Chitral Times

Mar 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

وعدہِ فراموش…………… میر سیما آمان

Posted on
شیئر کریں:

روز سورج طلوع ہوتے ہوئے دیکھتی ہوں توبچپن کا رٹا ہوا سبق یاد آجاتا ہے جسکے مطابق سورج کا طلوع و غروب ہونا،ستاروں کا اپنی جگہ قائم رہنا ۔چاند کی عالمگیر روشنی سب اﷲکی وحدانیت کی نشانیاں ہیں۔اﷲتعالی کی وحدانیت پر تو کامل یقین ہے لیکن میں سمجھتی ہوں کہ روز مقررہ وقت پر سورج کا طلوع ہونا اﷲتعا لی کی وحدانیت کے ساتھ اﷲ کا بندوں کے ساتھ اپنے عہد کی پاسداری کو بھی ثابت کرتا ہے۔ مقررہ وقتوں پر سورج کا طلوع و غروب ہونا ،مقررہ وقت پر بہار کی آمد،ساون کے مہینے میں بارشیں،سردیوں میں برفباری کے حسین مناظر،رات چاندنی کے اُجالے ہوں یا سورج کی کرنوں سے منور دن۔۔۔ یہ سب اﷲ تعالی کے وہ دلفریب وعدے ہیں۔جو بندوں کی لاکھوں۔کروڑوں ۔اربوں نا فرمانیوں کے باوجود پورے ہو رہے ہیں اور تا قیامت پورے ہو تے رہیں گے۔کبھی کبھار میں سوچتی ہوں اگر کسی روذ ہمارا اﷲ بھی ہماری طرح Disheart ہو گیا اور بد عہدی پر اُتر ایا تو ہمارا کیا حال ہوگا۔۔۔؟؟؟ کیا ہوگا اگر ایک روز سورج مقررہ وقت پر طلوع نہ ہو دن کے انتظار میں شائد ہمارا ہارٹ اٹیک ہو جائے۔لفظ انتظار سے مجھے وہ ماں یاد آجاتی ہے۔جس نے معذور بچے کو جنم دیا ہو۔اور ڈاکٹر امید دلاتا ہے کہ بچہ ۱۱ سال کا ہوگا تو علاج ممکن ہے۔ یہ بے چاری ماں ایک ایک لمحہ ا مید پر ۱۱سال انتظار میں گزارتی ہے اور اخرکار گیارہویں سال بچے کا علاج کے نام پر قتل ہو جاتا ہے۔ماں جھوٹی امید کے ملبے تلے ہمیشہ کے لئے دفن ہوجاتی ہے۔انتظار کی کوفت کا انداذہ اپ اس مسافر سے بھی لگاسکتے ہیں۔ جو صبح ۸ بجے کا ٹکٹ لئے دوپہر ۱یک بجے تک ٹرین کے انتظار میں بیٹھا رہتا ہے۔وہ سٹوڈنٹس جو ۲بجے ٹیوشن کا سوچ کر اکیڈمی آجاتے ہیں لیکن ۳بجے تک ٹیچر کی حاضری ہی ممکن نہیں ہوتی،یا وہ ٹیچر جو علم بانٹنے کے شوق میں سویرے ہی سکول پہنچ جاتا ہے لیکن طلبہ کی بد عہدی پر سر دھنتا ہی رہ جاتا ہے ۔ہمارے ملک میں بد عہدی کا لفظ محض سیاستدانوں کے جھوٹے نعروں کے لئے مختص کر دیا گیا ہے۔حالا نکہ سچ تو یہ ہے کہ اس ملک کا ہر ادارہ ہر چھوٹا بڑا آدمی اپنی ذات میں بد عہدی کا اعلی مثال ہے۔ ہمارے نو جوانوں کا سب سے بڑا خواب بیرون ملک جانا ہے۔ایک بار چلے جائیں تو واپس مڑ کر نہیں دیکھتے ہیں۔

اپنے ملک کو گالیاں دیتے نہیں تھکتے ۔وہاں کے ڈسپلن کی بات کرتے ہیں۔وقت کی پابندی کی مثالیں دیتے ہیں۔وہاں کی صفائی کا شور ڈالتے ہیں۔اور یہ سب کہتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ وہاں اُصولوں کو پاوں تلے روندنے والی قوم نہیں ہے۔ہاں اگر دنیا میں کوئی بھی ملک ترقی پر ہے تو اسکی واحد وجہ اسکی قوم کا اپنی زبان پر پکا ہونا ہے۔اپنے وعدوں کی پاسداری کرناہے۔

بیرون ممالک میں ٹرینوں اور بسوں کا وقت پر پہنچنا ان اداروں کا اپنی قوم کے ساتھ وہ کمٹمنٹ ہے جسے ہر حال میں پورا کرنا ہے۔ان ممالک میں وقت کی پابندی سے لیکر صفائی کے عام ہونے تک یہ تمام چیزیں ان ملکوں میں عہد کی پاسداری کو ثابت کرتی ہیں۔
جن قوموں کو اپنی تنخواہیں حلال کرنے کی بیماری لگ جائے۔وہ قومیں ترقی ضرور کرتی ہیں۔یہ ہم ہیں جو ڈنڈی مارنے کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں۔کہ تنخواہیں تو ایک طرف اب اپنی زندگیاں بھی ہمیں حلال نہیں لگتیں۔ اور نہ جانے کتنے سال ہم نسل در نسل بد عہدی کے دور میں جئیں گے۔بحرحال میں اپنی عوام سے صرف اتنا کہوں گی کہ اگر آپ ملکھون کے بیج بوئیں اور پودا سورج مکھی کا نکل آئے۔تو کیاخیالات ہونگے آپکے؟؟ہاں اگر ملک کے سارے کسان ٹماٹر کی بیج بونے پر آلو اُگنے اور کھیروں کی بیج پر ساگ اُگنے کی شکایات کریں تو اس ملک کے ہر شخص کا بیج پر سے اعتبار اُٹھ جائے گا۔

پھر قوم کا کوئی مالی پھول لگانے کی جسارت کرے گا نہ کو ئی کسان کھیت لگانے کی۔۔باغات ویران ہو جائیں گے کھیت اُجر جائیں گے۔کسان بے روزگار ہوگا اور عوام نت نئے پھولوں سمیت ہر طرح کے سبزیوں اور پھلوں سے محروم ہوجائیں گے،لیکن اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے باغات میں کارنیشن۔ٹیولپ،اور ملکھون کھلتے رہیں ،ہمارے دسترخواں موسمی پھلوں سے سجتے رہیں ۔اور اگر ہمیں اپنی باغات کی خوبصورتی ، کسانوں کی روزگار اور ملک کی ترقی عزیز ہے تو ہمیں ’’’ بیج ‘‘‘ کو قابل ِ اعتبار بنانا ہوگا۔ورنہ قدرت کا ہر نظام چیخ چیخ کر ہمارے منہ پر مضطر کا یہ شعر گاتی رہیں گی کہ ’’’اے وعدہ ِ فرامو ش میں تجھ سا تو نہیں ہوں۔۔۔۔۔۔شاعر نے یہ شعر کن افراد کے لئے لکھا ہے۔نہیں معلوم۔۔لیکن مجھے تو یہ الفاظ ذاتی طور پر اُن لوگوں کے لئے بہار کا پیغام لگتی ہے جن کی زندگی میں مُنافقت ، دھوکہ بازی اور بے ضمیری کا ایک اور سال بیت گیا ہوگا۔۔


شیئر کریں: