کر میدان جنگ میں چلی گئی۔ ہر طرف لاشوں کے انبار تھے اور زخمیوں کا آہیں اور سسکیاں سنائی دے رہیں تھی۔ برٹش آرمی کے تازہ دم دستے میدان میں اتر چکے تھے اور جنرل جارج نے فیصلہ کن حملے کا حکم دے دیا تھا۔قبائلی لشکر آہستہ آہستہ پیچھے ہٹ رہے تھے اور نزدیک تھا کہ برٹش انڈین فوج فیصلہ کن حملے کے بعد فتح کا جھنڈا لہرا دے۔ اس سے قبل کہ افغان لشکر میدان چھوڑتے اکبر خان نے اپنے دستے کو آگے بڑھایا اور گورا رجمنٹ پر عقب سے بھرپور حملہ کیا ۔ ملالہ نے دیکھا کہ اکبر خان پر گورا رجمنٹ کے کئی سپاہیوں نے گولیاں برسائیں اور وہ زخموں سے چور قبیلے کا جھنڈا کا بلند کی کوشش کر رہا تھا۔ ملالہ نے اپنا نقاب اٹھا دیا اور بلند آواز میں پکارا’’ پیا رے محبوب جھنڈا نہ گرانا یہ میرے وطن کی عزت اور قوم کی عظمت کا نشان ہے تمہار ا سر گر گیا تو جنت میں دولہا بنے گا اگر جھنڈا گر گیا تو قوم شرمندہ ہوجائے گی‘‘اسی اثناء میں اکبر خان ایک طرف لڑکھڑا گیا اور ملالہ نے جھنڈا تھا م لیا ۔ملالہ کی آواز پر قبائل نے پیچھے ہٹنے کی بجائے آگے بڑھنا شروع کیا اور تو انگریزوں کے قدم اکھڑ گئے۔ انگریزی فوج میدان سے بھاگ نکلی ماوند کا میدان برٹش انڈین فوج کے لیے ندامت اور شرمندگی کا باعث بن گیا ۔لڑتے لڑتے ملالہ گورا رجمنٹ صفوں کے اندر چلی گئی اور توپ کا گولا لگنے سے شہادت کے مرتبے پر جا پہنچی۔

28جولائی1887ء کا دن وائسرائے ہند کی فوجوں کے لیے شرمندگی اور ندامت کا دن تھا ۔ 28جولائی کی شام تک بچا کچا ڈویژن واپس قندھار کی جانب کوچ کر گیا ۔ ماوند کی جنگ میں 2500افغان شہید اور 1500زخمی ہوئے برٹش انڈین آرمی کے ایک ہزار جوان اور ایک سو اکیس افسر مارے گئے دو سو جوان اور آٹھ سو افسر زخمی ہوئے۔ جنھیں میدان جنگ سے اٹھانے اور توپ خانے کی بیڑیوں کو بچانے پر ایک افسر اور ایک کاریورل وکٹوریہ کراس دیا گیا۔
ملالہ کی شہادت جرآت اور بیبا ک قیادت کی خبر سارے افغانستان میں پھیل گئی۔افغانوں نے وطن کی بہادر بیٹی کو میدان جنگ کی دلہن ملالہ کو ملالہ انا یعنی افغانوں کی دادی کا خطاب دیا۔امیر محمد ایوب خان نے میدان جنگ میں ہی ملالہ انا کا جنازہ پڑھایا اور اسے اپنے دلہا اکبر خان کے پہلو میں سپرد خاک کر دیا۔

ماوند کی جنگ اور عبرتناک شکست اس قدر خوفناک تھی کہ کسی برطانوی تاریخ دان یا مصنف نے کبھی اس کا ذکر نہیں کیا برطانوی جنگی ماہرین کا خیال تھا کہ اس جنگ اور شکست کا ذکر فوج کے حوصلے پست کرنے کا باعث بنے گا۔ ملالہ کا ذکر اور آخری للکار برطانوی افسروں اور جوانوں پر نفسیاتی اثر ڈالے گا اور ایک عورت کی للکار سن پر میدان جنگ سے بھاگنا جنگی تاریخ کا سیاہ باب ہو گا۔
مدت بعد ایک جرمن جریدے نے جنگ ماوند کا تفصیلی ذکر کیا اور ملالہ کے حوالے سے ایک گیت بھی لکھا ۔ اخبار نے لکھا کہ یہ گیت افغان عورتوں کا روایتی گیت اور انگریزوں کے دلوں پر چبتا ہوا تیر ہے۔
“With the drop of my sweet heart;s blood shed in defence of my motherland, will put a beauty spot on my forehead, such as would put to shame the rose in the garden”
میری ملالہ کی کہانی ابدی اور انمٹ ہے۔ ملالہ محض ایک عورت ہی نہیں بلکہ ایک روحانی قوت ، جرآت اور عظمت کا نشان ہے۔ میری ملالہ کو کسی تشہیر، لقب اور نوبل انعام کی ضرورت نہیں۔ وہ خود ایک لقب، ایک انعام اور ہمیشہ زندہ رہنے والا کردار ہے۔


شیئر کریں: