Chitral Times

Apr 25, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

کُنجِ قفس………. رشتہ۔۔۔۔شناختی کارڈ تک………الطاف اعجازاؔ گرم چشمہ

Posted on
شیئر کریں:

ایک تو میں تھا ہی جذبات میں بہہ جانے والاجاہل اور بے قوف اور اوپر سے میرے شہر میں سیاست اور انتخابات کے موسم زوروں پر تھیں۔کوئی لاوڈ اسپیکر لیکر با آواز بلند آپنی سیاست چمکانے میں مصروف تھا تو کوئی ڈگڈگی لے کرگھر گھر حاضری دیتے ہوئے ووٹ مانگ کر چلا جاتاتھا ۔ اسی طرح جب آنے والے نے اپنی سحر انگیز دکانداری کے ساتھ مجھے رشتہ دار ٹہرایا(یاد رکھو یہ تمہارا بھی رشتہ دار ہے ) تب مجھے یاد آیا کہ یہ تو وہی رشتہ دار ہے جو پانچ سال پہلے میرے غریب خانے میں تشریف لا ئے تھے۔عمر میں کافی بڑی تھیں پھر بھی سلام دعا کے معاملے میں اتنا عاجز اورنرم کہ بس پاؤں دھو دھو کے پی رہا تھا اس کی خطا یہی تھی کہ پانچ سال غائب رہا۔خیر جو بھی ہو، خاطر داری ہوئی، احترام کی اوراسے بیٹھایا گیا مگر اس کے چہرے پر خجلت کے آثار نمایان دیکھائی دے رہے تھے، ایسے جیسے اس نے بڑی کوئی امانت چیز غبن کی ہو اور چپا رہا ہو۔حرکات و سکنات سے صاف صاف دیکھائی دے رہا تھا کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ میں حیران تھا کہ میرے غریب خانے میں ایسے عظیم ہستی کی آمد، ایسے بے ضمیر کی آمد! بے ضمیری میں ایک ایسی عظیم آدمی جو تھوک کر چاٹنے کو تیار رہتا ہے بشرطیکہ مطلب بر آئے۔ جب باتیں کرتے کرتے اپنی چرب زبانی میں تھوڑا پھیلنے لگا تو سمجھ میں آیا کہ میرا رشتہ دارسارے گاؤں میں گھر گھر چکر لگا کر بلکہ ٹھوکریں کھا تا ہوا میرے غریب خانے میں پہنچا ہے۔ اس کی باتوں میں حیرت انگیز قسم کی پچیدگی تھی،جو کہ اس کا پیشہ ہے ۔ایسی لچکدار اور زیروبم گفتگو کہ سننے والا سحر میں مبتلا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتاتھا اور اگر سننے والاایک جاہل ہو تواس کی ہر بات پر تن من دھن لٹانے کو تیار ہوتاجس کا زندہ مثال بندہ خود ہوں۔ورنہ ایک تعلیم یافتہ انسان اس قسم کی گفتگو کے آغاز میں ہی ٹوکتا اور سوچتا کہ آخر یہ چرب زبانی کیوں کی جا رہی ہے۔غور سے دیکھو تو میرا یہ رشتہ دار جاہلوں کے پاس جاکر انتہائی مہارت سے بات منواتا ہے، مگر جس جس کو تھوڑا شعور ہے ان کے پاس اول تو یہ جاتے نہیں کیونکہ وہ لوگ چوراہے پر ہی ہنڈیا توڑکے رکھ دیتے ہیں، اور اگران کے پاس جاتے بھی ہیں تو اِن کی گفتگوکو سانپ سونگھ جاتی ہے،پریشاں رہتے ہیں ، شرمندہ رہتے ہیں، پسینے سے شرابور ہوجاتے ہیں۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ د نیامیں سارے سفر طے ہو سکتے ہیں مگرکسی کے نظروں سے گر کر رسائی کا سفر کبھی طے نہیں ہوتا۔ وہ آئے تھے انتہائی مختصر مدت کے لئے کیونکہ اسے آگے بھی بعض رشتہ داروں کے گھر جانا تھا، اگرچہ مختصر وقت میں اپنا الف لیلی سنا یا مگر اب کی بار ا تنا نچے گر گیا کہ بس پستی کو بھی انسان کی ایسی حرکت اورساتھ میں لفظ ’ اشرف‘ کو اسی انسان کے ساتھ ملقب دیکھ کرشرم آئے۔سنا تھا کہ اکثر بچے بزرگوں کے ہاتھ احتراماً چوما کرتے ہیں،مگر میرے رشتہ دار نے یہاں اپنی الجھاؤبھری خوشامدی میں الٹا کرکے چل دیا۔۔۔بزرگ بھی بچوں کے ہاتھ چومیں گے،اور وہ بھی اپنی ضرورت نکالنے کے لئے۔۔۔ توبہ توبہ! ایک لمحے کے لئے میں نے زمانے کوہی الٹا محسوس کیا تھا ۔ ۔۔ سیاست ہے کیا کی جائے سب چلتا ہے ، اور اگر سامنے والا بے قوف ہو تو ایسے موقعوں پرگدھے کو بھی باپ بنا یا جاتا ہے ۔ یہ آپ کا بھی رشتہ دار ہے، آپ کے ہمسایے کا بھی، اس کے ہمسائے کا بھی ۔ دراصل یہ ہر اُس آدمی کا رشتہ دار ہے جس کے پا س شناختی کارڈ ہو۔یہ وہ آکاس بیل یا وقت کا وہ کھٹمل ہے جو تمہا رے کان کے نیچے رہ کر تمہا را خون چوستا ہے اور تمہیں علم تک نہیں ہوتا، یہ وہ ماہر کلہاڑ ہے جو تمہارے ہی کلہاڑی سے تمہارے پاؤ ں کاٹتا ہے ، اور تمہیں علم نہیں ہوتا،یہ وہ بازی گر ہے جس کو شطرنج الجھا نا خوب آتا ہے،جس کا اصول ہے کہ گڑدیا جائے گڑ،زہر نہیں۔اور گڑ سے کام چلانے میںیہ ماہر ہوتا ہے،ایک ایسا چور جس کی چوری کوایک جاہل آدمی عزت سمجھ کر چور کا احترام کرنے لگتا ہے،ایک ایسا ڈاکو جس کی مجرمانہ حرکت کو ایک جاہل بہادری سمجھتا ہے اور فخر کرتا ہے،ایک ایسا گرگٹ جو ذرّے میں بیٹھ کر صحرا کو دھوکہ دینے کی اہلیت رکھتا ہے، ایک ایسا جراثیم جو ایک قطرے میں رہ کرسمندر کو نگل جاتاہے۔ ایک ایسا مکارشخصیت جو اپنے موسم میں تھوک کر چاٹ لے اور نظریں بس ضرورت پر ٹکی ہوں ۔ بحرحا ل براجماں رشتہ دار نے جتنی بھی کڑیان ملا سکتی تھی ملا کر اپنے رشتہ دار ہونے کا ثبوت پیش کیا، مگر ابھی تک جو کہنا تھا وہ دل میں ہی گرداب کھا رہی تھی یا جس کام کے لئے آئے تھے وہ نہ بتا سکے تھے، اور بتانے کی کوشش میں مصروف تھے، نہ جانے کیوں بتا نہیں پا رہے تھے ۔ اب آؤ اصل بات کی طرف ،یہ کہ اس طرح کی موسمی رشتہ داروں کا تعلق نہ آپ کے دلچسپوں سے ہے نہ اپ کے خاندان سے ہے، اورنہ ہی یہ آپ کا صحیح معنوں میں رشتہ دار ہیں۔۔۔ان کا آپ کے پریشانیوں سے رتی بھر کا بھی شوق نہیں۔۔۔ تم سرے راہ پیاسے مر جاؤ مگر یہ تمہیں اٹھا کے ایک قطرہ بھی نہیں دینگے بلکہ تمہیں مرنے کو چھوڑکر ملنے والے قطرے کو الٹا اپنے مٹکے میں ڈال کے چلے جائینگے۔ یہ وقت کے بیٹے، بس زندہ رہتے ہیں اور لوگوں کے خون چوس کر گودے تک پہنچ جاتے ہیں۔میرے ، آپ کے اور ہم جیسے ایک غریب کے ساتھ ان کا صرف ایک ہی رشتہ ہے، اور اگر غور کرو تو ہمارے ساتھ نہیں بلکہ ہمارے جیب میں ہمارے شناختی کارڈکے ساتھ ان کا اصل رشتہ ہے، اوراگر مزید غور کرو تو یہ رشتہ بھی موسمی ہے ، جو پانچ سال بعد چند لمحوں کے لئے زندہ ہوجاتا ہے اورپھرپانچ سال کے لئے مر جاتا ہے۔جیسا کہ آج میرے سامنے یہ رشتہ چند لمحوں کے لئے بلبلا رہا تھا۔ خیر ! رشتہ دار کے دل کی بات آخر کو منہ پہ آہی گئی۔ اس نے انتہائی مہذب اور شائشتہ انداز میں یا دوسرے لفظوں میں انتہائی بے ضمیری کے ساتھ بولا کہ اس بار اسے ووٹ دے کر خدمت کا یا خون چوسنے کا موقع دینا چاہئے۔ اس نے اپنا انتخابی نشان بھی بڑے وضاحت کے ساتھ بتا دیا، یہانتک کہ میر ے داداجان کو بھی بتا دیا کہ کہاں انگوٹھا لگانا ہے اور کس طرح لگانا ہے حالانکہ ان کی ایک پاؤں قبر پر تھی۔چونکہ میں جاہل تھا اس لئے جذبات میں بہتے ہوئے اسے یہ باور کرایا کہ پولنگ کے دن میں اپنا انگھوٹھا صرف اس کے انتخابی نشان پر ہی لگا دونگا جیسا کہ پچھلے سال کیا تھا۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
6152