Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

باچا خان کا فلسفہ عدم تشدد کیا ہے؟ ………میاں افتخارحسین،مرکزی جنرل سیکرٹری اے این پی

Posted on
شیئر کریں:

کہاجاتاہے کہ بہترین فاتح وہ ہیں جو جھگڑے میں پڑے بغیر جیت جاتے ہیں، بہترین لیڈر وہ ہے جو لوگوں سے اس طرح کام لیتا ہے گویا وہ ان سے بہتر نہیں کم تر ہے، یہی وہ چیز وہ طاقت ہے جو لڑائی جھگڑے مناقشے اور مقابلے سے دامن بچانے کی بدولت حاصل ہوتی ہے، جنگ سے جنگ ہی پیدا ہوتی ہے اور جہاں کہیں فوجیں ہوں گی وہاں اناج نہیں اگ سکتا صرف کانٹے اور جھاڑیاں اگ سکتی ہیں، اچھا جرنیل وہ ہے جو اپنا مقصد حاصل کرتا ہے اور اپنے کام کی ڈھینگیں نہیں مارتا، اچھا جرنیل وہ ہے جو اپنا مقصد حاصل کرتا ہے اور اپنے کام پر فخر نہیں کرتا اچھا جرنیل وہ ہے جو اپنا مقصد حاصل کرتا ہے مگر تشدد کے بغیر۔ ان باتوں کے تناظرمیں اگرہم خدائی خدمت گارتحریک کے بانی اورفلسفہ عدم تشددکے پیروکار،بابائے امن خان عبدالغفارخان المعروف فخرافغان باچاخان کی زندگی اورجدوجہدکا جائزہ لیں تواس میں شک نہیں کہ انہوں نے ساری عمرجنگ،وجدل،نفرت،منافرت اورتشددکی سخت مخالفت کی تھی جیسا کہ وہ خودفرماتے ہیں کہ’’عدم تشدد قریب قریب میرا مذہب بن گیا ہے میں گاندھی جی کی اہنسا کا پہلے بھی قائل تھا لیکن اس تجربے کو جو بے نظیر کامیابی میرے صوبے میں حاصل ہوئی اس کے بعد تو میں دل و جان سے عدم تشدد کا حامی بن گیا ہوں، انشاء اللہ میرے صوبے کے لوگ کبھی تشدد سے کام نہیں لیں گے، ممکن ہے میں ناکام رہوں اور میرے صوبے میں تشدد کا طوفان برپا ہو جائے ایسا ہوا تو میں اپنی قسمت پر صبر کر کے بیٹھ جاؤنگا مگر اس سے میرے اس عقیدے میں تبدیلی نہیں آئے گی کہ عدم تشدد اچھی چیز ہے اور میری قوم کو اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے‘‘ یہ الفاظ ہیں جو باچا خان نے خود اپنے عدم تشدد کے عقیدے کے بارے میں کہے ہیں اور ان کا نظریہ اتنا واضح ہے کہ اس سلسلہ میں مزید کسی تعارف اور تعریف کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، بعض لوگ کہتے ہیں کہ عدم تشدد کا فلسفہ باچا خان نے گاندھی جی سے لیا تھا مگرخودباچاخان لکھتے ہیں کہ’’ہمارے دین اسلام کا سارا زورہی عدم تشددپرہے اورپھرہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺتوعدم تشددکا عملی نمونہ تھے‘‘ بہرکیف کانگرس میں شامل جتنے بھی بڑے بڑے لیڈر تھے، عدم تشدد پر اس سختی سے پابند نہ رہ سکے جس طرح باچا خان نے عملی طورپرثابت کردکھایا تھا، حتیٰ کہ گاندھی جی نے خود بھی اس کا اعتراف کیا ہے چنانچہ ستمبر 1939ء میں جنگ عظیم شروع ہوئی تو آل انڈیا کانگرس کمیٹی نے متفقہ طور پر اس جنگ میں انگریزوں کی حمایت کا اعلان کیا لیکن گاندھی جی نے جنگ کی مخالفت کی اور انگریزوں کی مدد کرنا اپنے ’’اہنسا‘‘ کے اصولوں کے منافی سمجھا، اس موقع پر باچا خان واحد شخص تھے جنہوں نے گاندھی جی کا ساتھ دیا اور کانگرس سے مستعفی ہو گئے، اس بات سے گاندھی جی بڑے متاثر ہوئے اور اپنے اخبار (یریجن) میں لکھا ’’کانگرس ورکنگ کمیٹی کے تمام ممبر اپنے عقیدے سے پھسل گئے لیکن ایک باچا خان تھا جو پہاڑ کی طرح اپنے اصولوں پر محکم رہا‘‘ پنڈت جواہر لال نہرو گاندھی جی کو اپنا گرو مانتے تھے اور ہمیشہ انہیں باپو جی کہہ کر پکارتے تھے اور کبھی کوئی بات ان کی مرضی کے خلاف نہیں کرتے تھے لیکن انہیں بھی تسلیم کرنا پڑا کہ گاندھی جی کے بعد خان عبدالغفار خان ہی ایک ایسے شخص تھے جو عدم تشدد کو اپنا دھرم سمجھتے تھے اور اپنے ان اصولوں کو کسی بھی حالت میں چھوڑنا پسند نہیں کرتے، وہ اس معاملہ میں عدم تشدد کے سچے پیروکار ہیں اور ہم میں سے کوئی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا، باچا خان عدم تشدد کو اپنی پشتون قوم کی خرابیوں کا واحد حل سمجھتے تھے ان کی خانہ جنگیاں، قتل و غارت گری اور ذرا سی بات پر مشتعل ہو کر اپنے بھائیوں کا گلہ کاٹنے کی مذموم عادتوں کا علاج کرنے کے لئے انہیں یہی ایک تریاق نظر آیا اور اسی لئے انہوں نے اس کا خوب خوب پرچار کیا، خود اس کا عملی نمونہ بن کر دکھایا اور تقریر و تحریر کے ذریعے اس کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی، اس کے فوائد بتائے اور اہمیت جتائی، انہوں نے ہرموقع پراپنی قوم کویہی وصیت دی اور جنگ آزادی کے لئے عدم تشدد کو ایک مفید اور کار آمد ہتھیارگردانا، اسے پوری دنیا کے لیے امن و آشتی کا ذریعہ قرار دیا، فرماتے ہیں ’’جنگ دو طرح سے لڑی جاتی ہے ایک تشدد سے دوسری عدم تشدد سے یعنی صبر سے‘‘ تشدد کی جنگ میں فتح و شکست دونوں کا امکان ہے لیکن عدم تشدد کی جنگ میں شکست کا احتمال ہی نہیں اس میں ہمیشہ ہی فتح ہے، تشدد سے قوموں میں نفرت بغض و کینہ پیدا ہوتا ہے اور اس کا لازمی نتیجہ دوسری اور تیسری جنگ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے جس طرح 1914ء کی تشدد کی جنگ کا نتیجہ موجودہ خون ریز جنگ کی صورت میں سامنے آیا لیکن عدم تشدد قوموں میں محبت پیدا کرتا ہے اور اس کا نتیجہ امن ہے اور عدم تشدد کی جنگ کوئی نئی اور عجیب چیز نہیں یہ جنگ وہی ہے جو آج سے 14 سو سال پہلے ہمارے رسول ﷺ نے مکہ کی زندگی میں لڑی تھی لیکن لوگ عدم تشدد کے اصول سے ناواقف ہیں ان کو یہ غلط فہمی ہے کہ ہم کو شکست ہو گئی ہے لیکن حقیقت یہ نہیں ہے، کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ جب ہم 1931ء میں جیلوں سے باہر آئے تو قوم میں ہمدردی اور محبت کے جذبات کس قدر بڑھ گئے تھے، باچا خان میں ایک سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ جو کچھ وہ اپنی زبان سے کہتے تھے اس کا خود مثالی نمونہ بن کر بھی دکھایا، عدم تشدد کی پالیسی پر بھی وہ سب سے پہلے خود کاربند ہوئے اس کے بعد انہوں نے دوسروں کو اس کی تعلیم دی، عدم تشدد کو اپنانے کے لئے انہیں کتنی ریاضت کتنی نفس کشی کرنی پڑی یہ کچھ ان ہی کا جی جانتا تھا وہ اپنی کمزوریوں کو نہیں چھپاتے تھے بلکہ صاف کہتے تھے کہ مجھ میں بہت سی کمزوریاں ہیں جن کی رفتہ رفتہ میں نے اصلاح کی اور ان پر قابو پایا، عدم تشدد پر وہ ایک دم حاوی نہیں ہوئے بلکہ کافی محنت کافی داخلی اور خارجی جدوجہد کے بعد اسے اپنا شعار بنایا اور سچ پوچھئے تو ایک پختون کا عدم تشدد کواپنانا بھی نہایت عجیب و غریب بات لگتی ہے کہ اس کی صدیوں کی روایت اس کا ماحول اس کی فطرت اور اس کا مزاج سب کے سب اس سے بالکل برعکس واقع ہوئے ہیں اس لئے کہ ایک عام آدمی کی نسبت عدم تشدد کو اپنانا ایک پختون کے لئے زیادہ دشوار ہے اور چوں کہ باچا خان بھی ایک پختون تھے اس لئے یقیناً انہیں اپنی فطرت کے خلاف جنگ کرنے میں بہت کچھ کرنا پڑا۔ جو شخص اپنا راج پاٹ چھوڑ کر تیس برس قید و بند میں گزار سکتا ہے اس کیلئے اپنے آپ میں ایسی تبدیلی پیدا کرنا کہ یک سر ایک نئے قلب میں ڈھل جائے کچھ مشکل کام نہیں، وہ اپنے عدم تشدد کے فلسفے کو مختلف طریقوں سے پیش کر کے ایسے لوگوں کے ذہن نشین کرانے کی کوشش کرتے رہے، کہتے ہیں ’’انسانی تباہی کا باعث نفرت ہے دنیا کی بڑی سامراج طاقتیں جب نفرت کی چٹان سے ٹکرائے تو پاش پاش ہو کر رہ گئے‘‘ مختلف فرقوں گروہوں مختلف عناصر میں نہیں بلکہ ایک ہی نظریے کے قائل دوستوں کے درمیان بغض و نفرت کے شعلے بلند ہوئے تو وہ اس میں بھسم ہو کر راکھ کا ڈھیر ہو گئے۔ نفرت قتل و غارت کی بنیاد ہے نفرت انسانیت کی بربادی کا موجب ہے نفرت کو دور کرنے کے لئے میری یہ بات یاد رکھو کہ جس آدمی کے دل میں ہر لمحہ یہ خیال رہتا ہے کہ فلاں نے میری توہین کی ہے میری غیبت کرتا ہے مجھے برباد کرنے کی مذموم تجاویز سوچتا ہے اس کے دل سے کبھی نفرت نہیں جاتی لیکن جس کے دل میں یہ خیالات نہیں اس کے دل میں نفرت پیدا نہیں ہوتی، نفرت نفرت سے دور نہیں ہو سکتی بلکہ محبت سے دور ہوتی ہے اس لئے نفرت کو محبت اور بدی کو نیکی سے فتح کیا جا سکتا ہے،، یاد رکھو دوسروں کو گرانے سے کوئی بڑا نہیں ہو سکتا اگر کوئی شخص بڑا بننا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ دوستانہ محبت پر مبنی جذبات اپنے اندر پیدا کرے۔ اور آپ یہ بھی سمجھ لیں کہ عدم تشدد کمزور لوگوں کا کام نہیں ہے ان اصولوں پر وہی قوم عمل کر سکتی ہے جو مضبوط قوم ہو اس کے ارادے مضبوط ہوں اور ایک مقصد ان کے سامنے ہو اس لئے میں آپ سے کہتا ہوں کہ خدائی خدمت گاری کے اصولوں کو سمجھیں اور اس کے اصول کو پہچانیں۔ اس لئے میں کہتا ہوں کہ ایک طاقت ور قوم عدم تشدد کے ذریعہ بہ نسبت کمزور قوموں کے بہت جلد کامیابی حاصل کر سکتی ہے امید ہے آپ لوگ سمجھ گئے ہوں گے کہ عدم تشدد کمزور لوگوں کا کام نہیں چناں چہ جس طرح تشدد کی فوج ہوتی ہے اس طرح عدم تشدد کی بھی فوج ہے اور ہماری یہ فوج خدائی خدمت گار ہے اور اس کا عمل عدم تشدد ہے اور یہ بات بھی سمجھ لو کہ فوج کے اپنے اپنے طریقے ہوتے ہیں جس طرح تشدد کی فوج کی تربیت ہوتی ہے اس کو پریڈ سکھائی جاتی ہے اسی طرح عدم تشدد کی فوج کی بھی ایک پریڈ ہے اور اس کی ٹریننگ ہوتی ہے ہاں اتنی بات ہے کہ تشدد کو عدم تشدد کی فوج کی تربیت میں فرق ہے تشدد کی فوج کا کام ظلم ہے دوسروں کو قتل کرنا اور نفرت پیدا کرنا ہے اور دکھ تکلیف پہچانا ہے اور ہماری عدم تشدد کی فوج کا کام کسی کو دکھ تکلیف پہنچانا نہیں بلکہ زور اور ظلم برداشت کرنا اور اپنی جان قربان کرنا ہے خود محبت سے گزارہ کرنا اور دنیا میں محبت پیدا کرنا ہے جس طرح تشدد میں چاند ماری سکھائی جاتی ہے اسی طرح ہماری فوج کو بھی تربیت دی جاتی ہے کہ اپنے آپ میں صبر و تحمل پیدا کرے، تشدد نفرت اور عدم تشدد محبت ہے میں آپ کو بتا دوں کہ کسی پر جبر اور زیادتی نہیں ہے ہر شخص کی اپنی مرضی ہے کہ وہ اس راستے پر چلنے کو تیار ہے یا نہیں ،یہ بات ہر گز اپنے خیال میں نہ لائیں کہ آپ میرے ساتھ نہ چلیں تو میں ناراض ہو جاؤں گا یہ میرا کوئی ذاتی کام تو ہے نہیں ،قوم کی خدمت ہے مجھے یہ راستہ اچھی طرح معلوم ہے میں اس پر چل رہا ہوں اگر آپ کو کوئی دوسرا راستہ معلوم ہو تو اس میں آزادی ہے جو کچھ آپ کا من چاہے کریں، میں نے تو جتنا غور کیا ہے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ عدم تشدد میں میری قوم کام بہت فائدہ ہے اور جو فائدے مجھے اس میں نظر آئے ہیں تو تشدد میں اس کے برعکس مجھے بہت سے نقصانات دکھائی دیتے ہیں، باچا خان نے بار بار قوم کے سامنے اپنی عدم تشدد کی پالیسی کی پوری وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے مختلف مثالوں سے اسے واضح کیا ہے اس کا مفہوم سمجھایا ہے اور اس کے فوائد بتائے ہیں تشدد اور عدم تشدد کا مقابلہ کیا ہے وہ عدم تشدد کی جنگ کے قائل تھے جس میں فتح ہی فتح ہے کامیابی ہی کامیابی ہے جس میں زور آور حریف کو اور طاقت ور سے طاقت ور دشمن کو بالاخر پسپا ہونا پڑتا ہے، ہزیمت اٹھانی پڑتی ہے ہتھیار ڈالنے پڑتے ہیں وہ عدم تشدد کو کمزوریوں اور بزدلوں کا ہتھیار نہیں سمجھتے بلکہ بہاروں اور دلیروں کا حربہ خیال کرتے تھے ان کے نزدیک ظلم وستم سہنا، دکھ برداشت کرنا، تکلیفیں اٹھانا ہرکسی کا کام نہیں بلکہ بڑے اولولعزم اور بلند حوصلہ لوگوں کا کام ہے، بزدل اور کم ہمت شخص تو ذرا سی اذیت بھی برداشت نہیں کر سکتا، وہ تو فوراً بوکھلا کر بھاگ کھڑا ہوتا ہے گونا گوں آزمائشوں میں پڑنے اور حادثات سے دوچار ہونے پر ہمت نہ ہارنا اور ثابت قدمی دکھانا ہی جواں مردوں کی شان ہے اس سے ان کی عظمت اجاگر ہوتی ہے اور ان کے تدبر کا پتہ چلتا ہے، باچا خان عدم تشدد کے داعی تھے مخالفین نے ان پر الزام لگائے ، ان کے خلاف پروپیگنڈے کرتے رہے لیکن انہوں نے کسی چیز کی پروا نہ کی اور اپنے موقف پر چٹان کی طرح ڈے رہے، اور اپنی زندگی کی آخری سانس تک اسی موقف پر قائم رہے،۔


شیئر کریں: