Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سوشل میڈیا کا استعمال ………… محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

سوشل میڈیالوگوں کے درمیان رابطوں کا سب سے بڑا اور آسان ذریعہ بن چکا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز ترقی کے اس دور میں پل پل کی خبریں ، تصاویر اور وڈیوزفیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام، واٹس ایپ اور دیگر ذرائع سے چند سیکنڈز کے اندر دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچتی ہیں۔ سماجی رابطوں کا جدید نظام ایک علم ہے ۔اسے بے راہروی کا ذریعہ قرار دینا کسی طور درست نہیں۔ سوشل میڈیا کی طرح ہر چیز کے کچھ فائدے اور کچھ نقصانات اور خطرات ہوتے ہیں۔ آپ اپنی پسندیدہ خوراک بھی ضرورت سے زیادہ کھائیں گے تو پیٹ میں درد، مروڑ، فوڈ پوائزننگ اور بے سکونی کی صورت میں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ علم کو تعمیری مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے تو اس سے بنی نوغ انسان کو بے شمار فائدے حاصل ہوتے ہیں اسی علم کو اگر منفی اور تخریبی مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے تو انسانیت کی تباہی کا سبب بنتا ہے۔ دوپٹہ عورت کا پردہ ہے۔جو صنف نازک کو بری نظروں سے بچاتا ہے اس کے تعمیری استعمال کے بے شمار فوائد ہیں۔ اسی دوپٹے کو پھندہ بناکر گلے میں ڈالا جائے تو وہ جسم اور روح کا تعلق توڑنے کا باعث بنتا ہے۔ سوشل میڈیا میں دین کی باتیں بھی ہیں۔ اتحادو اتفاق اور رواداری و بھائی چارے کے پندو نصائح بھی ملتے ہیں۔ لذیذ کھانے پکانے کے طریقے بھی درج ہیں اور دیسی ٹوٹکوں سے علاج کے طریقے بھی بتائے جاتے ہیں جن سے ہزاروں افراد مستفید ہورہے ہیں۔ اس میں ماں کی عظمت اور بیٹی کی حرمت کی کہانیاں بھی ہیں۔ بڑوں کے احترام، اساتذہ کی توقیر ، چھوٹوں سے پیار اور قدرتی ماحول کے تحفظ کی تلقین بھی نظر آتی ہے۔ سوشل میڈیا کی مثال ایک بڑے جنرل سٹور کی ہے۔ جہاں آپ خریداری کے لئے جاتے ہیں تو اپنی ضرورت کی چیز ہی خریدتے ہیں۔ سٹور میں ہزاروں ایسی چیزیں بھی سجاکر رکھی ہوتی ہیں۔جو روزمرہ استعمال میں نہیں آتیں۔یہ ضروری نہیں کہ آپ سٹور پر جائیں تو وہاں موجود ہر چیز خریدیں۔سوشل میڈیا پر سیاسی اور سماجی چٹکلے بھی ہوتے ہیں جو پڑھنے والوں کو تفریح طبع کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ جو سبق مدرسوں، سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نہیں پڑھایا جاتا۔ وہ بھی سوشل میڈیا پر دیکھنے اور پڑھنے کو ملتا ہے۔ سوشل میڈیا نے حقیقی معنوں میں دنیا کو گلوبل ویلج میں تبدیل کردیا ہے۔ سماجی رابطوں کے سب سے تیز رفتار اور موثر ذریعے کو سیاسی لوگ اپنا پیغام پہنچانے کے لئے استعمال کرتے ہیں جو ان کا حق ہے۔ لیکن اسے دوسروں کی پگڑیاں اچھالنے، کسی کی ذات اور شخصیت کو بدنام کرنے ، دل آزاری، نفرت اور تعصب کا پرچار کرنے اور فحاشی و عریانی پھیلانے کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال قابل مذمت ہے۔ جو لوگ سماجی رابطوں کے ان ذرائع کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ انہیں روکنے کے لئے سائبرکرائمز کا قانون موجود ہے۔ایسے لوگوں کو فوری اور آسانی سے پکڑا جاسکتا ہے۔ لیکن سہولت کی اس رحمت کو زحمت کا زریعہ بنانے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ سوشل میڈیاکا استعمال عام ہونے کی بدولت لوگوں کی واضح اکثریت سوشل میڈیا کو منفی مقاصد کے لئے استعمال کرنے والوں کو ناپسند کرتی ہے۔کچھ لوگ غیر ارادی طور پر بھی سوشل میڈیا پر ایسی پوسٹیں شیئر کرتے ہیں جس سے دوسروں کی دل آزاری ہوتی ہے یا کسی کو تکلیف پہنچتی ہے۔ مثال کے طور پر کسی کی موت کی خبر فیس بک پرفوری طور پر اپ لوڈ کی جاتی ہے۔گھروں سے باہر یا سفر پر موجود لواحقین کو جب فیس بک کے ذریعے اپنے پیاروں کی وفات کی خبر ملتی ہے تو انہیں ناقابل تصور مشکلات اور تکالیف سے گذرنا پڑتا ہے۔ غیر ارادی طور پر سوشل میڈیا کے غلط استعمال میں زیادہ تر کم عمر افراد ملوث پائے گئے ہیں۔ والدین، گھر کے بڑے افراد، سکول و کالجوں اور مدارس کے اساتذہ بچوں کی اس سلسلے میں تربیت کرسکتے ہیں۔ محراب و منبر کو بھی اس مقصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ناخن بڑھ جائیں تو انہیں تراشا جاتا ہے انگلیاں نہیں کاٹی جاتیں۔بچے سوشل میڈیا کے استعمال میں جتنی بے احتیاطی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔اس سے کہیں زیادہ بعض سیاسی جماعتوں کے کارکن سوشل میڈیا کا غلط استعمال کرتے ہیں جن کا سیاسی پارٹیوں اور رہنماوں کو نوٹس لینا چاہئے۔ اس میڈیا کو اپنی کارکردگی اور منشور عوام تک پہنچانے کے لئے استعمال کرنا چاہئے دوسروں پر کیچڑ اچھالنے کے لئے نہیں۔


شیئر کریں: