Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست …………..محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

برصغیر میں مسلم اقتدار کے بانی ظہیر الدین محمد بابر کا ایک مشہور فارسی قول ہے کہ’’ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘جس کے معنی یہ ہیں کہ اے بابر۔۔ اپنی زندگی کا بھرپور لطف اٹھاو اور عیش کرو کیونکہ زندگی ایک ہی بار ملتی ہے ۔بار بار نہیں ملتی۔بعض لوگ اس پر معترض ہیں کہ زندگی کا واحد مقصد عیش و عشرت کرنا نہیں ہوتا ۔لیکن بابرکا یہ قول ان کی زندگی کے طویل تجربے کا نچوڑ ہے۔ عیش کرنے سے مراد لہولعب میں مبتلا ہونا، شراب، شباب اور کباب کا رسیا ہونا، دولت جمع کرنا ، بڑے بنگلے، قیمتی گاڑیاں ، پلازے بنانا اور آف شور کمپنیوں کا مالک بننا نہیں۔ بلکہ روزمرہ زندگی میں چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو بھرپور طریقے سے منانا اور اپنی زندگی کا لطف اٹھانا ہے۔خوشیاں منانے کے مواقع ہم سب کو روز ملتے ہیں۔مگر ہم نے چھوٹے چھوٹے مسائل اور پریشانیوں میں خود کو اتنا مصروف کردیا ہے کہ خوشیاں منانے کے لئے وقت ہی نہیں نکال سکتے۔اور اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی اجیرن بنادی ہے۔اپنے اور بچوں کے جنم دن کی خوشی، بچوں کے پاس ہونے ، موسم خوشگوار ہونے، کسی دوست کے ملنے، گھر میں اچھا کھانا پکنے، کسی عزیزرشتہ دارسے اچانک ملاقات سمیت خوشیاں منانے اور مسکراہٹیں بکھیرنے کے کئی مواقع ہمیں ہر لمحہ ملتے ہیں جنہیں ہم اہمیت نہ دیتے ہوئے ضائع کرتے ہیں۔ جنم دن پر زندگی کا ایک سال مزید کم ہونے پر کڑھنے کے بجائے ہم اپنی پیدائش کے لئے شکرانے کے طور پر منائیں۔اپنی خوشیوں میں دوسروں کو بھی شریک کریں۔دعوتوں کا اہتمام کریں تو خوشیاں دوبالا ہوجاتی ہیں۔گھر سے خیر اور خیرات نکلے تو رزق میں برکت آتی ہے۔کچھ دوستوں کا یہاں تک کہنا ہے کہ طویل لوڈ شیڈنگ کے بعد بجلی اور گیس آنے کی خوشی بھی کم نہیں ہوتی۔ جسے تقریب کی صورت میں اگر نہ بھی منائیں تو کم از کم اس پر خوشی کا اظہار کرنے میں کیا حرج ہے۔ ماہرین طب و نفسیات کا کہنا ہے کہ ہنسنا اور مسکرانا صحت کے لئے ضروری ہیں۔اس سے انسانی جسم کے پٹھوں کی ورزش ہوتی ہے اورجسمانی ساخت برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ حدیث نبوی ہے کہ اگر آپ اپنے کسی بھائی یا بہن کو کچھ دے نہیں سکتے۔ تو اس سے ساتھ مسکرا کر بات کرنا بھی صدقہ ہے۔ اور مسکرانے پر کوئی خرچہ نہیں آتا۔ اور اس کے فوائد بے شمار ہیں۔یہ ماہرین نفسیات بھی بڑے پہنچے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔ وہ انسان کے اندر کی بات سمجھتے ہیں۔ اور خوشگوار زندگی گذارنے اور مصائب و آلام سے نجات کے ایسے طریقے بتاتے ہیں جن پر کوئی خرچہ نہیں آتااور زندگی سنور جاتی ہے۔ انسان کو صرف اپنی سوچ اور اپنا طرز عمل تبدیل کرنا ہوتا ہے جس سے زندگی کے غم خوشیوں میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔معروف ماہر نفسیات جون روزمونڈ کہتے ہیں کہ میں نے بہت سے شادی شدہ جوڑوں سے پوچھا کہ ان کی نظر میں خاندان میں سب سے اہم افراد کون ہیں۔ مثالی والدین کہلانے والے ان جوڑوں نے بتایا کہ ان کے بچے خاندان میں ان کے لئے سب سے زیادہ اہم ہیں۔جب ان سے پوچھا گیا کہ تمہاری نظر میں بچے سب سے اہم ہونے کی کیا وجوہات ہیں۔ تو کسی کے پاس تسلی بخش جواب نہیں تھا۔ صرف جذباتی باتوں کی بنیاد پر وہ بچوں کو خاندان کے اہم ترین افراد کا درجہ دے رہے تھے۔ جون روزمونڈ کہتے ہیں کہ خاندان کے سب سے اہم افراد بچے نہیں۔ بلکہ والدین ہوتے ہیں۔ انہی والدین کی بدولت بچوں کی اچھی پرورش ہوتی ہے بہتر تربیت ہوتی ہے۔ انہیں اچھے لباس پہننے کو ملتے ہیں۔ اچھی خوراک کھانے کو ملتی ہے۔ بہترین سکولوں میں پڑھنے کے مواقع ملتے ہیں۔ انہیں معاشرے میں اچھی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ والدین کی بہتر تعلیم و تربیت اور پرورش کی بدولت وہ عملی زندگی میں بہتر مقام حاصل کرتے ہیں اور ملک و قوم کے لئے مفید شہری بن جاتے ہیں۔ روزمونڈ نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ فوج کا سب سے اہم فرد کمانڈر، کسی کمپنی کا روح رواں اس کا چیف ایگزیکٹو اور کلاس روم میں سب سے اہم فرد استاد ہوتا ہے۔ اسی طرح خاندان میں اہم ترین افراد بچے نہیں بلکہ والدین ہوتے ہیں۔ ان کی بالادستی ہی خاندان کی بہتری اور ترقی کی ضمانت ہے۔ ماہرین نفسیات کے یہ مشورے اور ماضی کے اقوال زرین اگرچہ معمولی لگتے ہیں۔ مگر ان پر غور کیا جائے تو ان میں زندگی کا فلسفہ چھپا ہوتا ہے اور انہیں اپنی معمولات کا حصہ بنانے سے انسان زندگی سنور سکتی ہے۔لیکن تجربہ شرط ہے۔


شیئر کریں: