Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

داد بیداد ……….بے بسی کی حد …… ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on
شیئر کریں:

بے بسی کی حد
آج کل پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں سیاست اور جمہوریت کا بڑا چرچا ہے ایک سے ایک بڑا چیمپین سامنے آرہا ہے جمہوریت کس بلا کا نام ہے؟ امریکہ میں انتخابات ہوتے ہیں ہارنیوالا 4سال خاموش رہتا ہے کیونکہ اس نے جیتنے والے کو مبارک باد دی ہے اُس کے جمہوری حق کو تسلیم کیا ہے ہمارے پڑوسی ملک میں اقلیتی مذہب سے تعلق رکھنے والے غریب ماں باپ کے قابل بیٹے ڈاکٹر عبد الکلام نے ملک کو ایٹمی صلاحیت دینے میں کردار ادا کیا جمہوری ملک کی ایک جماعت نے اُس کا نام صدارت کے لئے تجویز کیا دوسری پارٹی نے کہا اس کے مقابلے میں اُمید وار لانا ظلم ہے وہ بلا مقابلہ صدر منتخب ہوا دوسری مدت کے لئے پھر دونوں پارٹیوں نے اس کانام تجویز کیاتو اُس نے معذرت کرلی اُس نے کہا میں گاؤں جاکر خاموشی کی زندگی گذارنا چاہتا ہوں یہ جمہوریت ہے جمہوریت میں ہار جیت ہوتی ہے شکست تسلیم کی جاتی ہے جمہوریت میں قوم کی خدمت کرنے والے کو عزت دی جاتی ہے پاکستان مئی 1998ء میں ایٹمی طاقت بنا مئی 2018ء میں 20سال ہوجائیں گے 4 بار صدارتی انتخابات ہوئے کسی جمہوری پارٹی نے پاکستان کی ایٹمی طاقت کے بانی ڈاکٹر عبد القدیر خان کا نام صدارتی امیدوار کے طور پر پیش نہیں کیا اور آئندہ بھی کوئی جمہوری سیاسی طاقت کبھی ایسا نہیں کرے گی اگر کسی پارٹی نے ایسا کیا تو مخالف جماعت اس کی مخالفت میں اپنا اُمیدوار لائے گی بے تحاشا پیسہ لگائیگی اور اس کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیگی جس دن پاکستان نے ڈاکٹر عبد القدیر خان کوصدر مملکت منتخب کرایا اُس دن قوم تسلیم کرے گی کہ پاکستان میں جمہوریت نام کا کوئی پودا لگایاگیاتھاجو اب درخت بن کر پھل دینے لگا ہے دو پڑوسی ممالک میں انتخابات کے لئے نگران حکومت کی ضرورت نہیں ہوتی یہ پڑوس کی مثال ہے دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک میں انتخابات کے لئے نگران حکومت کی ضرورت نہیں ہوتی منتخب حکومت انتخابات کراتی ہے اپوزیشن اس کوتسلیم کرتی ہے ایک قدم آگے بڑھ کر دیکھئے گا بھارت اور افغانستان میں انتخابی نتائج پولنگ اسٹیشن پر نہیں دیئے جاتے گاؤں کے پولنگ سٹیشن میں دو ہزار ووٹوں کی گنتی نہیں ہوتی بیلٹ باکس کو اٹھا کردارلحکومت لے جایاجاتا ہے الیکشن کمیشن کے دفتر میں گنتی ہوتی ہے اور نتیجہ آتا ہے بھارت کی ایک ارب آبادی اس کوتسلیم کرتی ہے افغانستان کی 4کروڑ آبادی اس کوقبول کرتی ہے کیونکہ وہاں جمہوریت ہے اس کو جمہوریت کہتے ہیں بھار ت میں اپنے ایٹمی سائنسدان کو صدر مملکت بناتے وقت کوئی یہ نہیں کہتا کہ یہ مسلمان ہے اس کو ہم تسلیم نہیں کرتے کیا پاکستان کی جمہوریت میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان صدر مملکت بن سکتا ہے؟ ایمانداری اور صداقت کی بات یہ ہے کہ کبھی نہیں وجوہات سب کو معلوم ہیں پہلی وجہ یہ ہے کہ ملک میں کوئی قوم نہیں قومی سوچ، قومی فکر ، قومی نظریہ اور قومی غیرت نہیں سینکڑوں گروہ یہاں الگ الگ بستے ہیں وہ کسی ایک بات پراتفاق نہیں کرسکتے دوسری وجہ یہ ہے کہ یہاں کوئی جمہوری پارٹی نہیں، جمہوری تصور نہیں ، جمہوریت کا کوئی نمونہ نہیں 22 کروڑ عوام کیا چاہتے ہیں ؟ اس کو ناپنے کا کوئی پیمانہ نہیں اس کو جانچنے کا کوئی ذریعہ نہیں ڈاکٹر عبدالقدیرخان بلاشبہ ڈاکٹر عبد الکلام سے بڑا سائنسدان ہے مگر ہم اس کو اپنا صدر بنا کرایوان صدر کو ایک عظیم شخصیت اور بڑی ہستی کے نام سے زینت اور عزت نہیں دے سکتے تیسری بڑی وجہ یہ ہے کہ کون صدر بنے ؟ کون وزیر اعظم بنے؟ کون وزیر داخلہ اور کون وزیر خارجہ ؟ اس کا فیصلہ ہم نہیں کرتے کوئی اور کرتا ہے شاعر کی غزل کا لاجواب مطلع ہے ؂
سرِ آئینہ میرا عکس ہے پسِ آئینہ کوئی اور ہے
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
آپ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی مثال لے لیں پاکستان کا ناموار ایٹمی سائنسدان 22کروڑ عوام کو پسندہے عوام کی آنکھ کاتاراہے بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کے بعد پاکستان کی پہلی شخصیت ہے جو اختلافات سے بالاتر ہے امیر،غریب ،شیعہ ،سنی ،دیوبندی ،بریلوی، پنجابی،پختون، سندھی ،،بلوچی ،مہاجر سب اس کومانتے ہیں صرف ’’وہ ‘‘ نہیں مانتا اُس کو ناپسند ہے اُس کے بارے میں شاعر نے کہا ؂
میرے تو لفظ بھی کوڑی کے نہیں
تیرا نقطہ بھی سند ہے حد ہے
اور یہ ہماری ملکی اور قومی سطح کی بے بسی ہے بے کسی ہے مجبوری ہے،غلامی ہے، آپ کسی بھی زاویے سے کسی بھی نقطہ نظر سے اس کو جمہوریت یا جمہوری رویہ نہیں کہہ سکتے ہم اُس وقت جمہوریت کو تسلیم کرینگے جب سیاسی جماعتیں نگران حکومت کے بغیر انتخابات کروائے گی جب سیاسی جماعتیں بیلٹ باکس کھولے بغیر اسلام آبادلے جاکر گنتی کرانے پرمتفق ہوجائیگی جب سیاسی جماعتیں شکست تسلیم کرکے 5سال تک منتخب حکومت کو برداشت کرینگی ، جب سیاسی جماعتیں مل کر ڈاکٹر عبد القدیر خان کو پاکستان کا صدر منتخب کر کے ایوان صدر کاوقار بلندکر ینگی مگر یہ نہیں ہوگا املا کرانیوالا، ڈکٹیٹ کرنے والاایسی باتوں کوقبول نہیں کرے گا شاعر نے سچ بات کہی ؂
تیری ہر بات ہے سر آنکھوں پر
میری ہر بات ہی رد ہے ‘ حد ہے


شیئر کریں: