Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

میں تو شرمندہ ہوں اس دور کا انسان ہوکر ۔۔۔۔ میر سیماآمان

Posted on
شیئر کریں:

۸ برس پہلے قصور کے ایک گھرانے میں جب ایک ننھی پری کی پیدا ئش ہوئی تو یہ دن اس گھرانے کے لئے نہا یت سنہرا دن تھا۔ بیٹی کی پیدایش پر ماں باپ کے کیا جذ بات و احساسات ہو تے ہو نگے یہ تو بیٹی والے تمام وا لدین ہی بہتر جا نتے ہیں لیکن میں صرف ا تنا سو چتی ہوں کہ وہ کو نسے جذ بات ہو نگے جن کے تحت ایک معصوم باپ نے اپنی بیٹی کا نام ’’ ذینب ‘‘‘ ر کھا ہو گا۔ شا ید یہ سو چ کر کہ ہمارے محبوب رسول ا کرم ﷺ کی بیٹی کا نام بھی ذینب تھا یا یہ کہ خا تونِ جنت بی بی فا طمہ کی بھی ایک بیٹی تھی جسکا نام بھی ذینب تھا ۔۔ہا ں وہی ذینب کر بلا کے میدان میں جسکے سر سے چادر اُ تاری گئی تو آسماں بھی رو پڑا تھا ۔ اس سر ذمین کا ذرہ ذرہ رو پڑا تھا ۔ سنا ہے اس دن درخت رو پڑے تھے۔اس ظلم پر پر ندے بھی اﷲ سے شکوہ کناں ہوئے تھے ۔۔ کہ اسلام کی بیٹیو ں کے سا تھ کیا ظلم ڈ ھا یا گیا ہے ۔۔آج قصور میں جو ہوا یہ اس خاندان کے لئے با لخصوص اور پوری قوم کے لئے با لعموم کسی ’کر بلا ‘ سے کم نہیں۔۔ذینب کی پید ا ئش کے روز اسکے ما ں باپ کے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ محض ۸سال بعد اسکی موت پوری د نیا کو ا شک بار کرے گی۔کسے پتہ تھا کہ اسکی موت جہاں پوری قوم کو ہلا کر رکھ دے گی وہی پورے عالم میں مو جود ’’ گھٹیا اور ہوس ذدہ‘‘ مردوں کے منہ پر بھی طمانچہ ثابت ہوگی۔۔یہ واقعہ ایسا ہے کہ اس پر بات کرنے کے لئے بندہ speechlessہو جا تا ہے اور واقعی میں اس وا قعے پر بات کر نے کے لئے اس کی مذمت کے لئے اس پر ا حتجاج کے لئے ہمارے پاس الفاظ نہیں۔۴ اگست 1947 کو یہ ملک اس لیے حاصل کیا گیا تھا تا کہ مسلمان ا پنی ذندگیاں ا سلامی اُ صولوں کے مطابق گُزاریں ۔جہاں مسلمانوں کے حقوق محفوظ ہوں۔اور سب سے بڑی بات ’’’’جہاں مسلمانوں کی عزتیں محفوظ ہوں ‘‘‘ آج یہ کیسا اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے جہاں دہشت گردی، د ھو کہ ، لوٹ مار ایک طرف یہاں تو مسلمان بیٹیوں کی عزت تک محفوظ نہیں۔اور بیٹی بھی وہ جو محض ۸ سال کی ہو۔۔اس وا قعے سے عالمی میڈ یا میں پاکستان کی جو بے عزتی ہوئی وہ ایک طرف۔۔۔اس وقت پوری دنیا کی نظر یں پنجاب پو لیس اور پاکستان کی عدلیہ پر ہے اور پنجاب پولیس کے ساتھ خود حکومت کے لئے یہ نہایت شرم کا مقام ہے کہ آج ۸ دن گزرنے کے با وجود ’’قاتل‘‘ گرفتار نہیں ہو پا رہاہے ۔اول تو یہ واقعہ ازخود دوم ۸ روز گزرنے کے با وجود ’’ایک گھٹیا کردار ‘‘کی گر فتاری عمل میں نہ آنا اس واقعے کو اس ملک کے حکمرانوں یہاں کے تمام اداروں ،سیاسی جماعتوں ،انسانیت کے علمبردار تنظیموں کے منہ پر ایک طمانچہ ثابت کرتا ہے ۔کوئی ان سے پو چھنے والا نہیں کہ کیا وجہ ہے کہ اتنے دن گزرنے کے با وجود یہ ایک قاتل کو پکڑنے میں ناکام ہے؟؟؟۲ قسم کے سوالات اس وقت تمام لوگوں کے ذہنوں میں ہیں کہ کیا قا تل پکڑا جائے گا؟؟؟دوم اگر پکڑا بھی گیا تو کیا اُسے سزا ہوگی یا پو لیس کی وہی روایتی کہانی دہرائی جا ئے گی؟؟یہاں پر میں صرف ا تنا کہونگی کہ justice for zainab کوئی نعرہ نہیں ہے نہ کسی برانڈ کا نیا لیبل نہ ٹی وی پہ چلنے والا کوئی ا شتہار جو چند دن چلے گا اور بند ہو جائے گا ۔۔بلکہ یہ اس پوری قوم کی د لی التجا ہے۔یہ اس قوم کی تمام بیٹیوں،ما وٗں اور اس قوم کے ہر باپ کی در خواست ہے،اِ سے کھو کھلا نعرہ نہ سمجھا جائے۔اِسے محض ڈپی نہ سمجھی جائے۔اس آواز کو تب تک بند نہیں ہونا چا ہیئے جب تک ذینب کے قاتل گر فتار نہیں ہو جاتے ۔اور جب تک اسے عبرت ناک سزا نہیں دی جا تی۔۔عوام کو ذینب کا کیس تب تک لڑنا پڑے گا۔
افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ نہ تو یہ کیس اس ملک کا پہلا کیس ہے نہ آ خری ۔۔لیکن ہم حکمرانوں سے اس بات کی ا لتجا کر تے ہیں کہ اس مظلوم خاندان کے دکھ کو سیاسی رنگ نہ دیا جا ئے۔معصوم زینب جیسی cases کو سیڑھی بنا کر صوبائی حکمران ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے بجائے بہت بہتر ہوگا کہ ہمارے قا ئدین ہوش میں آجا ئیں۔ان واقعات کے اسباب کیا ہیں اور انکا سد باب کیسے کیا جائے۔۔۔۔۔۔۔ان پر توجہ کی اشد ضرورت ہے۔۔ حکومت کو چاہیے کہ اس انتہائی سنجیدہ کیس کو محض دعوں کے نذر کرنے کے بجائے سنجیدگی سے اس پر کام کر یں۔ہم عوام کو ہر حال میں زینب کے سفاک قاتل کی سر عام پھانسی چا ہیے۔۔۔لیکن اگر حکو مت ہر بار کی طرح اس کیس پر بھی فیل ہے تو ۲۲کڑوڑ کی عوام کی آنکھیں کم از کم اب کھل جا نی چا ہیے۔۔ہا ں جس ملک میں اعلی تعلیم یافتہ حکمران بہترین ڈگری ہولڈرز سیاسی جماعتیں ،اعلی قا بلیت کے انتہائی معزز ججز ،قا نون کے بلند و با نگ د عوے کر نے والے رکھوالے اگر ہماری ’’’۸ سا ل کی معصوم بچیوں ‘‘‘ کی حفاظت کی ذمہ داری نہیں دے سکتے تو اس ملک کو کسی حکومت کسی قانون کسی عدلیہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔اس ملک کو صرف اور صرف شریعت کے نفاز کی ضرورت ہے۔۔۔!!!!


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged ,
4677