Chitral Times

Apr 24, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

غیر اعلانیہ ٹیکسوں کا پہاڑ ……………محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ فی لیٹر ڈیزل پر عوام سے چالیس روپے 74پیسے جبکہ پٹرول پر 34روپے 24پیسے کا ٹیکس وصول کیا جارہا ہے۔ وزارت پٹرولیم کی طرف سے قومی اسمبلی میں پیش کئے گئے اعدادوشمار کے مطابق ڈیزل کی قیمت خرید 55روپے نو پیسے ہے تاہم عوام کو 95روپے 83پیسے میں فراہم کیا جارہا ہے اور ہر لیٹر پر عوام سے 74فیصد ٹیکس لیا جاتا ہے۔ جبکہ پٹرول فی لیٹر کی قیمت خرید 50روپے 27پیسے ہے لیکن 68فیصد ٹیکس لگا کر عوام کو 84روپے 51پیسے فی لیٹر پٹرول فراہم کیا جاتا ہے۔تیل کی عالمی منڈی میں قیمتوں میں استحکام پایا جاتا ہے۔اور کئی سالوں سے فی بیرل قیمت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ اس کے باوجود ہمارے ہاں ہر دوسرے تیسرے مہینے تیل کی قیمت بڑھائی جاتی ہے۔اوگرا کی طرف سے تیل اور نیپرا کی طرف سے بجلی اور گیس کی قیمت میں ہر سہ ماہی میں دس سے بیس فیصد اضافے کی سمری حکومت کو بھیجی جاتی ہے اور حکومت عوام پر احسان جتاتے ہوئے پانچ سے آٹھ فیصد اضافے کی منظوری دیتی ہے۔ اس پانچ سے آٹھ فیصد اضافے کی وجہ سے اکیس کروڑ پاکستانیوں کی جیبوں سے کتنے پیسے نکالے جاتے ہیں۔ یہ اعدادوشمار اگر سامنے آجائیں لوگوں کے ہوش اڑ جائیں گے۔پچپن روپے کا ڈیزل عوام کو پچانوے روپے فی لیٹر اورپچاس کا پٹرول 84روپے 51پیسے فی لیٹر بیچنا غریب عوام پر ظلم ہے۔ تیل کی قیمتوں میں اضافے سے ہر چیز مہنگی ہوجاتی ہے۔ ایک لیٹر پٹرول یا ڈیزل کی قیمت میں ایک روپے اضافہ بھی ہوجائے تو عوام پر مختلف اشیاء مہنگی ہونے کی صورت میں دس روپے کا اضافی بوجھ پڑتا ہے۔پاکستان میں روزانہ چارلاکھ پچاس ہزار بیرل تیل استعمال کیا جاتا ہے۔ایک بیرل میں 159لیٹر تیل ہوتا ہے۔ گویا ملک بھر میں روزانہ سات کروڑ پندرہ لاکھ پچاس ہزار لیٹر تیل خرچ کیا جاتا ہے۔ اکتالیس روپے فی لیٹر ٹیکس کا حساب لگایا جائے تو روزانہ دو ارب 93کروڑ35لاکھ پچاس ہزار روپے عوام کی جیبوں سے نکالے جاتے ہیں۔اگر اسے سال کے 365دنوں کے ساتھ ضرب دیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تیل مہنگا کرکے عوام کی جیبوں سے سالانہ دس کھرب، 70ارب، 64کروڑ57لاکھ پچاس ہزار روپے نکالے جارہے ہیں۔اب پتہ چلتا ہے کہ ایک غریب ملک جس کی فی کس آمدنی صرف ایک ہزارچار سو 68ڈالر سالانہ ہے۔ان سے دس کھرب روپے غیراعلانیہ ٹیکسوں کی صورت میں وصول کرکے حکمران طبقہ اوربیوروکریسی موجیں اڑارہی ہے۔یہ ہوشرباء اعدادوشمار عام لوگوں کو معلوم ہی نہیں۔ دس بارہ سال قبل کشمیر کی وادی نیلم میں بجلی گھر کے منصوبے کے لئے عوام سے چھ ارب روپے ٹیکس لینے کا فیصلہ کیاگیا۔ یہ طے پایا تھا کہ بجلی کے بلوں میں نیلم جہلم منصوبے کے ٹیکس کے زمرے میں ایک سال کے اندر عوام سے چھ ارب روپے وصول کئے جائیں گے۔ مطلوبہ فنڈز کے حصول کے بعد یہ ٹیکس ختم کیا جائے گا۔ لیکن کئی سالوں سے عوام نیلم جہلم پراجیکٹ کے لئے بجلی کے بلوں میں اضافی ٹیکس دے رہے ہیں۔ اب تک اربوں روپے عوام کی جیبوں سے نکالے جاچکے ہیں مگر اس ظالمانہ ٹیکس کو ختم کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔ نہ ہی نیلم جہلم بجلی گھر مکمل ہوسکا ہے۔ دوسری جانب ٹیکس اور محصولات جمع کرنے والے قومی ادارے کے اعدادوشمار کو سامنے رکھا جائے۔ تو پتہ چلتا ہے کہ ایف بی آر کے ریکارڈ میں اکیس کروڑ کی آبادی میں صرف چودہ لاکھ افراد ٹیکس گذار ہیں۔جن میں سے تقریبا چھ لاکھ افراد نے ٹیکس ریٹرن جمع ہی نہیں کرائے۔ اورصرف ایک فیصد لوگ ہی براہ راست ٹیکس دیتے ہیں۔ ملک کے بڑے صنعت کاروں، کارخانہ داروں، سرمایہ داروں، جاگیر داروں، برآمدکنندگان، بڑے تاجروں اور افسر شاہی سے ٹیکس وصول کرنے کی کسی میں جرات نہیں۔غریب عوام پر بجلی گرا کر کبھی گیس مہنگی کرکے اور کبھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا کر اربوں کھربوں روپے وصول کئے جاتے ہیں۔ جو اس مفلوک الحال قوم کے ساتھ سنگین زیادتی ہے۔دوہرے ٹیکسوں کے فرسودہ نظام کے تحت صرف کم آمدنی والے اور متوسط طبقے کا ہی تیل نکالا جاتا ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ حکومت ٹیکس نیٹ کا دائرہ وسیع کرے۔عوام کی دوہری کمر پر بوجھ بننے والے غیر اعلانیہ اور خفیہ ٹیکسوں کو ختم کرے۔صنعتی اور زرعی پیداوار پر ٹیکس وصول کرکے ملکی معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش کرے تاکہ قومی وقار کو گروی رکھ کر غیر ملکی قرضوں کے لئے ہاتھ پھیلانے سے قوم کو نجات مل سکے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , ,
6448