Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سلام ہیڈ ماسٹر صاحب! ………..تحریر: رحمت ولی خان

Posted on
شیئر کریں:

حوصلہ افزائی انسان کی سوچ کو وسعت دینے کے ساتھ ساتھ مثبت تبدیلی کا بھی باعث بنتی ہے ۔ حوصلے سے سوچ پروان چڑھتی ہے، مثبت سوچ سے احساسات جنم لیتے ہیں، احساسات جزبات کو تحریک بخشتے ہیں، جزبات سے انسان کے اندر انرجی پیدا ہوتی ہے، یہ انرجی انسان کو بدل کے رکھ دیتی ہے اور جب انسان بدل جاتا ہے تو معاشرہ بھی بدلنے لگتا ہے اور پھر جہالت کے اندھیرے گھٹنے لگتے ہیں، علم کا نور پھیل جاتا ہے، اچھائی لوگوں کی خاصیت بن جاتی ہے اور انصاف معاشرے کی طاقت بن جاتا ہے۔
مگر حوصلہ دینے کے لئے بھی انسان میں حوصلے کا وجود ضروری ہوتا ہے اور بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بہت کم لوگوں میں یہ حوصلہ پایا جاتا ہے۔ ہم برے کو برا کہنے میں دیر نہیں کرتے مگر کسے اچھے کی اچھائی کی تعریف کرتے ہوئے کتراتے ہیں ۔ ہم حوصلہ نہیں دیتے ہم شکریہ ادا نہیں کرتے اور شاید اسی وجہ سے ہمارے ملک میں اچھے لوگوں کی اہمیت نہ ہونے کے برابر ہے۔
اس کی ایک مثال بیان کرتا ہوں، یہ کہانی ایک سکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب کی ہے جس نے دن رات محنت کرکے سکول کا نقشہ ہی بدل دیا اور اپنے لگن سے سکول کو ایک بہترین درس گاہ بنانے میں اپنا کردار ادا کیا مگر آج تک کسی نے ان کے اس کارِ خیر کی داد رسی نہیں کی۔
گورنمنٹ ہائی سکول چوئنچ کا شمار سب ڈویژن مستوج کے اہم تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے۔ اس سکول سے سینکڑوں  بہترین طالب علم ایسے نکلے ہیں جو آگے جاکر ملک و قوم کی ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔ اس سکول کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہاں کھوژ، کارگن، چپاڑی اور چوئنچ سمیت گاؤں پرکوسپ سے بھی طلباء و طالبات پڑھنے کی غرض سے آتے ہیں ۔ مگر افسوسناک بات یہ تھی کہ ماضی میں سکول کی اہمیت کے باوجود کسی حکومتی ادارے نے اس کی ترقی و کامرانی پر توجہ نہیں دی۔ یہ سکول کئی دہائیوں تک بغیر چار دیواری کے چند کمروں پر محیط رہا۔ اس سکول میں ٹیچنگ اسٹاف کی کمی کبھی پوری نہیں ہوتی تھی۔ طلباء و طالبات پینے کے صاف پانی تک سے محروم تھے، کھیلنے کے لئے گراونڈ نہیں تھا اور کمرہِ جماعت کم پڑ جانے کی وجہ سے طالب علم موسمی سختیوں کے باوجود کھلے اسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور تھے۔
پھر سال 2015 میں سکول کی چارج مردِ مجاہد محترم ہیڈ ماسٹر عبدالحاکم صاحب نے سنبھالا ۔ ان کی امد کے ساتھ ہی سکول کی تقدیر بھی بدل گئی۔ انھوں نے آتے ہی سکول کو ترقی دلانے کا عہد کیا اور دن رات کوشش کرکے اپنی اس نیک کاوش میں کامیاب ہوگئے۔ تعلیمی ایمرجنسی کی دعویدار حکومت کے ڈھائی سال گزرنے کے باوجود بھی سکول کی حالت زار پر کسی کو رحم نہیں آیا تھا تاہم ہیڈ ماسٹر صاحب نے آتے ہی حکومتی اداروں سے تعاون کی اپیل کی اور جب نیت صاف اور ارادے پکے ہوں تو کائنات خود بخود ساتھ چلنے لگتی ہے۔ شکر ہے کہ حکومتِ وقت نے بھی ان کا ساتھ دیا اور آج اس سکول کا شمار چترال کے شاندار تعلیمی اداروں میں ہونے لگا ہے۔
پہلے اس سکول کی چاردیواری تک نہیں تھی مگر آج سکول کو 398 فٹ لبمی جبکہ آٹھ سے دس فٹ اونچی دیوار پر مشتمل ایک شاندار چاردیواری میسر ہے۔ دیوار کے اوپر خاردار تاریں بھی لگائی گئی ہیں جبکہ ایک نہایت ہی شاندار مین گیٹ بھی نصب کیا گیا ہے جو سکول کی حفاظت کے لئے بہت ضروری تھا۔ پہلے سکول میں کھیلنے کے لئے میدان نہیں تھا مگر آج ایک محفوظ چاردیواری کے اندر اور 6 چکورم رقبے پر پھیلی زمین پر وسیع و غریض اور ہموار گراونڈ طلباء کو میسر ہے۔ نہ صرف طلباء کو بلکہ طالبات کے لئے بھی الگ، باپردہ اور محفوظ ترین گراونڈ بنایا گیا ہے جس میں وہ ہلکی پھلکی گیمز کھیل کر خود کو فِٹ رکھنے کی کوشش کرتی ہیں ۔
پہلے سائنس کی تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی آج 4 قابل ترین اساتذہ کرام سائنس کے مضامین پڑھا کر طالب علموں کو روشن مستقبل دینے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ۔ پہلے سکول پینے کے صاف پانی سے محروم تھا آج سکول کے احاطے میں 75 فٹ گہرے کنواں سے صاف و شفاف پانی نکالا جاتا ہے اور اس کے علاوہ پائپ لائن کے زریعے بھی سکول میں پانی کی سہولت فراہم کی گئی ہے ۔ پہلے سکول میں کمپیوٹر لیب کا تصور بھی نہیں تھا مگر آج سکول میں جدید ترین کمپیوٹر لیب میسر ہے جن کو اوپریٹ کرنے اور پڑھانے کے لئے دو اسٹاف بھی ڈیوٹی پر مامور ہیں ۔
پہلے سکول میں کلاس رومز کی کمی تھی مگر ان تین سالوں کے دوران 2 آر-سی-سی کلاس رومز بھی تعمیر ہوئے، 2 عدد واش رومز بھی بنائے گئے اور سکول کی خوبصورتی، مرمت اور آرائش پر بھی کام ہوگیا۔ پہلے سکول کے نتائج خوش آئند نہیں تھے آج سکول 90 فی صد نتیجہ دے رہا ہے،  آج سکول میں تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ اخلاقی و جسمانی تربیت اور زہنی نشونما پر بھی توجہ دی جاتی ہے ۔ آج سکول میں بزمِ ادب بھی فعال ہے جس کے زریعے ماہانہ ادبی و ثقافتی تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے، طلباء و طالبات ان تقاریب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور ان کے اندر موجود مخفی صلاحیتوں کو ڈھونڈ نکالنے اور پروان چڑھانے میں مدد ملتی ہیں ۔
ہیڈ ماسٹر عبدالحاکم صاحب 1987 سے محکمہِ تعلیم میں درس و تدریس اور انتظامی امور سے وابستہ ہیں، سال 2008 سے 2012 تک بطورِ اے-ڈی-او ایجوکیشن آفس بونی بھی خدمات انجام دے چکے ہیں اور شاید سال ڈیڈھ سال بعد اپنی ملازمت سے ریٹائرڈ ہوجائیں گے ۔
لیکن گورنمنٹ ہائی سکول چوئنچ کے لئے ان کی دن رات کی خدمات (جو کہ ابھی بھی جاری ہیں)  کبھی فراموش نہیں ہوں گی ۔ میں ہیڈ ماسٹر صاحب کی تعلیمی درسگاہ کی ترقی و کامرانی کی خاطر ان انتھک کوششوں کی بنا پر انھیں سلام پیش کرتا ہوں اور یہ میری دلّی خواہش ہے کہ اس مردِ مجاہد کو حکومتِ وقت کی جانب سے اعزاز سے نوازا جائے تاکہ ان کے ماتحت کام کرنے والے ملازمین بھی ان کے نقشِ قدم پر چل کر معاشرے میں مثبت تبدیلی کی وجہ بن جائیں ۔

شیئر کریں: