Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

انسانی سمگلنگ کا غیر قانونی دھندہ…………. رحمت اللہ شباب

Posted on
شیئر کریں:

انسانی سمگلنگ ایک انتہائی شرمناک اور انسانیت سوز عمل ہے کسی بھی معاشرے میں اس بات کی اجازت نہیں دی جاتی کہ انسانوں کو سمگل کرکے دوسرے ممالک میں بھیجا جائے ۔حالیہ دنوں میں یہ خبر منظر عام پر آئی ہے کہ غیرقانونی طور پر لیبیا جانے والی ایک کشتی ڈوب گئی جس میں 11پاکستانی شامل تھے ۔ اس واقعہ سے پچھلے ماہ پہلے بھی اس طرح کا ایک واقعہ ایران میں پیش آیاتھا ۔ جن میں 7 پاکستانی نوجوانوں کو گولیاں ما کر ہلاک کردیاگیا تھا ۔ اور اس طرح کے واقعات وقفہ وقفہ سے رونماہوئے ہیں لیکن حکومت کی طرف سے تاحال کوئی اقدامات نہیں کئے گئے ہیں ۔ جس کی وجہ سے انسانی سمگلنگ میں ملوث گروہ منظم ہوچکی ہیں ۔ اور شہریوں کو بیرون ممالک بجھوانے کا جھانسہ دے کر لوٹنے کا دھندہ زور پکڑا گیا ہیں ۔ یورپ اور عرب ممالک کا اچھا ویزاں اور بیرون ممالک میں پرکشش نوکریاں دلانے کی آڑ میں اور پول کمپنیوں کے کارندے جعلی ایجنٹ سادہ لوح شہریوں کو ورغلاء کر سرخ باغ دکھاتے ہوئے لاکھوں روپے ہتھیانے کے بعد رفوچکر ہوجاتے ہیں ۔ بیرون ممالک جانے کے خواہشمند نوجوان سے کثیر رقم مانگی جاتی ہے ۔ نوجوان کو اپنی نوکری کے لئے یہ رقم معمولی لگنے لگتی ہے چنانچہ وہ ادھار لے کر یا اپنی چیزیں فروخت کرکے یہ رقم اکھٹی کرتے ہیں ۔ کچھ لوگ تو اپنی ماہ بہن کے زیور اور کچھ اپنی گھرجائیداد تک فروخت کرکے یہ رقم اکھٹی کرتے ہیں ۔ اور صرف اس لئے کہ دوسرے ملک جاکر کمانے کے قابل ہوجائیں گے ۔ تو رقم واپس کردینگے ان کے بھی خواب ہوتے ہیں کہ ہم ترقی کرینگے ہمارے گھر خوشحال ہونگے کوئی بہن کی شادی کوئی گھر تو کوئی والدہ یا والد کا علاج جیسے ارمان لے کر گھر سے نکلتا ہے ۔ اور اس سارے عمل میں وہ یہ بھول جاتا ہیں کے وہ غیرقانونی کام کررہے ہیں ۔ اور اس راستہ میں جہاں کا میابی کے امکانات ہے تو وہاں راستے میں بھوک اوریا پھر موت بھی آسکتی ہیں ان تمام خطرات کے باوجود نوجوان اپنے وطن کو چھوڑ دیتے ہیں ۔ دوسرے ممالک جانے والے تیار نوجوانوں سے پہلے کثیر رقم وصول کی جاتی ہے اور پھر ان کو کراچی بھیج کر انہیں دوسرے ایجنٹ کے ہاتھوں فروخت کردیا جاتا ہے ۔ یہ ایجنٹ ان نوجوانوں کو گوادر سے ایران بارڈر لے جاتے ہیں ۔ او روہاں ان کو ایک اور ایجنٹ کے ہاتھوں فروخت کرددیا جاتا ہے ۔ پھر وہاں سے یورپ جانے والوں کو ترکی اور عرب ممالک کو جانے والوں کے خاندانوں کو میت وغیرہ پہنچادیاجاتا ہے ۔ اس پورے کھیل میں دو راستوں کو استعمال کیاجاتا ہے پہلے راستہ زمینی ہے جبکہ دوسرا راستہ سمندری ،غیر قانونی طریقے سے زمینی راستہ پر لے جانے والے نوجوانوں کو مال بردار کنٹینرز میں بند کرکے سامان کے ساتھ میلوں سفر طے کرنے ہوتے ہیں اس میں اکثر بھوک کی وجہ سے یہاں دم توڑنے سے ہلاک ہوجاتا ہیں ۔ زیادہ تر نوجوان پہاڑوں سے کبر جاتے ہیں جبکہ کچھ جنگی جانوروں کا خوراک بن جاتے ہیں ۔اور کچھ کو تو پولیس کے حوالے کردیاجاتا ہیں اور ان سے اپنا انعام وصول کرتے ہیں دوسرے راستہ سمندری ہے جو اس سے بھی زیادہ مشکل تر ین راستہ ہے ۔ اس راستہ میں جب ایجنٹ کو پکڑنے کا خوف ہو اورسمندری فوجیں نزدیک آرہی ہوں تو وہ ان نوجوان کو خود سمندر میں پھینک دیتے ہیں ۔یہ شرمناک کام کرتے ہوئے وہ زرہ بھی نہیں سوچتے کہ انہیں پیسے مل چکے ہیں اور سمندر کے دوسرے پار بھیجنے والوں سے ان کے جیب تک خالی کیاجاتا ہیں ۔ ان سے تمام ضروری اشیاء تک لئے جاتے ہیں ۔ بنیادی طور پر یہ کام پاکستان ،ایران اور ترکی جیسے ترقی پذیر ممالک میں زیادہ رائج ہے کیونکہ لوگوں کو روزگار کی بہتر سہولیات میسر نہیں ہوتھیں اس انسانی سمگلرز کو الزام دینے سے معاشرے میں اس برائی کو ختم نہیں کیاجاسکتا اس حرکت کیلئے نوجوان کے والدین اور حکومت برابر کی شریک ہوتی ہے حکومت کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ ہنر مند نوجوان کو روزگار کی مناسب سہولیات فراہم کرے ۔ ان کی بنیاد ی ضروریات کو پورا کرنے کی طرف خاطر خواہ توجہ رکھے ہوئے ہیں ۔ایسی صورتحال میں جب شہریوں کو ان کا جائز حق نہ مل رہا ہوتو قانونی طریقے پر عمل کرکے بھی ان کے گھر والوں کا پیٹ نہ بھر رہا ہو تووہ غیر قانونی راستہ اختیار نہ کریں تو کیا کریں ۔اس کے علاوہ والدین کو اس لئے الزام دیاجاتا ہے کہ وہ اپنے بڑے بیٹے پر انتہائی بوجھ ڈال دیتے ہیں غریب گھرانوں میں یہ رواج عام ہے کہ بڑے بیٹے کو شروع سے ہی یہ نصیحت کردی جاتی ہے کہ تو ہی ہمارے وارث ہے اور تو ہی اپنے بہن بھائیوں کا خیال رکھے گا ۔ گھر کے ایک فرد پر جب ذمہ داری ہوتو ملک کے حالات انتہائی خراب ہو تو ایسے میں اولاد کو پہلا خیال غیر قانونیت کا آتا ہے ۔ انسانی سمگلنگ کے اس انسانیت سوز عمل پر اگر ہم چاہے تو قابو پا سکتے ہیں اس کے لئے حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے بارڈر پر سیکورٹی کو مزید سخت کرکے غیر قانونی طور پر آنے والے لوگوں پر کڑی نظر رکھیں۔اس کے علاوہ وہ حکومت کو ایسے مواقع فراہم کرنے چاہیے کہ وہ غیر قانونی راستہ کو اختیار کرنے پر مائل نہ ہو ں او رپولیس کو بھی انسانی سمگلنگ میں ملوث افراد اور گروہوں کو گرفتار کرنا چاہیے ۔ اس شرمناک دھندے میں ملوث ٹریول ایجنسیاں اور انکے کار خاص زندہ دلیری سے لوگوں کو سرعام لوٹ رہے ہیں۔اور قانون نافذ کرنے والے ادارو ں کی چشم پوشیی کے باعث غریب گھرانوں کے نوجوان سہانے سرکنے سجھانے میں اپنے رقوم سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔اور بعد میں ان ایجنٹ کے ہاتھ جو زلالت اکھتا تے ہیں وہ ایک الگ بات ہے ۔فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کے پاس روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں درخواستیں وصول ہوجاتی ہیں اور یوں وہ ایک نئی مصیبت میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ ایف آئی اے کی کارروائی کا طریقہ کار اس قدر مشکل اور لمبا ہے کہ درخواست گزار اپنی کارروائیاں ادھورا چھوڑ دیتے ہیں ۔انسانی سمگلنگ میں ملوث ٹریول ایجنسیاں ڈیپارٹمنٹ آف ٹور سروس سے رجسٹرڈ اور لائسنس ہولڈر ہے جو ایجنسیاں غیرقانی یہ لائسنس کے بغیر شہریوں کو بیرون ملک بھیجنے کا جھانسا دے کر لوٹ مار کررہی ہیں ۔ان کے خلاف عملی کارروائی درخواست کے بغیر کیوں کی جاتی اس وقت چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں ان ایجنسیوں کے پاس ایسے ٹریول ایجنسیوں کی لمبی فہرستیں موجود ہیں جو نان رجسٹرڈ ہیں ۔کیااخبارات میں شائع شدہ اشہارات کے بارے میں کسی حکومتی سطح کے کسی حکومتی نمائندے نے پوچھنا گورا کیا کہ ان ایجنسیوں کے معزز شیخ صاحبان کو پاکستانی ڈرائیور سیکورٹی گارڈ ،کمپنی اپلائی ،آفس اسسٹنٹ یا کار پینٹرز ،مستری وغیرہ کے جو بندے ان کو درکار ہوتے ہیں کیا وہ بھی رجسٹرڈ ہے یا نہیں ؟ پنجاب کے زیادہ تر دیہات میں مقیم نوجوانوں کیلئے ملک سے باہر جانا اور خاص طور پر یورپ پہنچنا ایک خواب کی مانند ہے لوگ سوچتے ہیں کہ یہاں مزدوری کی تو چند ہزار ملیں گے جبکہ بیرون ملک لاکھوں روپے میں تنخواہ ہوتی ہے پنجاب کے اضلاع گجرات ،منڈی بہاؤالدین ،سرگودھا ،گوجر نوالہ ،سیالکوٹ اور دیگ علاقوں اور شہروں کے ہر گھر کی یہی کہانی ہے لوگ سوچے سمجھے بغیر ایجنٹوں کو لاکھوں روپے دے کر غیر اقنونی طور پر بس ملک سے باہر جانے کا راستہ ڈھونڈتے ہیں اور اس صورتحال میں ایجنٹوں کی موجیں ہوتی ہیں پاکستان سے دبئی کی فلائٹ کے بعد وہ کسی بھی افریقن ملک کا ٹورسٹ ویزہ لگواتے ہیں وہاں پہنچ کر یا تو گاڑی ورنہ کشتی سے لیبیا پہنچ جاتے ہیں اور وہاں سے پھر کشتی سے یورپ میں انٹری لیتے ہیں۔ یاد رہے کہ لیبیا میں حادثے میں ڈوبنے والے زیادہ تر پاکستانیوں کا تعلق صوبہ پنجاب کے شہر منڈی بہاؤالدنی ،گجرات اور سرگودھا سے ہے


شیئر کریں: