Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

مشرقی غوطہ مسلم کشی کا ایک نیا اکھاڑہ ……………قادر خان یوسف زئی

Posted on
شیئر کریں:

شام مشرق وسطیٰ کا ایک بڑا اور تاریخی ملک ہے۔ اس کے مغرب میں لبنان، جنوب مغرب میں فلسطین اور اسرائیل، جنوب میں اردن، مشرق میں عراق اور شمال میں ترکی ہے۔ سوریہ دنیا کے قدیم ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ موجودہ دور کا سوریہ 1946ء میں فرانس کے قبضے سے آزاد ہوا تھا۔ اس کی آبادی دو کروڑ ہے جن میں اکثریت عربوں کی ہے۔ بہت تھوڑی تعداد میں اسیریائی، کرد، ترک اور دروز بھی سوریہ میں رہتے ہیں۔سرز مین شام اس وقت عالمی قوتوں کی طاقت کا اکھاڑہ بنا ہوا ہے اور عالمی طاقتیں شام کے شہریوں پر اندھا دھند بمباریاں کرکے اپنے مفادات کے حصول کے لئے کسی بھی قسم کی نرمی کا مظاہرہ نہیں کررہے۔ مملکت شام فرانس کی آزادی کے بعد سے ہی مختلف جنگوں و جھڑپوں میں عالمی قوتوں کے مفادات کی بھینٹ چڑھتا رہا ہے۔ تاہم گزشتہ سات برسوں میں جس قدر تباہی اور بربادی دیکھنے میں آئی ہے اس کی مثال پوری دنیا میں کہیں نہیں ملتی ۔ مارچ2011میں پہلی بار شام کی حکومت کے خلاف عوامی مظاہروں کا سلسلہ ہواتھا ۔ اُس وقت کئی عرب ممالک میں عوام نے حکومتی پالیسیوں کے خلاف احتجاج میں اپنی حکومتوں کے تختے الٹ دیئے تھے ۔ شامی مظاہرین بھی حکومت کو سیاسی اصلاحات کرانے کے لئے مطالبات لیکر سڑکوں پر نکلے ، لیکن حکومت نے پُر امن مظاہروں کو طاقت سے دبانے کی کوشش کی ۔ 15مارچ کو درعا کے علاقے میں شامی سرکاری فوجوں کی نہتے عوام پر فائرنگ سے چار شہری جاں بحق ہوگئے تھے ۔ شامی صدر بشار الاسد کو گمان تھا کہ اس طرح وہ شامی عوام کی آواز دبانے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔ 15مارچ میں صدر بشار الاسد نے کریک ڈاؤن شروع کردیا او ر28مارچ تک 60مظاہرین کو اپنی بربریت کا نشانہ بنا دیا ۔مظاہروں کا نہ رکنے والا ایک سلسلہ شروع ہوگیا اور ملک بھر میں حکومت کے خلاف مظاہرے پھیلنا شروع ہوگئے۔یہیں پر امریکی حکومت نے شام کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی۔ سابق صدر بارک اوباما نے بشار الاسد سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے شامی حکومت کے تمام اثاثوں کو منجمد کرنے کا اعلان کردیا ۔
بشار الاسد نے عالمی برداری کی جانب سے حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف حکمت عملی سے کام لینے سے انکار کرتے ہوئے طاقت و تشدد کا بھرپور استعمال کو جاری رکھا ۔شامی مظاہرین اور سرکاری افواج کے درمیان مظاہرے جولائی2012میں حلب تک پھیل چکے تھے۔ خانہ جنگی میں عالمی قوتوں نے اپنے اپنے حلیفوں کی مدد شروع کردی اور سیاسی اصلاحات سے شروع ہونے والے مظاہرے جھڑپوں میں تبدیل ہوتے چلے گئے۔ درعا، حمص، ادلب اور دمشق کے نواح میں بھی جھڑپوں میں شدت آ گئی۔ اسی دوران حکومت مخالف مظاہرین کی تحریک مکمل باغی فورس میں تبدیل ہوتی جا رہی تھی۔دسمبر 2012 میں برطانیہ، امریکا، فرانس، ترکی اور خلیجی ممالک نے باغی اپوزیشن کو شامی عوام کی قانونی نمائندہ تسلیم کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی اسد کی حامی افواج کے خلاف کارروائی میں سیریئن کولیشن سے تعاون بھی شروع کر دیا گیا۔ اس وقت بھی شامی صدر نے عالمی مطالبات مسترد کر دیے۔ دوسری طرف اسد کے خلاف جاری لڑائی میں شدت پسند عسکری گروہ بھی ملوث ہو گئے۔مارچ 2013میں خان العسل میں سارین گیس کے کیمیائی حملہ کی وجہ سے چھبیس افراد مارے گئے۔ لیکن کیمیائی حملہ کس نے کیا تھا اس حوالے سے دونوں گروپوں نے ایک دوسرے پر الزامات عائد کئے۔ اس دوران داعش نے عراق کے بعد شام میں اپنی کاروائیاں کو بڑھانا شروع کردیا تھا ۔ 27ستمبر2013میں اقوام متحدہ نے شامی حکومت سے کیمیائی ہتھیاروں کو ناکارہ بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے عدم تعاون پر عسکری طاقت استعمال کرنے کی دہمکی دے دی جس کے بعد بشار الاسد نے خطرناک ہتھیاروں کو ناکارہ بنانے پر رضامندی ظاہر کردی۔

داعش شام میں ہونے والی خانہ جنگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسی سال عراق اور شام میں داعش کے جنگجوؤں نے بھی اپنی کارروائیاں بڑھا دیں۔جون2014الرقہ شام کا وہ پہلا شہر تھا جہاں داعش جیسی خطرناک عالمی دہشت گرد تنظیم نے مکمل کنٹرول حاصل کرکے الرقہ کو اپنا دارالخلافہ قرار دے دیا ۔امریکا نے داعش کی موجودگی کو جواز بناتے ہوئے ہوئے 27ستمبرکو فوجی طیاروں سے بمباری شروع کردی ۔23ستمبر2015وہ دن تھا جب روس کی حکومت شامی حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کرتے ہوئے عملی طور پر خانہ جنگی میں فریق بن گئی۔ روسی جنگی طیاروں نے بشار الاسد کے مخالفین کے خلاف بمباریوں کا سلسلہ شروع کردیا اور جواز یہ دیا کہ وہ شدت پسندوں کے خلاف کاروائی کررہا ہے۔ مارچ 2016میں روسی فضائیہ کی مدد سے بشار الاسد کی دم توڑتی حکومت کو تقویت ملی اور پھر ایران نے شام میں براہ راست مداخلت کرتے ہوئے اپنی ملیشیا کو شام بھیجنا شروع کردیا ۔ بشار الاسد کو ایران نواز ملیشیا حزب اللہ کا مکمل عسکری تعاون مل چکا تھا۔ مارچ میں ہی اس اتحاد نے پالمیرا میں داعش کو شکست دی ۔شام آہستہ آہستہ ایران کے زیر اثر آچکا تھا اور شامی حکومت کے خلاف سیاسی اصلاحات سے شروع ہونے تحریک اب فرقہ وارنہ جنگ میں تبدیل ہوچکی تھی۔ خانہ جنگی میں دو بڑے واضح بلاک بن چکے تھے جس میں ایک جانب امریکا ، بشار الاسد کے خلاف تھا تو دوسری جانب روس بشار الاسد و ایران کے ساتھ کھڑا تھا ۔ دسمبر2016میں حلب میں حکومت مخالف قوتوں کو پسپا کردیا ۔ خانہ جنگی کے باعث کھنڈرات بننے والا شہر روسی جنگی طیاروں اور حزب اللہ کے جنگجوؤں کی کاروائیوں کی داستان بیان کررہا تھا۔یہ کسی شہری علاقے میں شامی اتحادی فورسز کی پہلی بڑی کامیابی تصور کی گئی۔جنوری 2017میں امریکا ، ترکی ، ایران اور روس نے بشار الاسد اور غیر مسلح گروہوں کے درمیان جنگ بندی کا ایک معاہدہ طے کرایا ۔ لیکن مسلح گروپ کے خلاف شامی اتحادی فورسز کی جانب سے کاروائیوں کو نہیں روکا جاسکا ۔ ان کاروائیوں کی وجہ سے کئے جانے والے حملوں میں نہتے اور عام شہری نشانہ بننے لگے تھے اور بڑی تعداد میں معصوم انسانوں و املاک کو نقصان پہنچ رہا تھا۔ شام میں خانہ جنگی کو ختم کرانے کی کوشش کے بجائے2017میں امریکی صدر ٹرمپ نے بشار الاسد مخالف گروپ کی مدد میں اضافہ کرنا شروع کردیا اور امریکا کی وجہ سے روس نے شامی صدر کو عسکری تعاون میں مزید اضافہ کردیا ۔ جون2017میں امریکی حمایت یافتہ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے فائٹرز نے الرقہ کا محاصرہ کر لیا۔ کرد اور عرب جنگجوؤں نے اس شہر میں داعش کو شکست دینے کے لیے کارروائی شروع کی ۔ستمبر میں کرد فورسز نے الرقہ کا پچاسی فیصد علاقہ بازیاب کرا لیا۔ اکتوبر میں اس فورس نے الرقہ کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی خاطر کارروائی کا آغاز کیا۔ مہینے بھر کی گھمسان کی جنگ کے نتیجے میں اس فورس نے17 اکتوبر کو اعلان کیا کہجنگجوؤں کو مکمل طور پر پسپا کر دیا گیا ہے۔ شام میں داعش کو شکست ہوئی۔ لیکن اب سر زمین شام عالمی قوتوں کے درمیان تسلط و قوت کا نشانہ بن چکی تھی ۔ ایران نواز ملیشیا گروپوں نے باقاعدہ خانہ جنگیوں میں حصہ لیتے ہوئے مخالفین سے علاقے خالی کرانا شروع کردیئے۔ ابتدائی طور پر ایران کی حکومت نے شام میں کسی بھی مسلح مزاحمت میں شرکت سے انکار کیا تھا لیکن بتدریج خود ایران کی جانب سے تسلیم کئے جانے لگا کہ ایران نے جنگجوؤں کے خلاف عسکری قوت کا استعمال کیا ہے۔ ایران نے بشار الاسد کی حمایت میں بھاری معاوضوں پر رضا کاروں کو بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا جس کے بعد سے شام میں فرقہ وارنہ معاملات میں مزید تناؤ آگیا ۔ علاقوں کا محاصرہ شروع کردیا اور مکمل ناکہ بندی کرکے نہتے عوام کو محصور کرلیا ۔ 2016میں المضایا کی ناکہ بندی نے دنیا بھر میں بشار الاسد حلیف گروپوں کے اقدامات کی شدید مذمت کی تھی۔شام کی 7سالہ خانہ جنگی میں لاکھوں افراد پر مشتمل آبادیاں کچھ ایسے علاقوں میں رہتی ہے جہاں تک رسائی حاصل کرنا مشکل ہے، ان میں سے زیادہ ترمحصور علاقوں میں رہتے ہیں جہاں فوری ہنگامی بنیادوں پر امداد کی ضرورت رہتی ہے۔ بشار الاسد اتحادی، اس علاقے کا کئی مہینوں تک محاصرہ کرتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے وہاں کی آباد ی خوراک نہ ملنے کے سبب شدید غذائی قلت کا شکار ہو جاتی ہے۔کئی ایسے علاقے منظر عام پر آ چکے ہیں جہاں خوراک کی کمیابی کو پورا کرنے کے لیے آبادی کو پالتو جانور اور گھاس پھونس پر گزارا کرنا پڑ ا۔ شامی حکومت نے مضایا، الفوعہ اور کفریا کے مقامات میں محصور شامی خاندانوں تک محاصروں کی وجہ سے امدادی قافلوں کو رسائی دینے سے روکے رکھا تھا ۔ پھر ایک معاہدے کے تحت ان آبادیوں تک امداد کی رسائی اور آبادیوں کی نقل مکانی شروع ہوئی۔

شامی حکومت اور اس کے اتحادی اس بات سے قطعا انکاری ہیں کہ انھوں نے کسی بھی علاقے کے راستے بند کیے لیکن ’فداح‘ اسے بالکل جھوٹ قرار دیتی ہے کہ یہ انتہائی غلط جنگی حربہ ہے۔ ’فداح‘ کے مطابق کئی علاقوں کی یہی صورتحال ہے جو شام میں کئی سالوں سے اپنائی گئی۔‘ اقوام متحدہ میں شام کے سفیر بشار جعفری نے لوگوں کے فاقوں سے متعلق خبروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت امدادی سامان پہنچانے میں تعاون کر رہی ہے‘‘ لیکن اقوام متحدہ ادارے ان کی تصدیق کرتے نظر نہیں آتے، اقوام متحدہ کے ادارے کے مطابق لوگ بھوک کیوجہ سے موت کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں اور زندہ رہنے کے لیے پالتو جانور اور گھاس پھونس کھانے پر مجبور ہیں۔مضایا،کفاریہ اور فوعہ میں انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس (آئی سی آر سی )کے ترجمان پاول کریز ائیک نے اقوام متحدہ، شام کی ریڈ کراس اور اپنے ادارے کی جانب سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کھپ پہنچانے کی تصدیق کی تھی۔ انٹرنیشنل میڈیا نے وہاں کی عوام کی حالت زار پوری دنیا کو دکھائی کہ دمشق کے نواحی علاقے مضایا کی بڑی آبادی گھاس پوس، پتے سمیت کتوں اور بلیوں کا گوشت کھا رہے ہیں۔ سماجی کارکنوں نے بھوک سے نڈھال ایک روتے بلکتے اور زندگی و موت سے لڑتے ایک کمسن بچے کی ویڈیو فوٹیج پوسٹ کی تھی جس میں معصوم بچوں کی دل دہلانے والی کیفیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا بلکہ روح کو چھلنی کرنیوالے ایسی کئی ویڈیوز کے مناظر دیکھنے کے بعد زندگی سے ہی نفرت ہو جاتی ہے کہ انسان ہونا بھی کس قدر عظیم جرم بن گیا ہے۔مقامی آبادیوں کو جھکانے کے لیے سخت قسم کی شرائط عائد کیجاتیہیں۔مقامی آبادیوں کو جبری انخلا پر مجبور کیا جاتا ہے لیکن انخلا کرنے والوں پر بھی وحشیانہ فائرنگ کرکے نسل کشی کی پوری کوشش کی جاتی ہے۔

ایک بار پھر شامی اتحادی فوجوں کی جانب سے گزشتہ کئی دنوں سے شام کے شہر مشرقی غوطہ میں خوں ریز بمباری کی جا رہی ہے جس میں سینکڑوں افراد جاں بحق ، ہزاروں زخمی اور املاک کھنڈرات کا ڈھیر بن گئے ہیں۔ بد قسمتی سے ان بمباریوں میں ہلاک ہونے والے میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد بھی ہے۔ روسی طیاروں کی جانب سے غوطہ شہر میں بھیانک و خوفناک بمباری کی جا رہی ہے ۔ گزشتہ دنوں روس نے پانچ گھنٹے کی روزانہ جنگ بندی کا اعلان کرتے ہوئے وہاں کی آبادی کو نکل جانے کی احکامات دیئے تھے ۔ جنگ بندی کا مطالبہ سلامتی کونسل میں کیا گیا تھا کہ علاقے میں زخمیوں کو علاج اور عوام کو خوراک پہنچائی جا سکے ۔ لیکن جنگ بندی پر عمل درآمد کے تمام دعوے جھوٹے ثابت ہوئے 600سے زائد افراد کے ہلاکتوں کے بعد ، جنگ بندی کے اگلے دن ہی دوبارہ بمباری کرکے23انسانی جانوں کو ختم کردیا گیا۔شام میں جاری تنازع کے بعد مشرقی غوطہ میں پیدا ہونے والی موجودہ صورتحال انتہائی کشیدہ ہوتی جارہی ہے اور روسی حمایت یافتہ شامی فورسز کی جانب سے باغیوں کے نام پر نہتی عوام و املاک اور اسپتالوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔اس خطے میں کام کرنے والے ایک ڈاکٹر بسام کا کہنا تھا کہ مشرقی غوطہ میں صورتحال تباہ کن ہے اور لگتا ہے کہ بین الاقوامی برادری نے یہاں موجود لوگوں کو تنہا چھوڑ دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ لوگ دکانوں، مارکیٹوں، ہسپتالوں، اسکولوں اور مساجد یہاں تک کہ ہر چیز کو نشانہ بناتے ہیں اور ہر منٹ میں 10 یا 20 فضائی حملے کیے جاتے ہیں۔دریں اثناء غیر ملکی خبر رساں ادارے نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ شامی حکومت کی جانب سے جاری بمباری پر مشرقی غوطہ کے رہائشیوں کا کہنا تھا وہ لوگ ’مرنے کا انتظار‘ کررہے ہیں۔اگر مشرقی غوطہ کے حالات کے بارے میں تصور کیا جائے تو دمشق کے قریب باغیوں کے علاقوں میں شامی حکومت کی جانب سے بدترین اور وحشیانہ بمباری کی جارہی ہے۔8 ویں سال میں داخل ہونے والی شامی خانہ جنگی میں یہ حملے بدترین حملوں کے طور پر تصور کیے جارہے ہیں اور اس شدید بمباری کے دوران راکٹ، شیلنگ، فضائی حملے اور ہیلی کاپٹر سے فضائی بمباری بھی کی جارہی ہے۔مشرقی غوطہ میں جاری اس شدید بمباری پر وہاں کے رہائشیوں کا کہنا تھا کہ اس وقت ہم صرف ایک چیز کہہ سکتے ہیں کہ ’ہم مرنے کا انتظار کررہے ہیں‘۔شام میں جاری اس جنگ کے بعد ریڈ کراس کی بین الاقوامی برادری (آئی سی آر سی) نے مطالبہ کیا کہ انہیں غوطہ میں انسانی حقوق کی خدمات فراہم کرنے کی اجازت دی جائے، خاص طور پر حملوں میں زخمی ہونے والوں کو علاج معالجے کی فوری ضرورت ہے۔شام میں آئی سی آر سی کی سربراہ میریان گیسر کا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں اور ہفتوں میں مزید لوگ اس لڑائی سے متاثر ہوں گے اور یہ ایک پاگل پن ہے جسے فوری طور پر روکا جانا چاہیے۔طبی امداد فراہم کرنے والی ایک رضا کار کا کہنا تھا کہ گزشتہ 3 روز میں 13 ہسپتالوں کو نشانہ بنایا جا چکا ہے جس میں کچھ ہسپتال مکمل تباہ ہوگئے ہیں۔

اسرائیل شام میں گولان کی پہاڑیوں پر قابض ہے۔ ایران اب جدید ترین آلات کے ساتھ شام میں موجود ہے ۔ امریکا اور اسرائیل کے لئے شام میں ایران کی موجودگی بھی پریشانی کا سبب بنی ہوئی ہے ۔ شامی حکومت ایران کو واپسی کا نہیں کہنا چاہتی کیونکہ اسے معلوم ہے کہ شام میں اگر بشار الاسد کی حکومت کو کوئی تحفظ فراہم کرسکتا ہے تو وہ صرف ایران و روس ہیں۔ ایران اس لڑائی میں بشارالاسد کی حکومت کا ساتھ دے رہا ہے۔ اس تنازعے میں ایرانی فورسز بھی شامل ہیں جب کہ تہران حکومت سرمایے، ہتھیاروں اور خفیہ معلومات کے ذریعے بھی شامی فورسز کی مدد کر رہی ہے۔ شام میں ایران کے عسکری مشیر بھی موجود ہیں جب کہ تہران حکومت کی ایما پر لبنانی عسکری تنظیم حزب اللہ کے جنگجو بھی شام میں بشارالاسد کے مخالفین کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ روس چاہتا ہے کہ بشارالاسد اقتدار میں رہیں اور مشرق وسطیٰ میں اس کا اثرورسوخ قائم رہے۔ سعودی عرب شام میں ایران مخالف اور سعودی عرب کی حامی حکومت کا قیام چاہتا ہے، جو بشارالاسد کی جگہ قائم ہو۔ ترکی کی کوشش ہے کہ شام میں کرد مخالف اپوزیشن فورسز کو طاقت ور کیا جائے اور دمشق میں ترکی کی حامی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے۔ ترکی کی کوشش ہے کہ شام میں کرد مخالف اپوزیشن فورسز کو طاقت ور کیا جائے اور دمشق میں ترکی کی حامی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے۔ کرد فورسز کی یہی امداد اس وقت ترکی اور امریکا کے درمیان کشیدگی کی وجہ بھی ہے۔ سابق صدر اوباما بشارالاسد سے اقتدار چھوڑنے کے مطالبات کرتے رہے تاہم ٹرمپ انتظامیہ اس بشارالاسد کے حوالے سے کسی حد تک نرم گوشہ رکھتی ہے۔ برلن حکومت کا موقف ہے کہ جب تک بشارالاسد اقتدار میں رہیں گے، شام میں پائیدار امن قائم نہیں ہو سکتا۔ فرانس بشارالاسد کو اقتدار چھوڑنے کے مطالبات کرتا آیا ہے، تاہم پیرس حکومت کے بشارالاسد کے حوالے سے اس سخت موقف میں اب کسی حد تک نرمی دیکھی جا رہی ہے۔ غرض یہ ہے کہ شام میں جاری سات برسوں کی اس خانہ جنگی میں عالمی قوتوں کی مداخلت اور مفادات نے شامی عوام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ کئی لاکھ شامی خانہ جنگی ہلاک اور لاکھوں ہجرت کرنے پر مجبور ہو ئے ہیں ، لاکھوں شامی معذور ہوچکے ہیں ۔ اقتدار کے لئے شام ایک جہنم زار بن چکا ہے

مشرقی غوطہ میں بھی نہتے عوام عالمی طاقتوں کے درمیان باہمی چپقلش کا شکار بن رہے ہیں۔یہاں مشرقی غوطہ پر بمباریوں کے حوالے سے ایک پراپیگنڈا مہم بھی جاری ہے کہ امریکا مشرقی غوطہ کے حالات کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے ۔ خانہ جنگی کی وجہ سے لاکھوں شامی مہاجرین کو شدید مشکلات اور غذائی قلت کا سامنا ہے ۔ اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے) نے گذشتہ سال علاقے میں صنفی تشدد کے حوالے سے ایک جائزہ رپورٹ مرتب کی تھی جس میں وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ شام کے کئی علاقوں میں خیراتی امداد کے بدلے جنسی استحصال کیا جا رہا ہے۔’وائسز فرام سیریا 2018‘ نامی رپورٹ میں کہا گیا کہ ایسی عورتیں جن کے خاوند مر چکے ہیں یا جنھیں طلاق ہو چکی ہے وہ آسان ٹارگٹ تصور کی جاتی ہیں۔شام میں امدادی کارکنوں کے ہاتھوں عورتوں استحصال کی پہلی اطلاع تین سال پہلے دی گئی تھی۔ ایک خیراتی ادارے کی مشیر ڈینیل سپنسر کو 2015 میں اردن میں مہاجرین کے کیمپ میں عورتوں کے ایک گروپ نے اس استحصال کے بارے میں مطلع کیا تھا۔دنیا بھر میں 34ممالک کی سعودی اتحادی افواج اور اسلامی تعاون تنظیم پر بھی تنقید کی جا رہی ہے کہ سانحہ شام خاص کر مشرقی غوطہ میں روسی طیاروں کی جانب سے بمباریوں پر کوئی نمایاں کردار کیوں نہیں ادا کررہے۔ مسلمان اکثریتی ممالک کے درمیان خلیج نے ایسی قوتوں کو تقویت دی ہے جو اپنے مفادات کے لئے نہتے و معصوم بچوں و خواتین کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں ۔ بشا ر الاسد کی حمایت میں عالمی قوتوں کی درمیان محاذ آرائی میں شام کے مسلمانوں کو جتنا نقصان پہنچا ہے اس کا مدوا کرنے میں نہ جانے کتنے برس لگ جائیں ۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ شامی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا سلسلہ اُس وقت تک نہیں رکے گا جب تک عالمی قوتیں اپنے فروعی مفادات کو قیمتی انسانوں پر ترجیح دینا ختم نہیں کرتے ۔ لیکن اس کے امکانات کم نظر آتے ہیں۔ عراق ، لبنان، لیبیا ، شام ، افغانستان میں لاکھوں مسلمانوں کی نسل کشی ایک عالمی ایجنڈے کے تحت کی جا رہی ہے ۔عام مسلمان بے بسی سے یہ سب مناظر دیکھ رہے ہیں لیکن کچھ کر نہیں سکتے ۔ غوطہ پر خوفناک بمباریوں نے امت مسلمہ کو پھرپیغام دیا ہے کہ آپس میں اختلافات ختم کرکے مسلم کشی کولگام دیں ۔امت واحدہ اپنے مسائل خود حل کرسکتی انہیں اپنے مسائل کے حل کے لئے کسی دوسری جانب دیکھنے کی ضرورت نہیں ہوسکتی اگر اللہ کی دی گئی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور فرقو ں میں تقسیم نہ ہوں ۔ یہ رب کائنات کی جانب سے دیا گیا حکم و واضح پیغام ہے جس میں امت مسلمہ کی حیات کا راز افشا ہے۔


شیئر کریں: