Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

’’ایسا ممکن ہے‘‘ …………………….تحریر :ڈاکٹر رابعہ اختر

Posted on
شیئر کریں:

کیا یہ اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر سب سے پرانا حل طلب مسلہ نہیں ہے؟کشمیر میں جاری خون کا شور اور مظالم پر آنکھیں بندنہیں کی جاسکتیں۔ کوئی بھی قوم جب محکوم ہو جائے تو اسے عالمی حمایت کا سہارا چاہیے ہوتا ہے ۔یہ بات مسلم ہے کہ کشمیری آزادی کی بات کریں تو دنیا غور سے سنتی ہے،اور اگر یہی بات پاکستان اٹھایے تو پاک بھارت تنازعہ کہلاتا ہے ۔عالمی رائے عامہ کی آنکھوں پر بندھی سیاہ پٹی اتار کربھارت کی اس تاریخی بددیانتی کوعالمی برادری کے سامنے رکھنا ہوگا۔یہ حل طلب مسلہ ہے۔اور اس پر مؤثر خارجہ پالیسی کے ساتھ ایسے عوامل درکار ہیں جو مذکورہ مسلے کو حل کریں۔
(۱) اس وقت پوری دنیا کو تیل کی سپلائی کرنے میں مسلم ممالک پیش پیش ہیں۔ایسے میں کشمیر کی آزادی کا درد دل پیدا کر کے مسلم ممالک تیل کی سپلائی بھارت سمیت مغربی ممالک کو روک دیں۔یہ مسلم ممالک مطالبہ کریں کہ مسلہ کشمیر کو حل کیاجائے۔ یہ ایسا اقدام ہوگا کہ مغربی ممالک خاص طور پر اس مسلے کے حل میں بھارت پر دباؤ ڈالیں گے۔
(۲) OIC (اسلامی تعاون تنظیم ) کے رکن ممالک مل کر ایک لائحہ عمل طے کریں ،اور بھارت کو کشمیر کی ٹکڑی خالی کرنے کا کہیں۔ورنہ بھارت کو دو ٹوک کہ دیا جائے کہ حکم عدولی کی صورت میں تمام خلیجی ریاستوں سے بھارتی افرادی قوت کو واپس بھیج دیا جائے گا ۔اور فارن بھارتیوں پر ٹیکس کی شرح بڑھا کر وہ آمدن کشمیریوں کی آزادی پر خرچ کی جائے گی۔ یہ بات باور کرادی جائے کہ بھارت جب تک مسلہ کشمیر کے حل کے لئے سنجیدہ نہیں ہوتا ، تب تک کسی بھی خلیجی ریاست کو بطور راستہ استعمال نہیں کرنے دیا جائے گا۔چاہے وہ ایشیاء کی منڈیوں تک بھارتی رسد ہو،یا سمندری راستوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہو۔
(۳) اس وقت مسلہ کشمیر کے حل کے لئے یہ بھی ضروروی ہے کہ تمام مسلم ممالک یک جان ہو کر ایک پلیٹ فارم متفقہ رائے سے تشکیل دیں ۔اور اس پلیٹ فارم سے مسلہ کشمیر کے حل کے لئے ایک قوم بن کر مغربی ممالک پر زور دیں کہ وہ اس مسلے کے حل میں اپنی کوششیں تیز کریں،اور ان کے تعاون کو یقینی بنانے کی اپیلیں کریں۔یہ بات اس زور آور جذبے سے اٹھائی جائے کہ وہ ممالک جو بھارتی تجارت کی شہ رگ کہلاتے ہیں وہ مسلم ممالک کے ہاتھ میں آجائیں،جس سے بھارت مسلہ کشمیر کوحل کرنے پر مجبور ہوجائے۔کیوں کہ بھارتی عوام کشمیر کی خاطر بھوکی نہیں مر سکتی۔یہ جذبہ ،یہ جنون اور یہ دینی حمیت صرف اور صرف مسلمانوں میں ہے۔مسلمان خطبہ حجۃ الوداع کے ارشادات کو وراثت جان کر کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا :’’ مسلم ایک جسم کی مانند ہیں ،اگر ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم درد کرتا ہے۔‘‘ مسلم ممالک یقین کرلیں کہ اقوام متحدہ مسلہ کشمیر کو ایک ہفتے میں حل کر دے گا۔
(۴)کشمیر ایسامسلہ ہے کہ ہماری نئی نسل ہم سے ایک ہی سوال کرتی ہے کہ آخر اس کا حل کیا ہے؟ ہماری ساری کوششیں محدود وقت تک اور غیر مضبوط پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں ۔جہاں اور کئی طرح سے اس کا حل تلاشنا ہے ،وہیں ہمسایا ممالک سے بھی روابط استوار کرکے ان کی توجہ اس مسلے کی طرف مبذول کرانی ہے۔افغانستان کے ساتھ ہم اگر 60 فیصد بھی مخلص ہو جائیں، تو اس کا کشمیر کے مسلے پر قابل قدر پیغام مل سکتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آج بھارت افغانستان کے قریب ،اور کشمیر ہم سے دور ہوگیا ہے۔حکومت وقت کواب آنکھیں کھولنی ہوں گیں اور اپنے پڑوسی ممالک ایران، افغانستان ، ازبکستان ، چین ، سے تعلقات اس قدر مضبوط کرنے ہوں گے کہ وہ مسلہ کشمیر کے حل کے لئے ہر محاظ پر ہمارے کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑے ہوں۔چین کا تعاون ’’سی پیک‘‘ سے بہت مضبوط ہوا ہے ،یہ قابل صد تحسین ہے۔پاک چین دوستی بھی مثالی ہے۔چین کامستقبل جس طرح روشن نظر آرہا ہے،’’ یوآن‘‘ نے ڈالر کو مات دے دی ہے۔بھارت بھی آنکھیں پھاڑے چین کی طرف دیکھ رہا ہے ۔تو چین کے تعاون سے بھارت کو مسلہ کشمیر کے حل پر برانگیختہ کیا جاسکتا ہے ۔اس سے بہتر اور جلد نتائج کی توقع ہے۔
(۵)عالمی قوتیں یہ بات جانتی ہیں کہ پاکستان ،بھارت دونوں ہی ایٹمی طاقت ہیں ۔اگر مسلہ کشمیر پر جنگ ہوئی تو ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال ہوسکتا ہے۔جس سے کثیر انسانی ضیاع ہوگا۔پھر یہ ایک کشمیر کامسلہ نہیں ،حقوق انسانی کا مسلہ ہے۔کشمیریوں کے حق خودارادیت کے غصب کرنے کا مسلہ ہے۔لہذاقوام متحدہ ،سلامتی کونسل ، عالمی قوتیں ،اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ممکنہ خطرات کی بیخ کنی کریں ۔اور اپنی ذات کو بالائے طاق رکھ کر اس مسلے پر توجہ دیں۔
(۶)عالمی دنیا یہ بات جانتی ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کا جو تصور ہے وہ خیالی یا افسانوی نہیں ہے۔یہ ایسی حقیقت ہے کہ صرف ڈھائی منٹ میں 35 کروڑ انسان لقمہ اجل بن سکتے ہیں ۔یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ کسی بھی خطے کا باشعور انسان بھی اس مسلے کے حل ،اور اس کے خطرات کو بھانپ کر اپنی بھرپور توجہ دے کر اس کے حل میں مثبت کردار ادا کر سکتا ہے ۔

(۷) مسلہ کشمیر کا حل گولی یا جھگڑے سے نہیں باہمی مذکرات خطے کے امن و استحکام اور دونوں حریف ممالک کی معاشی ، معاشرتی ، اقتصادی قوت کے لئے بے حد ضروری ہے۔یہی وج کہ دونوں ممالک اپنی آزادی سے اب تک ترقی کے وہ اہداف حاصل نہیں کرسکے ہیں جو ان کے مد مقابل دیگر ممالک نے کم عرصہ میں حاصل کئے ہیں۔کشمیر میں بھارت 70 سالوں سے جن مظالم کا ارتکا ب کرتا آرہا ہے ، مسلمانوں کی اس خاموشی پرماتم نہ کیا جائے تو کیا جائے۔

(۸) کشمیر ایشو کو لے کر دونوں فریقین کو ایک سا وقت ملا ۔ہمارے لئے اندرونی انتشار ،دہشت گردی ، کرپشن ،اور دیگر اہم مسائل درد سر بنے رہے،اور بھارت کو ان مسائل کا سامنا کم رہا ،جس کی وجہ سے وہ کشمیر پر اپنا کیس مضبوظ کرتا گیا۔اب اس کے حل میں جو سب سے بڑی مشکل پیش ہے، وہ بھارتی قیادت کو یہ بات منوانا ہے کہ وہ اس مسلے حل کے لئے اپنی ذمہ دارانہ رضامندی ظاہر کریں ۔دوسرا سول سوسائٹی ، حقوق انسانی کی تنظیمیں بھی دہلی اور بھارت کے دیگر شہروں میں آزادی کشمیر کی آواز بلند کریں ۔بھارت میں موجود کشمیریوں سمیت یورپ میں مقیم کشمیری بھی وہاں کی حکومتوں ، سیاست دانوں ، صحافیوں ،میڈیا پلیٹ فارموں ، اور عالمی تنظیموں وا قوام متحدہ کے دفتروں کو اس مسلے کی سنگینی سے آگاہ کریں ۔کیوں کہ اس مسلے پر جب تک تینوں فریق ایک میز پر اکٹھے نہیں ہوں گے، اس کی آزادی کا کوئی حل نہیں نکل سکتا ۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
6008