Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

عورت اور موسم کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا……..عبدالکریم کریمی

Posted on
شیئر کریں:

جوزف رافیل سے میری ملاقات ایک لائف ٹائم تجربہ تھا۔ جوزف ایمسٹرڈیم میں فاسٹ فوڈ کی سب سے بڑی کمپنی کا مالک تھا۔ شہر میں اس کے پچاس سے زیادہ ریستوران تھے، وہ دن میں آدھ گھنٹہ کے لیے اپنے کسی ریستوران پر جاتا، اپنے کارکنوں سے ملتا، ان کے ساتھ گپ شپ لگاتا اور اگلے ریستوران کی طرف نکل جاتا، شام کو وہ ’’ڈیم سکوائر‘‘ کے ایک ریستوران میں بیٹھتا، کافی پیتا، اپنے دوستوں کے ساتھ گپ لگاتا اور گھر چلا جاتا، یہ اس کا معمول تھا۔

میرا ایک دوست اس کے ریستوران میں کام کرتا تھا۔ میرا یہ دوست انیس سو نوے میں ہالینڈ گیا تھا۔ اس نے جوزف کے پاس نوکری شروع کی تھی اور اس کے بعد اس نے سولہ سال جوزف کے ساتھ گزار دئیے۔ میں اس کی مستقل مزاجی پر حیران تھا یورپ میں ایک ہی ادارے اور ایک ہی نوکری سے چپکے رہنے کو نفسیاتی مرض سمجھا جاتا ہے، یورپ کے بارے میں کہا جاتا ہے وہاں نوکری عورت اور موسم کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا لیکن میرے اس دوست نے یورپ کے اس فلسفے کو بدل دیا، اس نے سولہ سال ایک ہی ریستوران کے کاؤنٹر پر گزار دئیے، میں نے ایک دن اس سے اس کی وجہ پوچھی، وہ مسکرا کر بولا ’’صرف جوزف کی وجہ سے ‘‘مجھے بڑی حیرت ہوئی میرے دوست نے اپنی بات جاری رکھی۔ ’’صرف میں نہیں بلکہ آج تک جس شخص نے بھی جوزف کو جوائن کیا وہ اسے چھوڑ کر نہیں گیا۔‘‘ میرے لیے یہ بات بھی حیران کن تھی۔ میں نے اپنے دوست سے وجہ پوچھی وہ مسکرا کر بولا ’’جوزف ہر شام ہمارے ریستوران میں آتا ہے، کافی پیتا ہے اور دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرتا ہے، میں آج اس کے ساتھ تمہاری ملاقات طے کر دیتا ہوں، تم اس سے خود پوچھ لینا۔‘‘ میں نے فوراً حامی بھر لی۔ جوزف کے ساتھ میری ملاقات طے ہو گئی۔
holland 2

شام چھ بجے جوزف وہاں آ گیا۔ وہ ایک کٹڑ یہودی تھا۔ اس کی ناف تک لمبی داڑھی تھی۔ سر پر سیاہ ہیٹ اور گھٹنوں تک لمبا کوٹ تھا۔ اس کے ہاتھ میں قیمتی پتھروں کی چھوٹی سی تسبیح تھی اور وہ وقفے وقفے سے عبرانی زبان میں کچھ بڑبڑاتا تھا۔ میرے دوست نے مجھے اس کے سامنے بٹھا دیا۔ میں نے جوزف کا غور سے جائزہ لیا۔ مجھے اس کی شخصیت میں ایک ان دیکھی کشش محسوس ہوئی۔ وہ دھلا دھلایا سا نرم مزاج شخص تھا۔ اس نے میرے ساتھ گپ شپ شروع کر دی۔

وہ مختلف موضوعات پر سوال کرتا اور میرے جوابوں میں سے نئے سوال نکالتا، سوال و جواب کے اس سلسلے کے دوران میں نے اس کے ملازمین کا حوالہ دیا اور اس سے پوچھا ’’آپ کے ملازم آپ کو چھوڑتے کیوں نہیں؟‘‘ وہ مسکرایا ’’میں ملازمین کا انتخاب بڑی احتیاط سے کرتا ہوں، میرا اپنا کرائیٹریا ہے اور جو شخص اس کرائیٹریا پر پورا نہیں اترتا میں اسے ملازم نہیں رکھتا۔‘‘ میں خاموشی سے سنتا رہا۔ وہ بولا ’’جب کوئی شخص میرے پاس نوکری کے لیے آتا ہے۔

تو میں اس سے پوچھتا ہوں۔ کیا تم عبادت کرتے ہو ؟ اگر وہ ہاں میں جواب دے تو وہ میرا پہلا امتحان پاس کر جاتا ہے۔‘‘ میں نے اسے ٹوک کر پوچھا ’’عبادت سے تمہاری کیا مراد ہے؟‘‘ اس نے مسکرا کر جواب دیا ’’اگر وہ مسلمان ہے تو کیا وہ نماز پڑھتا ہے؟ وہ عیسائی ہے تو کیا وہ چرچ جاتا ہے؟ یہودی ہے تو سیناگوگا، ہندو ہے تو مندر اور بدھ ہے تو کیا وہ ٹمپل جاتا ہے؟ ٗ وہ کسی مذہب کا ماننے والا ہو میں صرف یہ دیکھتا ہوں کیا اس کا مذہب کے ساتھ تعلق قائم ہے؟‘‘ میں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔

وہ بولا ’’میں اس سے پوچھتا ہوں وہ اپنے خاندان بیوی اور بچوں کو کتنا وقت دیتا ہے۔ اگر اس کا جواب روزانہ چار گھنٹے اور ہفتے میں دو دن ہو تو میں اسے ملازم رکھ لیتا ہوں۔ میں طلاق یافتہ اور مطلقہ لوگوں کو ملازمت نہیں دیتا۔ اگر کوئی کنوارہ شخص میرے ادارے میں ملازم ہوجائے تو وہ سال کے اندر اندر شادی کا پابند ہوتا ہے۔‘‘ میرے لیے یہ شرط بھی عجیب تھی لیکن میں خاموش رہا۔ وہ بولا ’’میں یہ دیکھتا ہوں کیا وہ سال میں ایک مہینے چھٹیاں لیتا ہے اورکیا وہ یہ چھٹیاں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ کسی اچھے مقام پر گزارتا ہے؟ میں یہ دیکھتا ہوں وہ اوور ٹائم تو نہیں لگاتا اور وہ ہفتے اور اتوار کی چھٹی اپنے خاندان، اپنے دوستوں کے ساتھ گزارتا ہے؟ اگر مجھے معلوم ہو وہ سارا سال کام کرتا ہے، وہ اوور ٹائم لگاتا ہے یاوہ ہفتے اور اتوار کے دن بھی کام کرتا ہے تو میں اسے ملازم نہیں رکھتا۔ میں خاموش رہا، وہ بولا ’’میں اس سے پوچھتا ہوں کیا وہ ہفتے میں کم از کم پانچ دن ایکسرسائز کرتا ہے؟ کیاوہ واک، جاگنگ، سائیکلنگ اور ویٹ ٹریننگ کرتا ہے؟ اگر اس کا جواب ناں میں ہو تو میں فوراً معذرت کر لیتا ہوں۔‘‘ میں اس کی بات غور سے سنتا رہا۔ وہ بولا ’’اور میں اس سے آخری سوال پوچھتا ہوں۔ کیا وہ باقاعدگی سے مطالعہ کرتا ہے؟ کیا وہ اخبارات، رسائل یا کتابیں پڑھتا ہے اور کیا اس کے دوستوں میں کوئی پڑھا لکھا شخص موجود ہے؟ اگر وہ ہاں کہہ دے تو میں اسے نوکری دے دیتا ہوں۔‘‘ وہ خاموش ہو گیا۔ میں نے جوزف سے کہا ’’یہ ساری چیزیں تو ذاتی ہیں۔ ان کا کام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور یہ ملازمت کے مروجہ اصولوں کے بھی خلاف ہیں۔‘‘ اس نے قہقہہ لگایا اور میرا ہاتھ دبا کر بولا ’’مجھے معلوم تھا تم مجھ سے یہی کہو گے۔‘‘ وہ تھوڑی دیر رکا، اس نے ہیٹ اتار کر سر پر ہاتھ پھیرا اور مسکرا کر بولا ’’ان تمام چیزوں کا تعلق ذات سے نہیں بلکہ وفاداری سے ہے، میں سمجھتا ہوں جو شخص اپنے ساتھ وفادار نہیں وہ دنیا کے کسی شخص کے ساتھ وفادار نہیں ہو سکتا۔ جو شخص اپنے رب کی اطاعت نہیں کرتا وہ دنیا کے کسی شخص کی اطاعت نہیں کرتا، جو شخص اپنے آرام کا خیال نہیں رکھتا وہ کسی شخص کو آرام نہیں پہنچا سکتا، جو شخص اپنے خاندان کو وقت نہیں دے سکتا وہ دنیا کے کسی شخص کو وقت نہیں دیتا، جو شخص اپنی صحت اور سلامتی کا خیال نہیں رکھتا وہ شخص کسی شخص کی سلامتی اور صحت کا خیال نہیں رکھ سکتا اور جو شخص پڑھتا نہیں وہ شخص زندگی میں سیکھتا نہیں اور جو شخص زندگی میں سیکھتا نہیں وہ کسی ادارے کسی کمپنی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ میرا فلسفہ ہے جو شخص اپنے ساتھ وفادار نہیں وہ کسی ادارے، کسی کمپنی اور کسی شخص کے ساتھ وفادار نہیں ہو سکتا لہٰذا میں ہمیشہ اپنے لیے وفادار لوگوں کا انتخاب کرتا ہوں۔‘‘ اس کی بات میرے لیے بالکل نئی تھی، میں نے سوچا ’’واقعی وفاداری کا آغاز انسان کی اپنی ذات سے ہوتا ہے جو شخص اپنے ساتھ بے وفا ہو وہ دوسروں کے ساتھ وفاداری کیسے کرسکتا ہے، جو شخص اپنے اللہ کے ساتھ دھوکہ کر رہا ہو، جو اپنی ذات کے ساتھ دغا کر رہا ہو، جس نے اپنے خاندان، اپنے وجود اور اپنے ذہن کو محروم کر رکھا ہو وہ دوسروں کے ذہن، وجود اور خاندان کو کیسے نواز سکتا ہے وہ ان کا بھلا کیسے سوچ سکتا ہے۔‘‘ میں نے اس یہودی کا ہاتھ تھاما۔ اسے سیلوٹ کیا اور باہر آ گیا اور فٹ پاتھ پر کھڑا ہو کر سوچنے لگا ’’میں بھی ان لوگوں میں شمار ہوتا ہوں جو روز اپنے ساتھ بے وفائی کرتے ہیں، جو اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں اور انہوں نے اس دھوکے کو پروفیشن، جاب اور مصروفیت کا نام دے رکھا ہے۔‘‘ میں نے اسی وقت اپنا تھیلا کندھے پر رکھا اور فٹ پاتھ پر جوگنگ شروع کر دی، میں نے وفاداری کے میدان میں پہلا قدم رکھ دیا۔


شیئر کریں: