Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

والدین کے حقوق اور آج کا معاشرہ…………….شفیقہ اسرار

Posted on
شیئر کریں:

ماں کے قدموں کے تلے جنت ہے تو باپ اس جنت کا دروازہ ہے، ماں وہ عظیم ہستی ہے جو 9 مہینے بچے کو اپنے کوک میں پالتی ہے ان 9 مھینوں میں اس پر کیا گزرتی ہے وہ اسکو اور اس کے اللہ کو پتا ہوتا ہے۔ اتنے مشکلات کے باوجود جب وہ ماں اس بچے کو جنم دیتی ہے تو اس کا چہرہ چمک رہا ہوتا ہے اور ایک احساس اس کے دل کے کسی کونے میں پروان چڑھ رہا ہوتا ہے کہ میرا یہ بچہ آگے جا کے فرمانبردار ہوگا جتنی مشقتیں اور آزمائشیں ان پر گزری ہے سب ختم ہو جائینگی ۔ تو دوسری طرف وہ والد جو اپنا خون پسینہ ایک کرتا ہے صرف اس بچے کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھنے کے لیے، اس کو کسی چیز کی کمی محسوس نہ ہو اس کے دل کی ہر جائز اور ناجائز مراد کو پورا کرنے کے لیے اپنی زندگی قربان کر دیتا ہے۔ والدین خود بھوکے رہتے ہیں تاکہ وہ بچہ پیٹ بھر کے کھا سکے۔ خود پرانے کپڑوں سے گزارا کرتے ہیں تاکہ ان کا بچہ اچھا لباس پہنے اور دوسروں کے سامنے احساس کمتری کا شکار نہ ہو۔ پرایمری سے لیکر اعلٰی تعلیم ہو یا پہر اسکا گھر بسانا ہو مالی و جذباتی امداد کرتے ہیں۔ جب وہ بچہ جوان ہوتا ہے اور اپنے پیروں پر کھڑا ہوتا ہے، ذمہ داریاں اٹھانے کے لائق بن جاتا ہے تو وہ ماں باپ جو اس پر اپنی زندگی تک قربان کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ان کا اٹھنا ، بیٹھنا، کھانا، پینا، یہاں تک کہ انکی موجودگی بھی اسی بچے کے لیے باعث شرمندگی محسوس ہونے لگ جاتی ہے۔ وہ ماں باپ جنہوں نے اسے ہر چیز سکھای ہوتی ہے۔ وہی بچہ ان کو ہر بات پر روکنا اور ڈانٹنا شروع کر دیتا ہے۔ کچھ عرصے بعد یہی مقدس رشتے اولڈ ہاؤسز کے کسی کونے میں پڑے انجان لوگوں کو اپنے اسی بچے کی بچپن کی کہانیاں سنا رہے ہوتے ہے۔ بے دلی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ جس ماں کے قدموں کے تلے جنت ہے کسی فٹ پاتھ یا کسی کے دروازے پر بھیک مانگ رہی ہوتی ہے۔ وہ بوڑھا باپ جس نے اپنی نیند سے لیکر زندگی کی ساری جمع پونجی اس بچے پر قربان کر دی ہوتی ہے کسی بس اسٹاپ پر بھیک مانگنے یا مزدوری کر کے اپنا پیٹ پالنے کی کوشش میں مصروف نظر آتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ” خدا کی قسم ماں سے زیادہ کوئی اولاد کو پیار نہیں کرسکتا اور باپ سے زیادہ کوئی خیال نہیں کرسکتا۔” جب کسی ماں باپ کو اس حالت میں دیکھتی ہوں تو میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ یہ خیال آتا ہے کہ انسان جس کو اللہ تعالیٰ نے اشرف لمخلوقات کا درجہ دیا ہے. کیا وہ اتنا کمزور اور کم ظرف ہے کہ اپنے والدین کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا اور ان کی موجودگی برداشت نہیں کر سکتا, اللہ تعالیٰ سب کو توفیق عطا فرمائے کہ ھم سب والدین کے حقوق پورے کر سکیں تاکہ کسی ماں یا کسی باپ کو اپنا پیٹ پالنے کے لیے کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھلانے پڑے۔ یوں تو ہم اگر ساری زندگی بھی وقف کردے تو انکے ایک دن کا بھی مشقت بھی پورا نہیں کرسکتے لیکن کوشش اتنی ہو کہ ان کے چہرہ مبارک پر کبھی غم کی پرچھائی نہ آنے پائے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے ” اور تمھارے رب نے فیصلہ کردیا ہے (کہ لوگو)اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو ، ان سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچے تو ان کو اف تک نہ کھو اور ان سے ادب سے بات کرو”.


شیئر کریں: