Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دیوار کیاگری میرے کچے مکان کی…………….. محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

پاکستانی روپیہ مزید بے قدر ہوگیا۔ روپے کی قدر کم کیا ہوئی کہ ڈالر کے ساتھ یورو، پاونڈ، ریال اور درہم نے بھی اپنے دام بڑھا دیئے۔ پاکستانی کرنسی میں ایک ڈالر کی قیمت 115روپے 50پیسے ہوگئی۔ جبکہ یورو 140روپے پچاس پیسے، سعودی ریال 30روپے 60پیسے، اماراتی درہم 31روپے بیس پیسے کا ہوگیا۔اپنے روپے کی بے قدری پر یہ مشہور شعر صادق آتا ہے کہ ’’ دیوار کیا گری میرے کچے مکان کی۔۔ لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنالیئے۔‘‘وزیرمملکت برائے خزانہ کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر کم ہونے میں حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں۔ نہ ہی ڈالر کی قیمت کو کنٹرول کرنا حکومت کے بس کی بات ہے۔ تاہم انہوں نے یہ خوش خبری سنائی کہ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے برآمدات کے شعبے میں پاکستان کو فائدہ ہوگا۔ انہوں نے عندیہ دیا کہ پاکستانی کرنسی اور معیشت کو سہارا دینے کے لئے اگلے مہینے پیش کئے جانے والے بجٹ میں کچھ نئے ٹیکس لگائے جاسکتے ہیں۔اور کچھ پرانے ٹیکسوں کی شرح میں ردوبدل کیا جاسکتا ہے ۔مگر وزیرمملکت یہ یقین دہانی کرانا بھول گئے۔ کہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافے سے ’’عام آدمی ‘‘ متاثر نہیں ہوگا۔جب بھی حکمران عام آدمی کے متاثر نہ ہونے کی باتیں کرتے ہیں تو خون کھولنے لگتا ہے۔ پھر ایک دوست نے بتایا کہ ’’ عام آدمی ‘‘ سے مراد عوام نہیں ہوتے۔ بلکہ وہ کروڑ پتی اور ارب پتی لوگ ’’ عام آدمی‘‘ ہوتے ہیں جن کی اقتدار میں آنے کی باری نہیں آئی ہوتی۔ جونہی انہیں اقتدار و اختیار کی کرسی مل جاتی ہے وہ عام آدمی سے خاص آدمی بن جاتے ہیں اسی طبقے کو مہذب زبان میں وی وی آئی پی کہا جاتا ہے۔ قانون اور آئین ان کے گھر کی لونڈی ہوتی ہے۔ ہم اب تک غلط فہمی کی وجہ سے خود کو عام آدمی سمجھ کر خواہ مخواہ حکمرانوں کی باتوں پر کڑھتے رہے۔ یہ بات سچ ہے کہ سیاست دانوں کی زبان ہر آدمی نہیں سمجھ سکتا۔بات روپے کی بے قدری کی ہورہی تھی۔ مجھے وہ زمانہ بھی یاد ہے جب امریکی ڈالر صرف پانچ روپے کا ہوا کرتا تھا۔ ہمیں ایک آنے کی پاکٹ منی ملتی تھی۔ جسے مزید کھلا کروانے پر چھ پیسے ملتے تھے۔ ایک پیسے کی ٹافی ملتی تھی۔ ایک آنے کی چھ ٹافیاں ملتی تھیں۔ جب پرائمری سے مڈل کلاس تک پہنچے تو پاکٹ منی دو آنے اور ہائی کلاس پہنچنے تک چار آنے ہوگئی۔ چار آنے میں سیاہی والا ڈالر پن بھی آتا تھا۔ 1975میں میٹرک کا امتحان دینے گھر سے بیس کلو میٹر دور بونی جانا پڑا تو ایک رشتہ دار کے ہاں رہائش کا انتظام پہلے سے ہوچکا تھا۔ والد نے روزمرہ اخراجات کے لئے 120روپے میری جیب میں ڈالے ۔ اتنی زیادہ رقم پاکر میں پھولے نہیں سما رہا تھا۔ شاید خوشی مجھ سے برداشت نہیں ہورہی تھی اس وجہ سے ری ایکشن کرگئی ۔ اور امتحان شروع ہونے کے دوسرے ہی روز مجھے ٹائیفائیڈ ہوگیا۔اس دوران مقامی سرکاری اسپتال کے ڈسپنسر سے دوائی بھی لی۔ پرہیزی کھانے پر بھی کچھ خرچہ کیا۔ آنے جانے کا کرایہ بھی ادا کیا۔ اور بیس دن بعد جب گھر واپس آیا تو صرف پچاس روپے خرچ ہوئے تھے۔ ستر روپے والد کو واپس کردیئے تو انہوں نے بیس روپے انعام کے طور پر دیئے ۔ جس پر میں نے دوستوں کو لے کر کئی دنوں تک خوب گلچھرے اڑائے۔ آج دو سو روپے کی پاکٹ منی دیکھ کر بچے منہ بسورنے لگتے ہیں۔روپے کی قدر گرنے کا احساس ہمیں اسی وقت ہوا تھا جب حاجی کیمپ سے صدر آتے ہوئے بس کنڈیکٹر پندرہ روپے کرایہ دینے پر نہایت حقارت اور ناپسندیدگی سے ہمارا منہ دیکھنے لگا ۔ رفتہ رفتہ وہ بیس روپے کا نوٹ دینے پرریزگاری نہ ہونے کا بہانہ کرکے پانچ روپے ہڑپ کرنے لگے۔

اب حالت یہ ہے کہ وہ بیس سے کم لینے کو تیار ہی نہیں ہوتے۔اور بحث کرنے پر سواری کو گاڑی سے اتار دیتے ہیں۔اس سے عوام کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ روپیہ اپنی قدر کھو رہا ہے۔ معیشت کے ماہر ہونے کے دعویداروں کا کہنا ہے کہ کسی ملک کی کرنسی کی قیمت گرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کی معیشت رو بہ زوال ہے۔ مگر ہمارے حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور اپنے دعوے کے ثبوت کے طور پر وہ مختلف جعلی ناموں سے کئے گئے سروے رپورٹوں کا حوالہ بھی دیتے ہیں مگر عوام جانتے ہیں کہ جب مرغی کے گوشت کی قیمت 120روپے سے دو مہینوں میں 195روپے فی کلو ہوجائے تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ ہمارے روپے کی کوئی قدر نہیں رہی۔ اگر حکمران یہ کہیں کہ مرغی مہنگی ہونے میں حکومت کا کوئی دوش نہیں۔ کیونکہ اس کی قیمتیں پولٹری فارم والے مقرر کرتے ہیں تو عام آدمی قہر درویش برجان درویش کے مصداق اپنا ہی سر نہیں پھوڑے گا تو پھر کیا کرے گا۔؟؟


شیئر کریں: