Chitral Times

Apr 23, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

  چوکیداری اور علما کرام  ……………ڈاکٹر محمدیونس

Posted on
شیئر کریں:

دنیا میں ہر قیمتی چیز کی حفاظت کا کوئی نہ کوئی انتظام کیا جاتا ہے اس کے لئے لاکر بنائے جاتے ہیں اس کی حفاظت کے لئے گارڈ یا چوکیدار کا   انتظام کیا جاتا ہے  حفاظت کے اسلحہ لائسنس حاصل کیا جاتا ہے قیمتی اسلحہ خریدا جاتا ہےوا رننگ بورڈ آویزاں کیا جاتا ہے اور لکھا جاتا ہے کہ” احتیاط! کیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے”۔ غرض  بینک ہویا کو ئی  مالیاتی ادارہ ،قیمتی سامان کا گودام  ہویا پلاٹ اور زمین کا ٹکڑا ۔ہر چیز کی  حفاظت کے لئے او ر اس کو لوگوں کے دست برد سے بچانے کےلئےکوئی اچھا ساا نتظام کیا جاتا ہے اس طرح کےانتظام کو عیب نہیں سمجھا جاتا بلکہ اس کو عقل کا تقاضا سمجھا  جاتا ہے اور ایسا نہ کرنے کو عقل کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔

 

جتنی قیمتی چیز ہوگی اس کی سکیورٹی پر اتنا زیادہ خرچ کیا جاتا ہے سیفٹی کے لئے گارڈ ہرآدمی کو نہیں رکھا جاتا بلکہ پروفیشنل لوگوں کو رکھاجاتا ہے  ان کو مزید ٹریننگ دی جاتی ہے۔ کسی کو اعتراض نہیں ہوتا کہ  اس چیز کی حفاظت  کے لئے گارڈ کیوں رکھاگیا؟ خاص پروفیشنل لوگوں کو کیوں رکھا گیا؟ ہرخاص وعام کو یہ حق کیوں حاصل کیوں نہیں؟ سکیورٹی  پرا تنا پیسہ کیوں خرچ کیاگیا؟ ایک اور چیز کی طرف توجہ دلاوں کہ دنیا کا ہرپروفیشنل کام پروفیشنل لوگوں سے ہی کروایاجاتا ہے جواس کام کے ماہر ہوتے ہیں۔ مثلا اسکول ،کالج اور یونیورسٹیز میں  پڑھانے والے ہرسبجیکٹ کے  اپنے پروفیشنلز اورماہرین ہوتے ہیں  کسی ایک سبجیکٹ کے ماہر کو دوسرے کے  سبجیکٹ میں ٹانگ اڑانا حماقت تصور کیا جاتا ہے۔کسی انجینئر کو ڈاکٹر کی فیلڈ میں یا اس کی اوپوزٹ صورت میں یہ حق نہیں دیاجاتا کہ وہ اس پرکمنٹس کرے۔اور اس پر کبھی کسی کو اعتراض نہیں ہوتا کہ آخر انجینئر بھی تو انسان ہے  ڈاکٹر کو کس نے اجارہ داری دی ہے  کہ میڈیکل کی فیلڈمیں وہی بات کرے اور اپنی من مانی کرے،  اس فیلڈ میں انجینئر کو بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کسی ڈاکٹر کو ہے۔کوئی نہیں کہتا کہ ڈاکٹروں نے اجارہ داری قائم کی ہوئی ہے لہذا ان سے یہ حق چھینا جائے۔

 

اسی طرح ملکی آئین اور قانون  کا مسئلہ ہے جس کی تشریح کے لئے باقاعدہ  ادارہ  قائم  ہوتاہے اور پروفیشنل قانون کے ماہرین ہی اس کی تشریح کے اہل ہوتے ہیں ہر ایرے غیرے قانون کی باریکیوں کو سمجھ سکتا ہے اور نہ ہی وہ اس بات کا مجاز ہے  کہ آئین وقانون کی من مانی تشریح  کرے۔ آئین اور قانون کی وہی تشریح معتبر  ٹھہرتی ہے جو اہل اور پرفیشنل لوگوں اور مجاز اداروں کی طرف سے  سامنے آئے۔

 

لیکن محترم قاری توجہ چاہوں گا! کہ دنیا میں ایک فیلڈ ایسی  بے وقعت ہے ایسی بے قیمت ہے ایسی بے   آسرا  رہ گئی ہے کہ  اسے ہرکس وناکس روندنا چاہتا ہے۔اس پر چوکیدار بٹھاو تو اعتراض ہوتا ہے کہ چوکیدار کیوں بٹھایاہے اس پر پیسہ خرچ کرو توا عتراض ہوتا ہے کہ اتنا پیسہ کیوں لگایاجاتا ہے۔ اس کے لئے پروفیشنل لوگوں کا انتظام کیا جائے تواعتراض ہوتا ہے کہ پروفیشنلز کی کیاضرورت ہے اس میں ٹانگ اڑانا تو ہم میں سے  ہر کس وناکس کا حق ہے چاہے وہ اس کے ابجد سے بھی واقف نہ ہو۔ اور وہ فیلڈ ہے بدقسمتی سے اسلام اور اس کی تعلیمات کی فیلڈ۔حالانکہ اسلام وہ قیمتی اثاثہ ہے کہ پوری دنیا اس کی قیمت نہیں چکاسکتی اور اس کی تعلیمات اتنی حساس ، باریک، تفصیل طلب اور مشکل ابحاث پر مبنی ہیں کہ اس میں بڑے بڑوں کی دال نہیں گلتی اس فیلڈمیں لوگوں نے اپنی زندگیاں ختم کیں تب بھی ان کو یہ دعوی نہیں کہ ہم پروفیشنل ہوگئے ہیں۔ لیکن افسوس کہ آج ہرکوئی  یہ دعوی لے  کر بڑے طمطراق کے ساتھ کہتا ہے کہ مجھے اسلام کی تعلیمات پر بولنے یا اپنی مرضی کی تشریح  کا پورا حق حاصل ہے ۔ اور مرضی کے حق کو حاصل کرنے کے لئے اس فیلڈ کے ماہرین کو مختلف برے ناموں سے پکارتا ہے کبھی کہتا ہے کہ مولویوں کو کس نے یہ اتھارٹی دی ہے کہ وہ دین کی تشریح کریں؟ کبھی کہتا ہے کہ ان لوگوں کو دین کے معاملہ میں کس نے ٹھیکہ دار بنایا ہے؟ کبھی کہتا ہے کہ ملالوگوں نے دین کو تباہ کیا ہے اور کبھی کہتا ہے کہ مجھے دین کی تفصیلات معلوم کرنے  کے لئے کسی اہل علم کے پاس جانے کی کوئی ضرورت ہے میں خود بہتر جانتا ہوں۔ یہ وہ مصیبت ہے  جس میں آج کا مسلمان معاشرہ گرفتار ہے، حالانکہ عقل وشعور کا تقاضا ہے کہ چارپائی بنانے کے لئے ہمیں بڑھی پر اعتماد کرنا پڑتا ہےپائپ لائن  کے کام کےلئے پلمبر  اوربجلی کے کام کے لئے الیکٹریشن  کی بات  ماننی پڑتی ہے او ر اس کی خلاف ورزی  کو نقصان کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ لیکن دنیا میں دین اسلام وہ واحد میدان ہے جس کی تعلیمات کو سمجھنے کے لئےماہر علما کی طرف رجوع کے بجائے اپنی عقل ودانش پر اعتماد کیا جاتا ہے  اور یہی نہیں بلکہ اس کے ماہرین کو طرح طرح سے بدنام کرنے ،ان پر پھبتی کسنے اور ان کو کبھی دین کاٹھیکہ دار، کبھی ملا، کبھی کچھ اور کبھی کچھ  کہنے کو اپنا حق تصور کیا جاتا ہے۔حالانکہ دین کے یہی چوکیدار ہیں جن کی بدولت آج پورا دین محفوظ طریقے سے ہم تک پہنچا ہے، اللہ  نے اپنے آخری دین کی حفاظت کا کام انہی سے لیا ہے جو نصیب کی بات ہے۔آج ہمیں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ انہوں نے روکھی سوکھی کھاکر دین کو اپنے سینوں سے لگائے رکھا ۔ دین کے حوالے سے جو بے باکی مسلمان معاشرے میں آج ہے وہ شاید مغربی دین بیراز معاشرے میں بھی نہیں کیونکہ ان میں سے بعض لوگ دین بیزار ضرور ہیں اور انہوں نے دین کو اپنے سیاسی نظام سے دیس نکالا ضرور کیا ہے لیکن جو دین ان کی پرسنل لائف میں موجود ہے اس کی چوکیدار ی اور تحفظ کے لئے بہرحال  انہوں نے اپنے میں سے پروفیشنل لوگوں کو منتخب کر رکھا ہےہر ایرا غیرا بیچ  میں ٹانگ نہیں اڑاتا جو مذہب کے ابجد سے خود واقف نہ ہو اس کو مذہب کے ماہرین پر اعتماد کرنا  ہی پڑتا ہےمغرب نے پوپ کا باقاعدہ ادارہ  اسی مقصد کے لئے قائم کررکھاہے جس کے پاس یہ اتھارٹی ہے کہ وہ مذہب کی مناسب تشریح کرکے۔اور یہی صورت حال یہودیت، ہندوازم اور دیگر مذاہب میں ہے کہ اپنے مذہب کی تشریح کے لئے اہل لوگوں پر ہی اعتماد کیا جاتا ہے۔

 

یہ دور پروفیشنل ازم کا ہے اور اس دور حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق ہمیں اپنے دین کو سمجھنے کے لئے اہل علم اور علما کرام پر ہی اعتماد کرنا ہوگا ورنہ دین خدانہ کرے مذاق بن کررہ جائے گا کہ ہر کوئی اس کی من مانی تشریح کرے گا،اس وقت علما دین کے چوکیدار ہیں اور یہ چوکیداری انہی کے پاس رہنا ضروری ہے وہی اس کا حق ادا کرسکتے ہیں۔ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ دین کے ماہرین پیدا کرنے والے  اداروں دینی مدارس وجامعات اور ان کے نظام کو ہمیں اپ گریڈ کرنا پڑے گا تاکہ وہاں سے ایسے ماہرین پیدا ہوں  جو دین کو حقیقی طور پرسمجھنے کے  ساتھ عصر حاضر پر اس کا  مناسب انطباق بھی کرسکیں۔ لیکن اس کے باوجود دین اور اس کی تشریح کے حوالے سے ہمیں ماہرعلما پرہی اعتماد کرنا پڑے گا ورنہ ہمارا معاشرہ سیاسی انتشار کے علاوہ شدید فکری انتشار کا بھی شکار ہوگا جہاں  دین کے حوالے سے بھانت بھانت کی بولیاں ہوگی ۔اللہ ہمار ا حامی وناصر ہو

 

 

کالم برائے چترال ٹائمز

ڈاکٹر محمدیونس خالد:فاضل جامعہ دارالعلوم کراچی۔بی ایڈ/پی ایچ ڈی کراچی یونیورسٹی

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
6557