Chitral Times

Apr 24, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

کُنج قفس………. ہیرا سے۔۔ ہیرا ناز تک ………. الطاف اعجازؔ گرم چشمہ

Posted on
شیئر کریں:

ایک نایاب قطرے کی مقدر میں اگر روشنیوں کا سفر ہی لکھا ہے توآدمی کو خواہ مخواہ سیپیاں چننے کی ضرورت ہی کیا، یہ قطرہ گھر میں بھی تو مل سکتا ہے ، اور یہ صدف گھر بھی تو ہو سکتاہے ، اس کو تو اندر ہی دروں میں کہیں سے روشن کیا جاسکتا ہے،بشرطیکہ عقل کو شعور ہواور آنکھوں میں بصارت ، دل میں یہ بصیرت ہو کہ سر اور سِر میں پہچاں کر سکے، پھر نہ صدف و سیپ و موسم کی اور نہ ہی قطرے کی ضرورت ہوگی ،سب کچھ اندر سے اپنے آپ ہونے لگیں گے اور گھر میں ہی ہیرا ملیں گے، سونا نکلیں گے، موتیاں نکلیں گے۔۔۔ اگر کوئی آپ سے یہ کہے کہ گرم چشمہ میں ایک نصیب والے کو اس کے اپنے ہی گھر میں ہیرا ملا ہے تو اپ کا ردعمل کس طرح کا ہوگا،آپ کے ذہن میں کس طرح کے خیالات آئینگے، کس طرح کے سوالات ابھرینگے ۔ ۔ ۔ یا آپ حیرت کے ساتھ یا حسرت کے ساتھ سوال کرینگے کہ ایک آدمی کو ہیرے کا یوں ملنا ،اوروہ بھی اس کے اپنے ہی گھر میں! یا بتقاضائے فطرت آپ کی یہ سوچ ہوگی کہ کاش میرے گھر میں بھی ایسا ہی ایک ہیرا ملے تو کیا بات کہ نصیب چمکے ۔ صاحب! ذکر ہوئی کہ بات دل میں احساس اور آنکھ میں بصارت رکھنے کی ہے ورنہ گھر گھر میں اس طرح کے ہیرے پوشیداہیں، اس طرح کی موتیاں اپنے نکھار کی کوشش سے گزر رہے ہیں، چاہے وہ گھر شش محل ہو یا جھونپڑی بس دینے والا دیتا ہے، او ر جو نصیب والے ہوتے ہیں وہ ہیرے کی اس چمک کو بانپ لیتے ہیں، اس کو نکھارتے ہیں، صیقل میں لگے رہتے ہیں یہانتک کہ اس کی چمک میں اپنی ہی صورت ایک دن احساسِ فخر لے کر نمودار ہونے لگتی ہے، اور پھر اس کی روشنی سے سارا گھر ،گاؤں اس کے بعد سارا شہر چمکنے لگتا ہے ، ایسے ہیروں کی قدر ہونی چاہئے ، احترام ہونا چاہئے کیونکہ ان کی روشنی دوسروں کے لئے ہوتی ہے، یہ چمکتے بھی ہیں تو دوسروں کے لئے، دیے سے دیا جلانا ان کا کام ہوتا ہے، یہ حساس فطرت کے حساس مخلوق ہوتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ انسان کی فطرت اس کے نام سے بھی اثر پکڑتی رہتی ہے ، تبھی تو والدیں ہمیشہ سوچ سمجھ کے اپنے بچے کے لئے نام رکھا کرتے ہیں تاکہ بچہ اپنے نام پرپورا اترے ۔ میں یہاں اُس ہیرے کی بات نہیں کررہاجو کسی پہاڑکے دامن میں زیر زمیں کہیں سے ملتا ہے جو اپنے ساتھ آبادی لاتا ہے یا بربادی ، یہ بھی ایک نصیب ہے۔میں بات کر رہا ہوں گرم چشمہ کے ایک خوبصورت گا ؤں پرابیگ سے تعلق رکھنے والی پیاری سی اس بچی کی جس کا نام ہیرا رکھا گیا، اور کئی سال بعد وہ اپنے ہیرا ہونے میں پورا پورا اترا اور چمکا بھی توکچھ اس طرح کہ زیر زمین ہیرے کو بھی غش آئے ۔۔۔ ایک کہانی تصور کر و کہ ایک خانداں میں ایک بیٹی پیدا ہوئی، اس کی تربیت ہوئی، وقت گزرتا گیا، ساتھ ساتھ اللہ نے توفیق دے دی اور یوں ایک ننھا اور پیارا سا بچہ بڑھتے بڑھتے جب اپنے تعلیمی دور سے گزرنے لگاتو گھر والوں کو محسوس ہوا کہ بچی کے اندر چمک ہے جس کو نکھارنے کی ضرورت ہے ، چقماق ہے کہ رگڑنے تک ساتھ دی جائے، ایک تخلیقی قوت کہ جس کو صحیح ڈگرپر ڈالنے کی ضرورت ہے ، ایک قطرہ جس کو صدف میں گرنے کی دیر ہے ۔ ایک پیاری سی بچی اپنے علمی سفر پر نکلی ،جس کے لئے گھر والوں نے مل کر اس کا ساتھ دیا، اس کا خیال رکھا، اسے راہ دیکھائی ، ذہنی سکوں دی ،ایک منصوبہ دی گئی ایک مقصد دی گئی جس پر اسے کام کرنا تھا، اسے ہر طرف سے سہولت دی گئی ، اس کی ضروریات پوری کی جانے لگی، اور ساتھ ساتھ ہیرا خود بھی سال در سال علم کی راہ پر حسب توفیق برابر درخشان رہی کیونکہ ہیرے کو ایک درست سمت ملا تھا، اس کی زندگی میں اب ایک معنی آئی تھی ۔اسے ایک زمہ دار ہاتھوں نے ایک نازک وقت پر ایک درست راہ میں چھوڑا تھا۔اس کی پُر سکوں اور ننھی سی ذہن کو خوابوں کی انگلیوں میں تھما کر زندگی کی حقیقت کو استعاروں سے سمجھائی گئی تھی ۔ہیرے کی ننھی سی ذہن اب خوابوں کو پرکھتے ہوئے ایک نصب العین کے سائے میں خود آگے بڑھ رہی تھی، ایک بچی کے لئے خواب اگرچہ موہوم ہی سہی ، سراب ہی سہی ،یاناممکن ہی سہی مگر بعض خواب اپنی تعبیر میں دیر نہیں لگاتے ، اور منہ سے نکلی بعض باتیں بھی پتھر پر لکیر ہوا کرتی ہیں ۔ اب والدیں کو سیپان چننے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ ان کے لئے یہ وقت خود سیپی وصدف بننے کی تھی کیونکہ قطرہ گھر ہی میں ملا تھا اور گوہر بننے کی طرف رواں دواں تھا۔ ہیرے کی پوشید ا صلاحیتوں میں وقت کے ساتھ ساتھ نکھار پر نکھار آتی رہی، اللہ کی دی ہوئی نعمت کو صحیح استعمال کرنے سے اللہ کے قانوں جواب دے رہے تھے ، شکر کرنے سے اب نعمات کے دروازے مزید کھل رہے تھے ۔ تعلیم کے دس سال بعد ایک دن ہیرا ایسا چمکا کہ گھر تو گھر سارا شہر روشن ہوگیا۔ ہیرا اپنے تعلیمی دور میں ایک مقام پر آکر ٹاپ کر گیا، سب کو پیچھے چھوڑ گیا، سب انگشت بدنداں ہو گئے ، حیران ہوئے ۔ ایک ننھی سی بچی ایک چھوٹا سا گاؤں پرابیگ سے یوں چمکا کہ اس کی دھمک سے کئی کئی گاؤں فروزا ں ہوئے اور اس کی روشنی سے اثر لے کر اپنے اور پرائے جس جس کے بھی گھر میں ہیرے پوشیدا تھیں کر واٹیں لینے لگے ، خوابیں دیکھنے لگے، کتابیں تھامنے لگے، اور ہیرے کے نقش قدم پر چلنے کے خیالات پالنے لگے ۔ ۔ ایک مثالی بیٹی، ایک مفخر طالب علم ، ایک مشعل راہ۔ جاننے کی بات کی جائے تو ۔۔’ہیرا ناز دختر گل عجب گرم چشمہ پرابیگ‘ ۔۔ اور اگر فخر کی بات ہو تو ان لکیروں سے پرے ایک بیٹی، ایک فخر۔ ہر ملنے والا ہیرے کو دعا د ےئے بغیر نہ رہ سکا۔کوئی رطب لالسان ہواکہ ہیرا میرا رشتہ دار ہے، کوئی فخر سے کہہ اٹھا کہ وہ میرے گاؤں کا ہے،کسی نے کہا کہ وہ میرا دوست ہے اور ایسا کیوں نہ ہو، کیونکہ اس نے سب کا سر فخر سے بلند جو کیا تھا۔ دوست تو دوست ، دشمن اور غیر سب کے سب ہیرے کی ذکر پر اپنا سر فخر سے بلند کرتے اور صراحاً یاکنایتاً کچھ تو بولتے جس سے اپنائیت کی خوشبو آئے ۔اب ہیرے پر ناز کرنا سب کے لئے فخر کی سی احساس پیداکررہی تھی، اس لئے کہ ہیرا اب صرف ہیرا ہی نہیں ۔۔۔ہیرا نازتھی۔۔۔ایک ایسا ہیر اجس کی مثال دی جائے، جس پر فخر کی جائے ، ناز پہ ناز کی جائے۔۔ ۔۔ ۔تو جناب! دوست ہو کہ دشمن ،دور ہو یا قریب، ایسے لوگوں کی قدر کریں ۔۔۔یہ کسی بھی معاشرے میں ہوسکتے ہیں،کسی کے گھر میں بھی ہوسکتے ہیں۔۔۔ مخفی لیکن چمکیلے ۔۔پس پردے میں لیکن روشن۔ ۔۔بھرا ہوا ایک صراحی لیکن جھوکی جھوکی۔۔گہرے لیکن خاموش، اورسب سے بڑی بات ۔۔۔۔۔۔یہ ۔۔۔۔۔نایاب ہوتے ہیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
6877