Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

حوا کی بیٹی کا المیہ……………محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

محکمہ سماجی بہبود اور تحفظ نسواں خیبر پختونخوا نے خواتین اور لڑکیوں کے گھر سے بھاگنے کے واقعات میں غیر معمولی اضافے کی نشاندہی کی ہے۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق 2016میں 578خواتین اور لڑکیوں نے دارالامان میں پناہ لی تھی۔2017میں گھر سے بھاگنے والی خواتین کی تعداد تقریبا ایک ہزار تک پہنچ گئی۔پختون معاشرے میں عورت باپ کے گھر سے دلہن کے روپ میں خاوند کے گھر میں داخل ہوتی ہے اور پھر اس کا جنازہ ہی شوہر کی دہلیز سے باہر نکلتا ہے۔تعلیم اور روزگار کے لئے خواتین کے گھروں سے باہر نکلنے پر کوئی پابندی نہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں خواتین یونیورسٹیوں ، کالجوں اور سکولوں میں پڑھتی اور پڑھاتی ہیں۔ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں ملازمت کرتی ہیں۔ بینکوں اور اسپتالوں میں خدمات انجام دیتی ہیں۔ جو خواتین تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملازمت یا کاروبار سے وابستہ ہوتی ہیں وہ نہ صرف اپنے پاوں پر کھڑی ہوتی ہیں بلکہ اپنے خاندانوں کا سہارا بنتی ہیں اور انہیں معاشرے میں رول ماڈل کا درجہ دیا جاتا ہے۔ گھروں سے بھاگ کر دارالامان میں پناہ لینے والی خواتین کون ہیں۔ ان میں زیادہ تروہ بے سہارا خواتین ہیں جو والدین کی مرضی کے خلاف پسند کی شادی کرلیتی ہیں۔ شوہر یا اس کے خاندان سے جب نہیں بنتی اور ماں باپ کے دروازے بھی ان پر بند ہوجاتے ہیں تو وہ دارالامان کا رخ کرتی ہیں۔ کچھ خواتین گھریلو ناچاقی کی وجہ سے جان کی امان کی خاطر گھر سے باہر پناہ تلاش کرتی ہیں۔ بہت سی لڑکیاں گھروں سے اس وجہ سے بھاگتی ہیں کہ ان کی کم عمری میں زبردستی شادیاں کرائی جاتی ہیں۔ گھریلو تشدد اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات بھی خواتین کے لئے گھر سے بے گھر ہونے اور دارالامان میں پناہ لینے کا ذریعہ بنتے ہیں ۔ غگ ، ونی اور وٹے سٹے کی شادیاں بھی خواتین کو اپنوں سے جان بچاکر غیروں کے پاس پناہ مانگنے پر مجبور کرتی ہیں۔حد سے زیادہ سختی اور ضرورت سے زیادہ نرمی اور مادرپدرآزادی بھی خواتین کو بے راہروی اختیار کرنے کی وجہ بنتی ہے۔ موبائل اور سوشل میڈیا کا غلط استعمال بھی نوجوان نسل خصوصا خواتین کو خاندانوں سے الگ کرنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔وقتی طور پر جذبات کی رو میں بہہ کر سونے چاندی میں تولے جانے، آسمان سے تارے توڑ کرجھولی میں بھرے جانے کے وعدوں پر؂ شاہانہ زندگی کے سنہرے خوابوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جو خواتین اپنے گھر کی دہلیز پار کرتی ہیں وہ خاندانوں کے درمیان خونی تنازعات کا بھی سبب بن جاتی ہیں۔ جب وعدے پورے نہیں ہوتے اور توقعات پر اوس پڑنے لگتی ہے تو وہ عارضی رشتے ناطے توڑکر سڑکوں پر آتی ہیں جب سرچھپانے کی جگہ نہ ملے تو دارالامان کا رخ کرتی ہیں ۔ جن بڑے شہروں میں دارالامان موجود ہیں وہاں ایسے بے سہارا خواتین اور لڑکیوں کو عارضی پناہ مل جاتی ہے لیکن جہاں یہ سہولت میسر نہیں۔ وہاں حالات سے دلبرداشتہ خواتین اپنے گلے میں پھندا ڈال کر، خود کو آگ میں جھونک کر یا دریا میں چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرتی ہیں۔ ضلع چترال میں گذشتہ ایک سال کے دوران 18افراد نے اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی کا چراغ گل کردیا جن میں اکثریت جوانسال خواتین کی تھی۔یہ تمام خرابیاں دین سے دوری، اقدار اور روایات سے بغاوت اور ناموافق خاندانی حالات کا شاخسانہ ہیں۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے پیسہ جمع کرنے کو اپنی زندگی کا واحد مقصد بنالیا ہے۔ بچوں کو مہنگے سکولوں میں داخل کراتے ہیں ان کی تمام ضرورتیں پوری کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اپنا فرض نبھا دیا ہے۔ حالانکہ بنیادی انسانی ضرورتیں پوری کرنے کے ساتھ بچوں کی کردار سازی ، اخلاقی تربیت، اقدار کا احترام کرنے کا درس اور دین کے ساتھ انہیں وابستہ رکھنا بھی والدین کے فرائض میں شامل ہے۔ یہ مشہور قول ہے کہ بچے کو سونے کا نوالہ کھلاو اور شیر کی نظر سے اسے دیکھو۔اس میں افراط و تفریط سے بچے بے راہروی کا شکار ہوسکتے ہیں۔خواتین اور لڑکیوں کا گھروں سے پناہ کی تلاش میں باہر نکلنا ہمارے معاشرے کے ماتھے پر بدنماداغ ہے۔ جسے مٹانے کے لئے والدین، اساتذہ، علمائے کرام، دانشوروں، اہل قلم اور ذرائع ابلاغ کو اپنا کردار موثر طریقے سے ادا کرنا ہوگا۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
8022