Chitral Times

Apr 23, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

کُنجِ قفس………..جائے پھانسی………الطاف اعجازؔ گرم چشمہ

Posted on
شیئر کریں:

خدا کرے کہ تیرے شہر میں بھی ایسا ہی ہو، تا کہ سب امید کے ساتھ زندگی بسر کریں سب کو لگے کہ اگر اس کے ساتھ نا انصافی ہوئی تو بہت جلد انصاف بھی ہوگا۔ ا ن دنوں میں جہاں رہتا تھا وہاں ایک خوبصورت شہر تھا جس کے عیں مرکز پر چوراہا تھااور ارد گرد دلکش عمارتیں اس شہر میں طرح طرح کی گہما گہمی رہتی ، اور رات ہوتے ہی دھیمی دھیمی لائٹس، اور روشنیوں کے قمقمے اس کی حسن کو دوبالا کرتے، اور وہاں کے رہنے والے ۔۔۔۔ کیا رہنے والے!۔۔۔بلکہ مرنے والے ، ایک دن میں کئی بار مرنے والے لوگ !۔ اس شہر میں زندہ مردہ لوگ رہتے تھے، ہر طرف بے حسی پھیلی تھی۔ وہاں ایک ہی اصول چلتا تھااور وہ اصول تھا ’ دنیا جائے باڑ میں، میں تو محفوظ ہوں‘۔ ہر فرد خود کو محفوظ سمجھ کر سب غیر محفوظ ہوئے تھے۔ وہاں کے حالات اس حد کو پہنچ چکے تھے کہ ہوس رقصاں تھا اور آدمی بے بس۔۔۔ دہشت اتنی پھیلی تھی کہ اس کے سامنے ہر آدمی بے بس ہو کے رہ گیا تھا، کرے تو کیا کرے ۔ایک عام آدمی کی وسیع کائنات اس کی اپنی صحن تک محدود ہو گئی تھی، اور اگر وہ دن کو باہر جاتا بھی تو شام ہوتے ہی مےئرکیٹس کی طرح سرپٹ دوڑ لگا کے اپنے گھر کو جا پہنچتا، کیونکہ شام کے بعد گلیوں میں صرف اور صرف خوف اور دہشت کی راج ہوتی تھی۔۔ اس معاشرے میں ہر نوعیت کے واردات دن رات ہوتے رہتے تھے، چوری کرنا، مارنا، مار کٹائی کرنا، سر عام لوٹنا، عزتیں پامال کرنا، فرار ہونا روز کے قصے تھے جو کسی نہ کسی کے ساتھ ضرور پیش آتا۔۔ایک عجیب بے حسی تھی، سر عام کوئی آکر ایک آدمی کو آنکھوں کے سامنے گولی مار کر چالا جاتااور ارد گرد لوگ بس دیکھتے ہی رہتے۔اس شہر کا ایک امیر تھا جو کہ نااہل تھااور عام آدمی کی آواز اس تک پہنچنے میں ہمیشہ دیرہی کرتی، اس لئے امیر سے انصاف کا ملنا ناممکن تھاجس کی وجہ سے تما م شہر اس سے نالاں ہوئے تھے۔۔ لوگ بہت تنگ آچکے تھے ، البتہ ایک چیزاندر ہی اندر لاوا کی طرح سب میںیکساں ابل رہی تھی اور وہ تھی ہر انسان کی اپنی عدالت ، اور ایک دن ایک ایسا واقعہ رونما ہوا کہ یہی لاوا سب کی ضمیر ین جھنجھوڑ کرایک وحدتِ فکر پیدا کی جب ایک درندے کو ایک ننھی بچی کے ساتھ زیادتی کرتے ہو ئے پکڑا گیا ۔اس دن شہر کے باسیوں کو کیا ہو گیا تھا کسی کے بھی سمجھ میں نہیں آیاشاید لاشعور سے احساس کا شوشہ باہر آیا تھا۔۔ ایک ایک فرد سے چیخ نکل رہی تھی، گھر، گلی کوچے، دکانیں ہر جگہ ایک ہی پکار گونج رہی تھی ۔۔اب انصاف ملنے والا تھا ۔۔ وہ بھی تاریخ پہ تاریخ کے بعد ملنے والا مضمحل انصاب نہیں بلکہ اسی دن اسی وقت آنکھوں دیکھا انصاف، جو شہر کے چوراہے پر ملنے والا تھا۔ہر طرف یہ خبر پھیل گئی کہ شہر والوں نے ایک زانی کو پکڑ لئے ہیں اور آ ج چوراہے پر اس کی پھانسی ہونے والی ہے بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے لوگ چوراہے پر جمع ہوناشروع ہوئے۔۔جس جس نے بھی یہ خبر سنی وہ اپنے کام وہیں چھوڑ کر جائے پھانسی کی طرف دوڑ لگا دی۔ اس خبر پر کوئی دکان چھوڑ کر چل پڑا، توکوئی کریم بورڈ سے ا ٹھا ،روٹی پکانے والی روٹیان رکھ کر چل دی تو دفتر میں ایک صاحب قلم جیب میں ٹھونس کرروانہ ہوا،گلی ڈنڈا کھیلنے والے ساماں چھوڑ کر دوڑلگادی تومطالعہ کرنے والا بچہ اپنے کمرے نکل آیا۔ غرض یہ کہ جو جہاں تھا وہ و ہیں سے روانہ ہواکیونکہ آج ایک نئی چیز ہونے والی تھی ، لوگ پیاسے تھے اور انصاف ملنے والاتھا ۔پھانسی کی جگہ پر پہنچنے والے ہر فرد کو ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کہ یہ واقعہ اس کااپنا ہے اور اسے انصاف ملنا چاہئے، ایک وقت ایسا آیا کہ چوراہے پر پن دھرنے کو جگہ نہ ملی۔ راستے بھی بند ہوگئے اور کئی کئی دکانیں بند ہ پڑ گئیں ،دکانوں کے چھتوں پر بھی لوگ چھڑنے لگے،سڑکوں پر بھی لوگ،ہر طرف عوام کا ہجوم نظر آیا، اوپر کمروں سے بھی بچوں کے، بوڑھوں کے، رنگ برنگے سر کھڑکیوں سے باہر کو نکلے سنگڑوں کی تعداد میں دیکھائی دے رہے تھے۔یوں ایک حبس کی حالت پیدا ہوئی ،اور عوام اب انتظار کرنے لگے۔ آنافانا مکوں اور دھکاپیل کے ساتھ مجرم کو لایا گیا، گھسیٹتے ہوئے اسے لوگوں کے بیچ سے لاکر چوراہے کے عیں مرکز پر پھینکا گیا۔جس بچی کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی اسے ایک کرسی پربا عزت بیٹھایا گیا، اسے وقار دی گئی اس کی اعتماد لوٹائی گئی اوراس کے آنکھوں کے سامنے اس کے مجرم کو ایک کھمبے کے ساتھ الٹا لٹکا کر ایک زبردست اور مثالی پھانسی دی گئی۔۔ سب کی آنکھون نے اس خوف ناک منظر کو دیکھا،اورساتھ ساتھ سب کے چہروں میں طمانیت اور امید تھی کیونکہ آج انصاف ملا تھا۔ انصاف کے بعد سب اپنے اپنے کاموں کی طرف منتشر ہوئے اور زبردستی کرنے والے کی لاش اس کھمبے میں کئی دن لٹکی رہی ، تب بدبو کی سبب جاکے اسے ہٹایا گیا۔وہ دن ہے اور آج کا دن ہے اس شہر میں ہر قسم کے واردات ہوتے ہیں مگرکوئی کسی کے ساتھ جنسی زبردستی کے بارے میں خواب میں بھی نہیں سوچتا۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
5864