Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

کُنجِ قفس……….. جلن …………..الطاف اعجازؔ گرم چشمہ

Posted on
شیئر کریں:

آدمی جلن میں مبتلا ہو یا حسد میں، ایک بات یقینی ہے اور وہ یہ کہ نقصان صرف اس کی اپنی ہی ذات کو ہورہا ہے، پریشانی صرف اس کی اپنی ہی روح کو ہورہی ہے ۔عجب لفظ ہے یہ ’ حسد ‘ ۔۔۔تین حروف مگر اپنے اندر جہاں پنہاں رکھتی ہے، دیکھنے سے سامنے والے کو سطحی طور پر پرسکوں اظہار دیتی ہوئی نظر آتی ہے چا ہے سامنے والا جگری دوست ہی کیوں نہ ہو ،مگر درون میں ہمہ وقت تاپڑیں کھا تا ہوااس آگ کی تیاری میں ہوتا ہے کہ سامنے والے کو کسی بھی صورت شکست دی جائے، پست دی جائے، یا جڑ سے ہی اکھاڑ پھینکی جائے۔ ۔ ۔ ۔ جلن۔۔۔۔خود کو پنہاں رکھنے کی کوشش میں خود کو عیاں کرتی رہتی ہے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ کس وقت کس کو کس وجہ سے جلن ہوتی ہے اور وہ وجہ جلن کو مزید نکھارتے ہیں تاکہ جلنے والے جلے اور جلتے رہے ۔معنی کے اعتبار سے یہ لفظ خوب سے خوب ترتک نکلتی ہے جس کی تشریح تھوڑا مشکل ہے۔ اگر آپ جلن کو لے کر اپنا ہاتھ آگ کے اندر ڈالیں تو اس وقت آپ کواس لفظ کی فقط لغوی معنی ملے گی جو کہ سب کو علم ہے، مگر بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔۔۔جلن میں کچھ اور معنی بھی پوشیدہ ہے، اس میں کچھ اور کہانی بھی ہے بلکہ کہانیاں پوشیدہ ہیں۔ اس کی ایک مختصر جھلک یہ ہے کہ پڑوسی ایک کار خریدلے تو عجیب بات ہے کہ طبیعت کو نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ ہونے لگتی ہے، کھوئے کھوئے رہنے لگتی ہے، ایسے جیسے کچھ گم ہوگئی ہو، حالانکہ بات یہ ہے کہ ہمسائے میں ایک کار آئی ہے اور آپ اس غصے میں ہیں کہ کار نہ آئے ۔ جلن ہر آدمی میں ہوتا ہے۔یہ جذبہ اپنوں اور غیروں کے ساتھ ساتھ ایک تاجر سے لے کر کلاس میں ایک چھوٹے سے بچے تک سب میں نظر آتا ہے۔ جلن یا حسد ایک معتدی بیماری ہے اور یہ بیماری حاسد سے پھیل کرمرکزنظر محسود کوبھی اپنے لپیٹ میں لے لیتا ہے اور بعض وقت سامنے والے کو یکسر برباد بھی کر سکتا ہے۔ جس کے اندر جلن کی وجہ دیر تک رہے وہ آدمی بغض کا شکار ہو جاتا ہے حسد میں مبتلا ہوجاتا ہے ، اور حسد دل کے لئے ایک منج ہے ایک مہلک مرض ہے۔ جلن ایک جائز جذبہ نہیں ہے اس کی سب سے بڑی نقصان یہ ہے کہ اس کا مآل خود اپنے ہی ذات کی برباد ی پر منتنج ہوتا ہے، اس کی علامتیں یا روحانی روگ کی صورت ظاہر ہوتی ہیں یاوقت سے پہلے جھر یوں کی شکل میں چہرے پر نمودار ہوتی ہیں ۔پندرہ سال کے ایک جوان شخص کو جلن بہت جلد پنتیس سال کا بنا سکتا ہے۔جلن عقل والے کو مکاربنا دیتی ہے اور دل والے کو منتقم، اس لئے مکار طبیعت اور انتقام لینے والی طبیعت دونوں حاسد طبیعت ہیں۔مکاری کہتی ہے کہ سامنے والا ترقی نہ کرے اور انتقام کہتا ہے کہ سامنے والا سرے سے ہی نہ ہو، یہ الگ بات کہ عشق بیج میں آئے۔ چونکہ مکاری اور انتقام دونوں اچھے جذبے نہیں ہیں جس کا منبع جلن ہے اس لئے جلن یا حسد بذاد خو داچھی چیز نہیں ہے۔جو آدمی دوسروں کی ذاتی زندگی میں جھانکتا رہے، سوالات کرتا رہے تو سمجھو وہ خیر خواہ نہیں بلکہ جلن کا شکار ہے ۔ دوران گفتگو ٹوکنا حسد کی علامت ہے، کیونکہ گفتگو صاحبِ گفتگو کو جلا بخشتی ہے جبکہ حاسد چاہتا ہے کہ ایسا گفتگو ہو ہی نہ،مدام شکایاتیں کرتے پھرنے والے حسد کے جذبات رکھنے والے ہوتے ہیں، ہر معمالے کوموازنہ کرنے والا حسد والا ہوتا ہے۔ سلام ومصافحہ سے پہلے ہی آدمی پھلانگ کر تمھارے حالات ٹٹولنے پہ اترے توایسے آدمی سے پناہ مانگو۔ایک عام سی بات چیت میں دوران گفتگو ہر ’وہ‘ کے ساتھ ساتھ لفظ ’میں‘ کو بھی استعمال کرنے سے اگر باز نہیں رہتے ہو تو سمجھو کہ تم میں کہیں نہ کہیں جلن ہے۔جلن کی ایک کمزور علامت یہ ہے کہ آدمی نصیحت کی آڑمیں سامنے والے کواپنے ہونے کا احساس دلائے جبکہ حالات ایسے ہو ں کہ نصیحت کی کوئی ضرورت ہی نہ ہو۔ حسد کرنے والے کی زندگی دراصل اس کی اپنی نہیں ہوتی ، اس کی زندگی معاشرے کی تغیرات کے شکنجے میں ہوتی ہے، وہ جیتا ہے مگر اس کی ذہن دوسروں کی معاملات کے ہاتھوں پھنس چکا ہوتا ہے ، اس کے حصے کی زندگی کو دو سروں کے حالات جیا کرتے ہیں، اس کی زندگی کی نشونما دوسروں کے حالات سے ہوتی ہے، وہ گھر میں تو ہوتا ہے مگراس کے خیالات ہمیشہ باہر ہوتے ہیں ۔ ایک حاسد ہنستا ہے مگر نقلی ، روتا ہے مگر جعلی، بات کرتا ہے مگر تقابلی اور یہی مقابلتی رویہ ردعمل پرحسد کا بیج لاتا ہے۔ ایک حاسد کے لئے مزید کیا سز ا کی بات، اس کی سب سے بڑی سزا ہی یہ ہے کہ وہ حسد جیسے آگ میں مبتلا ہے۔۔۔ اس دنیا میں زندگی مختصر ہے ، بہت مختصر ، دو دن کی اور ان دو دنوں کو کسی جواز کے تحت گزارنا عین زندگی ہے ورنہ زندگی کوہی ایک حسیں جواز سمجھ کر کاٹی جائے ،اور اگر یہ بھی نصیب میں نہیں تو کسی ٹہنی پر ذرد پتے کی طرف رجحان کی جائے زندگی معنی دیتی ہوئی نظر آئیگی ۔۔۔ مگر ایک حسد میں گرفتار شخص کو ساری زندگی میں بھی جینے کے لئے یہ دو دن نہیں ملیں گے کیونکہ وہ ہمہ وقت ایک ہی کام میں مصروف رہتا ہے اور وہ کام ہے حسد ۔ مختصر یہ کہ حسد کھا جانے والی آگ ہے، اس کا اثر محسود تک پہنچنے سے پہلے حاسد کو ہی برباد کر چکا ہوتا ہے ۔ حسد سے بچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ آنکھیں بند کرکے اُس نعمت کی سب سے زیادہ شکر کی جائے جو ابھی اسی وقت تمھارے پاس ہے کیونکہ زندگی تغیرات سے کرواٹیں لینے والا ایک بے ہنگم عمل ہے، کب کیا ہو جائے کسی کو بھی علم نہیں۔ جب آدمی اپنا نیا کوٹ بھول کر اس سوچ میں لگے کہ سامنے والے کے پاس بھی کوٹ ہے مگر کیوں ہے،اور ستم یہ ہو کہ سامنے والے کی کوٹ پرانا بھی ہو تو اس آدمی کی زندگی ۔۔۔۔کیا زندگی! بحرحال جو بھی ہو، اس جلن کی ایک اور کہانی بھی ہے جو شاید سب سے زیادہ طاقتور ہے۔۔محبت ہو، محبوب ہو اور ساتھ ساتھ رقیب بھی ۔۔۔۔خدا نہ کرے ،خدا نہ کرے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
7919