Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ماں جی۔۔۔۔۔۔ میر سیما آمان

شیئر کریں:

مجھے آج بھی یاد ہے کہ ہر گھر کی طرح ہمارے گھر میں بھی ایک بوڑ ھی خا تون ہوا کرتی تھیں جنہیں ہمارے والدین ’’ماں جی ‘‘ کہا کرتے تھے۔ہماری والدہ جب کھانا پکاتی تو اُنہیں د ھیان رہتا کہ ماں جی کے منہ میں دانت نہیں لہذا انکے لئے خوراک ہمیشہ نرم ہونی چاہیے۔سالن میں نمک مرچ سے لیکر گھر کے ہر کام میں ماں جی کی پسند کا خیال رکھا جاتا اور والد کوئی فیصلہ انکے مشاورت کے بغیر نہ کرتے۔ہم شرارتیں کرتے تو ہر چڑچڑی بزرگ کی طرح وہ بھی ہمیں ڈانٹتیں ابا سے ہماری شکایت لگاتیں۔کبھی کبھار تو ہم ان سے مار بھی کھا تے۔لیکن جب بھی کوئی اور ہم سے اُلجھنے کی کو شش کرتا تو ماں جی شیرنی کی طرح پہنچ جاتی اور ہماری حمایت کرتیں۔ماں جی (دادی) کو ہم سے بچھڑے کئی برس بیت گئے ۔ آج اگر کسی گھر میں کوئی ماں جی ہے بھی تو اسکا مقام وہ نہیں جو اُس ذمانے میں ہوا کرتا تھا۔اج ہر گھر میں اس ضعیف اور بزرگ مخلوق کا مُقام محض اتنا ہے کہ اسے 2 وقت کی روٹی دی جائے۔اسکے دوائیوں کے اخراجات برداشت کئے جائیں اور بس۔ بحر حال ’ ماں جی ‘کے بعد اب تک میں نے غیر شعوری طور اپنی ماں کو دنیا کی ہر اُس عورت سے موازنہ کرنا شروع کردیا جسے اس معاشرے میں سمجھ دار ماں ہونے کا اعزاز حاصل رہا ہے۔اور مجھے ہمیشہ اپنی ماں دُنیا کی ہر سمجھ دار ماں سے ذیادہ قابل ِ فخر محسوس ہوئی۔۔یہ حقیقت ہے کہ مجھے اٹھارہ کی عمر تک یہ پتہ نہیں چل سکا تھا کہ جن خواتین کو ہم ’’بیچی ‘‘ بولتے ہیں وہ ہماری خالا ئیں ہیں یا پھو پھیاں۔۔کیونکہ والدہ کا رویہ اپنی ’ نندوں ‘ اور دیورانیوں کے ساتھ بلکل ایسا تھا جیسے انکی سگی بہنیں ہوں یا سکول کی عزیز سہلیاں۔۔اور اج بھی ایسا ہے۔ہم نے آج تک اپنی والدہ کو ’’’ نند یا ساس‘‘‘ جیسے الفاذ لیتے نہیں سُنا۔ اس بات پر مجھے فخر اسلیے ہے کیو نکہ آج کی بد قسمت اولادوں کو ماں کی گود میں ہی پتہ چل جاتا ہے کہ ماں کی دوست کون ہے اوردشمن کون۔ہمیں آج تک والدہ نے نہیں بتایا کہ فلاں وقت ساس یا نند نے ان پر کو نسے ظلم ڈھائے۔میکے میں انکے ساتھ کیسے کیسے ظلم ہوئے ۔کس وقت کس رشتہ دار نے کیا سلوک کیا ۔حالہ نکہ ہر دوسرے انسان کی طرح انھوں نے بھی اپنا ا چھا برا وقت دیکھا ہے لوگوں کے اچھے ، بُرے برتاوٗ جھوٹے اور سچے ہر قسم کے چہرے دیکھے ہونگے لیکن آج تک اولاد کو کسی کے ساتھ دُشمنی کرنے کی تر غیب نہیں دی۔۔اسکے بر عکس ہمارے ارد گرد کڑوڑوں کی تعداد میں ایک سے بڑھ کر ایک سمجھ دار مائیں موجود ہیں۔جنھیں دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔یہ کس جنر یش کو جنم دے رہے ہیں۔ آج پنگھوڑے میں ہی اولاد کو پتہ ہوتاہے کہ انکی ماں کے ساتھ کیا کیا ظلم ہوا ہے۔کس کس طر ف سے ہوئے ہیں اور ان مظالم کا بدلہ کیسے لینا ہے۔ ساس کس ظلم اور نند کس بوجھ کا نام ہے۔دادی اور دادا نام کے مخلوق کو گھر کے کس کونے میں پھینکنا ہے ۔یہ سب اور بہت سی منفی پرو پیگنڈے اکیسو یں صدی کی تر بیتی پرو گراموں کے بنیادی اساس بن چکے ہیں۔مجھے تو حیرت ہوتی ہے اُ ن عورتوں پر جو اولاد کے سامنے باپ کو دنیا کاظالم اور نکما ترین شخص قرار دیتی رہتی ہیں ۔جو پوری عمر بچوں کو بتاتی رہتی ہیں کہ انکے باپ نے انکے لئے ’’ کچھ بھی نہیں ‘‘‘ کیا ہے۔پھر جب یہی اولاد کسی گمراہی کا شکار ہو جائے تو یہی خواتین پاگلوں کی طرح بچوں کی منت پر اُتر آتی ہے کہ خدا کے لئے ’’’باپ کی عزت رکھ دو‘‘ میں ان خواتین سے آج پوچھتی ہوں کہ (کونسا باپ؟؟؟؟؟؟اور کونسی عزت؟؟؟؟؟) وہی باپ جسکو آپ نے ہی اپنی اولاد کے سامنے ثابت کیا تھا کہ اس نے اپکے لئے کچھ بھی نہیں کیا ۔مجھے نفرت ہے ان ماوں سے جنہیں عذاب نازل ہوتے وقت یہ لگتا ہے کہ انکی نوجواں اولاد انکی 26.,27سال کی ٹر یننگ بھول جائیں۔اور ایک دم اسلام میں داخل ہو جا ئیں۔ ایک دم انکی اولاد یہ جان جا ئیں کہ باپ کا مقام کیا ہے۔ یہ بڑی مضحکہ خیز خواہش ہے کہ ساری ذندگی اپ نے جس اولادکو اسلام میں موجود ’’’’باپ کے اعلیٰ مُقام ‘‘‘ کا بتایا تک نہیں باپ کی عزت کرنا سکھایا تک نہیں وہی اولاد اچانک گمراہ ہو جانے پر باپ کے اعلا مُقام کو پہچانے ہاہ۔۔صد افسوس کے ذہر بوتے وقت سوچتے نہیں۔ ۔ میں تو داد دیتی ہوں ان ماوٗں کو جو اپنے ہاتھوں سے اپنی قبریں کھودتے ہیں اور پھر سکوں کی تلاش تعو یذوں میں ڈھنڈتے ہیں۔اسلام میں اولاد کو دینے والی چیزوں میں بہترین چیز اچھی تربیت ہے آج ہم اپنی اولاد کو ہر وہ چیز دیتے ہیں جو شائد ہمارے بچپن میں ہماری لئے حسرت تھیں۔ہم اپنی ہر ناکام خواہش کو اپنی اولاد کے لیے پوری کر دیتے ہیں لیکن اگر اُنہیں کچھ نہیں دے پاتے تو وہ تر بیت ہے جو ہمارے والدین نے اپنی مفلسی کے ذمانے میں بھی ہمیں دے دی تھی۔اسلام نے ہی اس خاندانی نظام کو تشکیل دیا ہے۔جہاں ماں باپ کے بعدبڑے بہن بھائی اپنے چھوٹے بہن بھایؤں کے اخلاقی اور معاشرتی ذ مدا ر ہوتے ہیں مگر ہم جیسے لوگ اپنے چھوٹے بہن بھایؤں کی ذمداری اُٹھانا تو بہت دور کی بات ہم سے تو انکو اخلاق تک نہیں سکھایا جاتا۔ہم سے تو انہیں اچھا مشورہ تک نہیں دیا جاتا مجھے حیرت ہے کہ ہم کس اسلام کے پیروکار ہیں جہاں ہم پر کوئی اخلاقی فرایض ہی نہیں ہیں۔ ہماری مثال اُس گلاس کی سی ہے جس میں آدھا پانی ڈال کے پوچھا جائے کہ یہ بھرا ہوا ہے یا خالی توکوئی اسے ادھا بھرا ہوا بولے گا اور کوئی اسے آدھا خالی۔۔ہم نے بھی اسلام کے ان نصابوں کو یا د رکھا ہے جہاں ہماری اپنے حقوق کی بات ہو۔جہاں دوسروں کے حقوق کی بات ہو ہم اسلام کا وہ حصہ ہی اپنے نصاب سے الگ کر دیتے ہیں۔ بحرحال میں اتنا کہوں گی کہ مائیں وہ تھیں جو ناشتہ میں ۴قسم کی روٹیاں پکایا کرتی تھیں۔ لیکن انکی ماتھوں پر ایک بھی بل نہیں آتا تھا۔جو ساس سسر کی خدمت بغیر شور ڈالے کرتی تھیں،اور اہل ِ محلہ خود انکی خدمات کا اعتراف کرتی تھیں،،جنھوں نے اپنی اولادوں کو ’’باپ‘‘ کا احترام سکھایا رشتہ داروں سے صلح رحمی سکھائی۔اور بیٹیوں کو شوہروں کی عزت رکھنا سکھایا ،مائیں صرف وہ تھیں۔۔ آج کی وہ عورتیں جو محلے داروں کے سامنے شوہروں کو بے عزت کرتے نہیں تھکتی۔جو اولاد کے سامنے باپ کو ذلیل کرتی رہیں جن کو نہ شوہر کے حقوق کا پتہ ہے نہ اولاد کی تربیت کا۔جنکا کام محض دوسروں کی بیٹیوں کے راز فاش کرنا ہے۔جنھیں دوسروں کے ہاتھوں میں مو با ئل تو نظر آتے ہیں مگر اپنی اولادکا wifiکی بتییوں کو دیکھتے ہوئے جگنا اورسونا سمجھ نہیں آتا۔ جو دوسروں کی تربیت پر ہر وقت اُنگلی اُٹھاتے ہیں مگر اپنی نادانیوں سے نا واقف ہیں۔۔ یہ تمام سمجھ دار عورتیں ما ئیں نہیں ’’یہ دماغ خراب کرنے والی مشینیں ‘‘ہیں۔یہ خاندانی نظام خراب کرنے والی قوتیں ہیں۔یہ وہی ما ئیں ہیں جن کے دور میں دجال آنے کی پیشنگوئیاں تھیں۔اور دجال کوئی تیسرا نہیں ہوگا کوئی گھنگڑیالے بالوں والا کانا نہیں ہوگا۔دجال وہی جنریشن ہوگی جسے بچپن میں شفقت بھری باتوں کی جگہ ظلم کی داستانیں سنائی گئیں۔جنھیں بچپن میں کھلونوں کی جگہ انتقامی جذبات کے سو غات دئے گئے۔ ہم میں سے جو کوئی بھی اپنی اولاد یا اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے لئے اگر ایسے بھیانک رول ماڈل کا کر دار نبھا چکے ہیں یا نبھا رہے ہیں تو ابھی بھی وقت ہے کہ ہوش کر لیں خود کو اور اپنی اولاد کو جہنم کا ایندھن اور دنیا میں عبرت بننے سے بچائیں۔اپنے اندر کے اُس اصلی ماں کو ذندہ کریں جن کے قدموں میں جنت کی بشارت دی گئی ہے۔۔!!!


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
7640