Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

حوا کی بیٹی اور آج کا زمانہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زاہدہ نور

Posted on
شیئر کریں:

اﷲپاک نے عورت کوکئی روپ میں پیدا کیا ہے وہ ایک ماں کی روپ میں ہمیں تپتی دھوپ میں چھاؤں دیتی ہے ،بہن کی صورت میں بھائی پہ قربان ہونے والی ،بیٹی کی صورت میں خاندان کی عزت و وقار کی نشانی اور بیوی کی صورت میں شوہر کے ہر دکھ سکھ کا ساتھی ۔اﷲپاک نے اب ان سب رشتوں کو خوبصورت بنا کر ہمیں عطا کیا اور یہ ذمہ داری ہمیں دے دی کہ ان کا ہم خیال رکھیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اپنی وہ ذمہ داری بخوبی انجام دے رہے ہیں یا نہیں جس کا ہمیں اس پاک ذات نے حکم دیا ہے؟جہاں تک میں وطنِ عزیز کے حالات دیکھ رہی ہوں افسوس ہوتا ہے مجھے یہ دیکھ کر کہ جس ملک کو ہم نے اسلام کے نام سے حاصل کیا تھا آج اسی ملک میں تمام وہ کام کیے جارہے ہیں جو کہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں ۔

آج ایک عورت جب گھر سے باہر نکلتی ہے تو وہ صرف ایک عورت کے روپ میں ہی باہر نہیں نکلتی بلکہ ایک ماں،بہن،بیٹی اور ایک بیوی کی روپ میں ہوتی ہے مگر ہوس زدہ مرد کی نگاہ کا کچھ بھی نہیں کیا جاسکتاجب وہ ایک عورت کی طرف غلط نگاہوں سے دیکھتا ہے تو وہ یہ بات بھول جاتا ہے کہ اس کے گھر میں بھی خواتین موجود ہیں ۔ان تمام سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ دراصل مرد رشتے کی عزت کرتے ہیں ایک عورت کی نہیں اور آج تک ہمیں ایک عورت کی عورت کے طور پر عزت کرنا نہیں آیا۔

سال ۲۰۱۸کا آغاز ہمارے ملک میں معاشرتی لحاظ سے کچھ اچھے طریقے سے نہیں ہوا۔سال کے پہلے ماہ میں ہی نجانے کتنے واقعات ہمیں سننے میں آئی کہ کتنی معصوم بچیاں کہ جن کی عمر ابھی صرف خواب دیکھنے،گڑیوں کے ساتھ کھیلنے،امی ابو سے اپنے لاڈ اٹھانے کی تھی نہ کہ لوگوں کو ان لاشیں گندی نالوں اور گندگی کے ڈھیر سے اٹھانے کی تھی۔نجانے اس ماں پہ کیا بیتی ہوگی جب اس تک یہ خبر کہ جس بیٹی کو وہ لاکھوں پردوں میں رکھتی تھی آج اسی کی لاش سڑک پہ ملی۔کیا اس مرد نے اس بچی پہ غلط نگاہ ڈالنے سے پہلے ایک بار بھی یہ نہیں سوچا ہوگا کہ وہ صرف اپنے ہوس کی تکمیل کے لیے ایک بچی سے اس کے خواب،ایک خاندان کی عزت،ایک قوم کی روشن مستقبل اور نجانے کیا کیا چھین رہا ہے۔

کچھ دنوں سے میڈیا میں سات سالہ بچی زینب جس کا تعلق قصور پنجاب سے تھی کی خبر آرہی ہے کہ وہ ننھی سی بچی ۴ جنوری سے لاپتہ تھی جبکہ اس کے والدین عمرہ کے لیے گئے ہوئے تھے۔ان کو کیا پتہ تھا کہ اپنی پھول جیسی بیٹی کو وہ آخری دفعہ دیکھ رہے ہیں۔۱۱جنوری کو یہ سانحہ پیش آیا کہ زینب کی لاش ڈھیر سے ملی ،لاش کے پوسٹ مارٹم سے یہ بات ثابت ہوئی کہ بچی کے ساتھ زیادتی کرنے کے بعد اسے مار دیا گیا ہے یہ خبر آگ کی طرح نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں پھیل گئی۔اس سے پہلے سال ۲۰۱۷میں ضلع قصور ہی میں اسی طرح کے۱۲کے قریب واقعات رونما ہوچکے ہیں۔سال ۲۰۱۵میں ۲۸۰کے قریب واقعات سامنے آئے تھے کہ جس میں ۱۰۔۱۵سال تک کی بچیوں کے ساتھ زیادتیاں کی گئیں اور المیہ کی بات یہ ہے کہ جب ان کے خلاف آواز آٹھائی گئی تو ان کو یہ دھمکی دی گئی کہ وہ تصویریں اور اسی قسم کے دوسرے مواد سوشل میڈیا میں اپ لوڈ کریں گے۔ان کو پتہ ہے کہ اس ملک کے قوانین کمزور،کرپشن اور چند دھمکیوں کے ذریعے سے تمام صور تحال کو ختم کیا جا سکتا ہے اور بدقسمتی سے ہوا بھی یوں ہی۔اگر شروع دن سے ایسے سنگین جرائم کرنے والوں کے لیے خاص سزا مقرر ہوتی تو آج ہمیں اس طرح کے واقعات دیکھنے کو نہ ملتے ۔زینب کے اس واقعے نے جیسے سب کو ہلا کر رکھ دیامگر افسوس کہ قانون نافذ کرنے والوں اور حکومتی حکام کی جلد از جلد کسی نتیجہ تک پہنچنے سے پہلے ہی ۱۷جنوری کو مردان،کے۔پی۔کے میں ایک اور راقعہ سامنے آیا کہ جس میں چار سالہ بچی زیادتی کا نشانہ بن کے پھر موت کے گھاٹ اتار دی گئی۔آخر یہ کب تک ہوتا رہے گا اور ہم کب تک خاموش تماشائی بنتے رہیں گے ،خدارا ہمیں اس چپ کے روزہ کو توڑنا ہوگا ورنہ اس معاشرے میں ہماری بچیاں محفوظ نہیں رہیں گی۔

پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف نے ۲۳ جنوری کو ایک پریس کانفرنس میں یہ اعلان کر دیا کہ زینب کیس کے مجرم جس کا نام عمران علی بتایا گیا ہے اس کو گرفتار کر لیا گیا اور اس نے اپنے جرم کا اعتراف بھی کر لیا ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ حکمران اور قانون ناقذ کرنے والے کیا اقدام اٹھاتے ہیں یہ بات ہمیں فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ یہی شخص اس سے پہلے ۶۔۷بچیوں کے ساتھ زیادتی اور پھر ان کو قتل کرنے میں ملوث رہا ہے ۔اس شخص کو جو بھی سزا دی جائے گی بیشک ان متاثرہ والدین کو ان کی بچیاں واپس تو نہیں ملیں گی لیکن آےئندہ کے لیے ہماری بچیاں محفوظ ضرور رہیں گی۔


شیئر کریں: