Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

آلودگی کے مہیب سائے ……….امحمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب بغیر ماسک پہنے کوئی چل پھیر نہیں سکے گا۔ماحول کو آلودگی سے بچانے کے لئے وفاقی اور صوبائی سطح پر وزارتیں اور محکمے بھی قائم کئے گئے ہیں اور غیر سرکاری تنظیمیں بھی ماحولیاتی آلودگی کم کرنے کا بینر سجاکر اپنی دکانیں کھول رکھی ہیں۔ آلودگی سے ماحول کو بچانے کے لئے قوانین بھی موجود ہیں اور حکومتوں کی طرف سے بھی احکامات جاری کئے جاتے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں آلودگی کا سبب بننے والے پلاسٹک شاپنگ بیگ ختم کرنے کے حوالے سے وزیر اعلیٰ کے احکامات کی صدائے بازگشت بھی ابھی سنائی دے رہی ہے لیکن ان احکامات کو عمل کا جامہ پہنانے پر کوئی توجہ اب تک نہیں دی گئی۔حکام شاید اس انتظار میں ہیں کہ احکامات پر عمل درآمد کے لئے کوئی ٹائم فریم یا ڈیڈ لائن آئے گی تو وہ متحرک ہوں گے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وزیراعلیٰ کے حکم پر کوئی عمل کرے تو اس کا بھلا ہو۔ اگر نظر انداز کیا جائے تو اس کا بھی بھلا ہو۔ہفتہ دو ہفتے یا مہینے دو مہینے کی ڈیڈ لائن بھی اگر احکامات کے ساتھ آجائے۔ تو متعلقہ حکام کے بھی کان کھڑے ہوتے ہیں اور وہ اپنی مٹی پلید ہونے کے ڈر سے کچھ نہ کچھ حرکت کرتے نظر آتے ہیں۔آلودگی کسے کہتے ہیں؟اس کی کیا وجوہات ہیں ؟ اس کا انسانی زندگی اور معاشرے پر کیا اثر پڑتا ہے۔ یہ وضاحت ضروری ہے۔ آلودگی قدرتی بھی ہوسکتی ہے۔ جس میں سیلاب آنا، تودے گرنا، زمین کا کٹاو، چٹانین گرنا، خشک سالی، بے وقت بارشیں ، زلزلے اور طوفان بھی شامل ہیں۔لیکن قدرتی وجوہات کا تناسب صرف پانچ فیصد ہوتا ہے۔جبکہ پچانوے فیصد آلودگی انسانی غفلت، لاپراہی ، آلودگی کے نقصانات سے لاعلمی اورمروجہ قوانین کے نفاذ میں کوتاہی کا نتیجہ ہیں۔جس میں حکومت، وزارتیں،محکمے، عدالتیں، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عام شہری سب ہی ملوث ہیں۔ہم اپنے گھر اور باورچی خانے کو تو صاف کرتے ہیں لیکن کوڑا کرکٹ پلاسٹک کے تھیلے میں ڈال کر دروازے سے باہرسڑک پر پھینک دیتے ہیں۔ گلی کے نکڑ یا کھلی جگہ لے جاکر ڈالتے ہیں۔کارخانوں کا مضر صحت کیمیاوی مواد نالیوں میں بہاتے ہیں۔ گھروں کا کچرا نہروں میں ڈالتے ہیں۔راہ چلتے پھل کھاکر چھلکے سڑک پر پھینکتے ہیں۔ جس سے آلودگی کے ساتھ لوگوں کے پھسلنے اور زخمی ہونے کا خطرہ ہوتا ہے جس کی ہمیں کوئی پروا نہیں۔پبلک ٹرانسپورٹ میں سیگریٹ پینا شروع کرتے ہیں ۔اپنے گھر کی تعمیر کے لئے ریت، مٹی، بجری وغیرہ سڑکوں پر ڈالتے ہیں اور وہاں سے دھول اٹھتی ہے ۔ بھٹہ خشت اور فیکٹریوں کی چمنیوں سے اٹھنے والا زہریلا دھواں آب و ہوا کو آلودہ بنا دیتا ہے ۔پلاسٹک کے تھیلوں کابے تحاشا استعمال بھی آلودگی کا سبب ہے۔ جسے سے نکاسی آب کا نظام بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ کوڑا کرکٹ کو مناسب طریقے سے ٹھکانے نہ لگانے کی وجہ سے جو آلودگی پیدا ہوتی ہے اس سے قرب و جوار کی آبادی کو سنگین خطرات لاحق ہوتے ہیں۔زیادہ شور اورتیز روشنی بھی آلودگی کے زمرے میں آتے ہیں۔ درختوں اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی سے بھی قدرتی ماحول پر تباہ کن اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ یہ آلودگی موسمی تغیرات کا بھی سبب بن رہی ہے ۔ بارشیں کم ہوگئی ہیں۔ درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے۔ برف کے خزانے تیزی سے پگھلنے لگے ہیں۔جس سے نہ صرف معاشرے بلکہ پورے ملک کو خطرہ ہے۔ قدرتی ماحول کو مکمل تباہی سے بچانے کے لئے حکومت، سرکاری اداروں، سول سوسائٹی، غیر سرکاری اور فلاحی تنظیموں اور عوام کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ تعلیمی ادارے اور مدارس بھی اس حوالے سے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔جہاں بچوں کو آلودگی کے خطرات سے آگاہی فراہم کرکے ذمہ دار شہری بنایاجاسکتا ہے۔ حکومت قدرتی ماحول کے تحفظ کے حوالے سے مروجہ قوانین پر عمل درآمد یقینی بنائے اور سرکاری حکام اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر کرتے ہوئے ماحول کو بچانے کی اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔ آلودگی کے نقصانات سے متعلق عوامی شعور اجاگر کرنے کے لئے عوامی سطح پرمہم چلائی جائے اور دوسری طرف ہر شہری صفائی کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہوئے ماحول کو آلودگی سے پاک کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرے تو معاشرے کو درپیش سنگین خطرات کو کچھ عرصے کے لئے ٹالا جاسکتا ہے۔ آلودگی کا مسئلہ غربت، بے روزگاری اور بدامنی سے بھی سنگین مسئلہ ہے۔ خداکرے کہ ہماری حکومتیں، منتخب نمائندے، عوام کے ٹیکسوں سے پلنے والے حکام آلودگی کے مسئلے کو قومی مسئلہ سمجھ کر اس کے حل کے لئے ایمانداری اور دیانت داری سے کوششیں شروع کریں۔


شیئر کریں: