Chitral Times

Apr 18, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

صدا بصحرا…………سیکیورٹی والا غیر محفوظ کیوں؟…………… ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on
شیئر کریں:

سیکیورٹی کا لفظی مفہوم حفاظت اور تحفظ لیا جاتا ہے۔ چترال اور دیر کو ملانے والے 10500 فٹ درّے پر مٹی خوڑ کے قریب برفانی تودے کی زد میں آکر ہلاک ہونے والے دو سیکیورٹی گارڈز کی لاشیں ایک ہفتہ کی تلاش کے بعد نکالی گئیں۔ سیکیورٹی گارڈ نور محمد کے ہمراہ اس کا بیٹا عبید اللہ بھی ہلاک ہوا جب کہ اس کا داماد رفیق زخمی حالت میں برف سے نکالا گیا تھا۔ ڈیوٹی کے دوران مرنے والے نور محمد کے بارے میں دوسری افسوس ناک خبر یہ آئی کہ وہ ٹیلیفون کے ٹاور کی حفاظت پر مامور تھا۔ بیٹا بھی سیکیورٹی گارڈ تھا۔ داماد اس کے ہمراہ تھا۔ اور تیسری افسوسناک خبر یہ اخبارات میں شائع ہوئی کہ محکمہ ٹیلی فون نے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے۔پاکستان ٹیلی کمیو نی کیشن لمیٹڈ اور اتّصالات نے دو ٹوک الفاظ میں خبر شائع کرائی ہے کہ مرنے والے اس کے ملازم نہیں تھے۔ ایک نجی سیکیورٹی ایجنسی کی طرف سے پی ٹی سی ایل ٹاور پر ڈیوٹی دے رہے تھے۔ مرنے والوں کے کاغذات کی جانچ پڑتال سے معلوم ہوا کہ سیکیورٹی ایجنسی ماہانہ 8ہزارروپے تنخواہ دیتی تھی۔ پنشن ، انشورنس اور دیگر مراعات کے وہ حقدار نہیں تھے۔ مزید تحقیق سے معلوم ہوا کہ وطنِ عزیز میں دہشت گردی آنے بعد سیکیورٹی کو غیر محفوظ کرنے کا کاروبار بنایا گیا ہے۔ ایک با اثر شخص ایک آنہ پیسہ خرچ کئے بغیر سیکیورٹی کا پرائیوٹ کاروبار کھولتا ہے۔ سیکیورٹی مانگنے والے دفتروں سے ایک سیکیورٹی گارڈ کے لئے 16ہزار روپے سے لیکر 30ہزار روپے تک کی تنخواہ طے کرتا ہے مگر سیکیورٹی گارڈ کو 6ہزار روپے سے لیکر9ہزار روپے تک تنخواہ دیتا ہے۔ ڈاکوؤں اور دہشت گردوں کے حملے میں مارا جائے تو اس کے پسماندہ گان کو ایک پائی بھی نہیں ملتی۔ بلکہ 13تاریخ کو سیکیورٹی گارڈ مر جائے تو 12دنوں کی تنخواہ دی جاتی ہے۔مرنے کے دن کی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے۔ ٹیلی فون کے ٹاور کی حفاظت بینک ، سکول اور دیگر دفاتر سے بھی زیادہ حساس معاملہ ہے۔ کوئی بھی واقعہ ہوجائے تو پہلے ٹیلی فون ٹاور اور مواصلات کے ذرائع پر نظر پڑتی ہے۔ جنرل مشرف اپنی خود نوشت سوانح عمری’’ ان دی لائن آف فائر‘‘ میں بہت ساری سبق آموز واقعات کے علاوہ ٹیلیفون ٹاور کا واقعہ بھی لکھا ہے۔ 12اکتوبر کی رات کو مسلح افواج نے پرائم منسٹر ہاؤ س ، ایئر پورٹ کے مواصلاتی نظام، ریڈیو پاکستان اور پی
ٹی وی کا کنٹرول سنبھالنے کے ساتھ ساتھ ٹیلی مواصلات کے تمام ٹاورز کا کنٹرول بھی سنبھال لیا۔ کراچی ایئر پورٹ کے کنٹرول ٹاور پر محاذ اتھارٹی کی طرف سے تھوڑی سی مزاحمت ہوئی۔ لاہور میں ایک نجی موبائل فون کمپنی کے ٹاور پر سیکیورٹی گارڈ نے آرمی کے کپتان کو کنٹرول دینے سے یہ کہہ کر انکار کیا کہ تم میرے آفیسر نہیں ہو۔ میں اپنے آفیسر کی اجازت کے بغیر کنٹرول تمہارے ہاتھ میں نہیں دے سکتا۔ مشرف لکھتا ہے کہ’’ آدمی غیرت مند تھا ہمارے جوانوں نے اس کو قابو کرلیا‘‘۔ اس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ٹیلی مواصلات کا ٹاور بھی پرائم منسٹر ہاؤس اور پی ٹی وی کی طرح اہم مقام ہے۔ یہ ٹاور 10500فٹ کی بلندی پر ہو تو اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ یہ ٹاور افغانستان اور بھارت کی سرحد کے قریب ہو تو اس کی اہمیت میں 10گنا اضافہ ہوتا ہے۔ یہ کتنی ستم ظریفی ہے کہ ٹیلی مواصلات کے ٹاور کی سیکیورٹی کا سسٹم ایک غیر ذمہ دار تاجر کی غیر ذمہ دار کمپنی کو سونپ دیا جاتا ہے۔ اور یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن لمیٹڈ( PTCL) انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ اخباری بیان جاری کرتی ہے کہ ٹاور پر ڈیوٹی دینے والے سیکیورٹی گارڈز کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق اور رشتہ نہیں ہے ۔ یہ ایک دوسری کمپنی کے ساتھ تعلق رکھتے تھے۔ اسی طرح ڈکیتی کی واردات میں بینک کے دو ملازم جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ایک ملازم بینک سے تنخواہ لیتا تھا۔ اس کے پسماندہ گان 45لاکھ روپے کے ساتھ پنشن بھی ملتی ہے۔ دوسرا نجی سیکیورٹی کمپنی کا ملازم تھا اس کوایک دھیلا بھی نہیں ملتا۔ بینک حکام کہتے ہیں کہ یہ’’ سالا ‘‘ہمارا ملازم نہیں تھا۔ این جی اوز کے دفاتر کا بھی ایسا ہی حال ہے ۔ سیکیورٹی کے منافع بخش کاروبار میں ایک پائی کا خرچہ نہیں ہے۔ گھر بیٹھے ایک بڑے تاجر کو ہر ماہ لاکھوں روپے کی آمدن ہوتی ہے اور یہ آمد ن سیکیورٹی کے نام پر آتی ہے۔ مگر جو بندہ سیکیورٹی کی ڈیوٹی دیتا ہے اپنی جان پر کھیلتا ہے اس کی مثال ایک بندر جیسی ہے سیکیورٹی ایجنسی کا مالک بندر کو نچوانے والا مداری ہے وہ لاکھوں کماتا ہے بندر کو دو وقت کی روٹی دے کر کہتا ہے بچہ جمورا ! ناچو اور تماشا دکھاؤ۔ لواری ٹاپ پر برفانی تودے کی زد میں آکر مرنے والے نور محمد اور عبید اللہ کے قتل کی ایف آ ئی آر پی ٹی سی ایل اور نجی سیکیورٹی ایجنسی کے خلاف درج کرانے کی کوششیں جاری ہیں۔ اگر ایف آئی آر درج ہوئی تو پوسٹ مارٹم رپورٹوں کی روشنی میں اگلے 25سالوں تک مقدمہ چلے گا۔ مگر یہ مسئلے کا حل نہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے چیف جسٹس سے سوموٹو ایکشن لینے کا مطالبہ کیا ہے ۔ اس کا نتیجہ بھی صفر ہوگا۔ اس سلسلے میں جی او سی خوازہ خیلہ ، کورکمانڈر پشاور اور چیف آف آرمی سٹاف اگر انکوائری کا حکم دے دیں سیکیورٹی کے حساس ترین کام کو غیر محفوظ بنانے والی نجی سیکیورٹی ایجنسیوں کے کاروبار کی چھان بین کرائیں اور مزدور کی کم سے کم اجرت 16ہزار روپے ماہانہ تنخواہ کے ساتھ انشورنش ، پنشن اور دیگر مراعات دینے کا حکم دیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
6339