Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

احتجاج کے وکھرے انداز ……………محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

زمانہ بدلنے کے ساتھ بہت سی رسمیں ، روایتیں، اقدار،لوگوں کا مزاج ، ضرورتیں اور خواہشات بھی تبدیل ہوتی جارہی ہیں۔اب خواتین کی عادتیں مردوں نے اپنا لی ہیں اور انتقام کے طور پر خواتین نے مردوں کی عادتیں اپنانی شروع کردی ہیں۔ تفصیل میں جانے سے اس لئے احتراز برت رہے ہیں کہ بازاروں، پارکوں اور مختلف تقاریب میں ایسے مناظر بکثرت دیکھنے کو ملتے ہیں اور احتراز کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے گھرمیں بھی اخبار پڑھا جاتا ہے۔لمبی، گھنی اور چمکدار زلفین ماضی میں خواتین کے حسن کا جزو لا ینفک سمجھی جاتی ہیں۔ جب انہوں نے ہر میدان کی طرح زلف تراشی میں بھی مردوں کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی ۔ تو زلفوں کے شیدائی لڑکوں نے لمبے بال رکھنے، انہیں پونی سے باندھنے اور ہیر بینڈ لگانے کا فیشن اپنالیا۔پہلے زمانے میں لوگ علاج کے لئے تعویز گنڈوں ، حکیمی اور ہومیو ادویات کو ایلوپیتھی کی ادویات پر ترجیح دیتے تھے۔ مشتاق یوسفی کہتے ہیں کہ جب لوگ خونی پیچش کا علاج تعویز گنڈوں میں ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اورخون اس وقت کھولنے لگتا ہے کہ تعویز کی بدولت خونی پیچش کے مریض ٹھیک ہونے لگتے ہیں۔نقلی پیروں کی بہتات اور ہومیوپیتھی کے طویل اور صبر آزما علاج کی وجہ سے لوگوں کا رجحان دوبارہ ایلوپیتھی کی طرف ہونے لگا۔ کیونکہ تیز رفتار ترقی کے اس دور میں لوگ طویل عرصے تک بستر پر پڑے رہنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اور جلد سے جلد صحت یاب ہوکر کام دھندہ دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں۔ایک قابل اعتبار سروے رپورٹ کے مطابق پچاس سال سے زیادہ عمر کے لوگ ڈاکٹری علاج پر گھریلو ٹوٹکوں کو ترجیح دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ زبیدہ آپا مرحومہ، ڈاکٹر بلقیس اور ٹوٹکوں سے علاج کرانے والوں کی وجہ سے ٹیلی وژن کے مارننگ شوزکی ریٹنگ میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے۔جو دوست زندگی کی پچاس پچپن بہاریں دیکھنے کے باوجود جوان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان کے لئے بڑھاپے کی چند نشانیان بتانا ضروری سمجھتا ہوں۔مثال کے طور پر دیسی علاج پر یقین رکھنا، اقوال زرین ڈھونڈ کر دوستوں سے شیئرکرنا، سادگی کی تلقین کرتے پھیرنا، بغیر میچنگ والی ملبوسات پہننا، ہم عمر لوگوں کو بوڑھا کہہ کر تسکین پانا، بیٹھے بیٹھے اونگھنا،آدھی رات کو ہڑبڑا کر اٹھنا کہ پتہ نہیں۔ باہر والے گیٹ کو تالا لگایا تھا یا نہیں؟ اے ٹی ایم سے پیسے نکلوا کر بار بار انہیں گننااورٹچ موبائل پر بٹن والے موبائل کو ترجیح دینا شامل ہیں۔ اگر ان میں سے چند یا ساری نشانیاں موجود ہیں توبوڑھے لڑکوں کو یقین کرنا چاہئے کہ ان کا بڑھاپا شروع ہوچکا ہے۔ عادات و اطوار اورروایات کی اس تبدیلی کے آثار خیبر پختونخوا اسمبلی میں بھی دکھائی دینے لگے ہیں۔ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے سیٹی بجانا اتنی پرانی روایت ہے جتنی مہذب معاشرے کی تاریخ پرانی ہے۔ اس مجرب نسخے کو گذشتہ روز خیبر پختونخوا اسمبلی کے اجلاس کے دوران حکمران جماعت تحریک انصاف کے ایک ایم پی اے نے بھی ازمایا۔جنوبی اضلاع کو تیل اور گیس کی رائلٹی دلانے کے لئے ایم پی اے امجد خان آفریدی کافی عرصے سے سرگرم تھے مگر نقارہ خانے میں جب ان کی آواز کسی نے نہ سنی۔ تو انہوں نے احتجاج کرنے کا پرانا گر ازمانے کا فیصلہ کیا۔ وہ ٹریفک وارڈن والی سیٹی کوٹ کی جیب میں چھپا کر اسمبلی پہنچ گیا۔ جب اپنا مدعا رائیگاں جاتے دیکھا تو زور زور سے سیٹی بجانا شروع کردیا۔پورا ایوان سیٹی کی آواز سے گونجنے لگا تو حکومتی ارکان نے انہیں چپ کرانے کی کوشش کی۔ اور سیٹی کی آواز نے ممبران کی سٹی گم کردی تو ڈپٹی سپیکر کو اجلاس اگلے روز تک کے لئے ملتوی کرنا پڑا۔اپنی نئی حکمت عملی کی غیر متوقع کامیابی پر نازاں ایم پی اے نے جب اگلے روز بھی سیٹی بجانے سلسلہ نئے سرے سے شروع کردیا تو حکومت نے متعلقہ ایم پی او کو یقین دہانی کراکے ہی اپنی جان چھڑوادی۔احتجاج کے انوکھے طریقے عوام میں بھی کافی مقبول ہورہے ہیں۔ اس سے پہلے قومی اسمبلی میں ایک اقلیتی رکن اسمبلی اپنی عجیب و غریب حرکتوں کی وجہ سے خاصے مشہور ہوچکے تھے۔ کبھی چوک میں بیٹھ کر اپنے سرپر مٹی ڈال کر اقلیتوں کے حقوق کے لئے آواز بلند کرتے اور کبھی خود کو زنجیروں میں جکڑ کر حکومت اور عوام کو اپنی طرف متوجہ ہونے پر مجبور کرتے تھے۔ آج کل بجلی کے کھمبوں پر چڑھ کر احتجاج کرنا خاصا مقبول ہورہا ہے۔اسی منفرد احتجاج سے متاثر ہوکر سابق وزیراعظم نے ’’ مجھے کیوں نکالا‘‘ کی ملک گیر مہم شروع کی۔ جس کا ثمر انہیں لودھراں میں تحریک انصاف کی نشست چھن جانے کی صورت میں مل چکا ہے۔


شیئر کریں: