Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

میرا باپ کم نہ تھا میری ماں سے……….. میاں شفیق

Posted on
شیئر کریں:

باپ ہندی زبان کا لفظ ہے اور یہ تین الفاظ کا مجموعہ ہے۔ ب سے برکت والا ا سے احساس کرنے والا اور پ سے پیار اور اور محبت ۔ ان تین الفاظ کے مجموعے کا نام باپ ہے۔ باپ انسان کی زندگی کا سب سے بڑا سہارا ہے باپ چاہے کتنا ہی بوڑھا کیوں نا ہو پھر بھی گھر کا سب سے اہم ستون ہوتا ہے۔ عظمت تو ماں کی بھی بہت زیادہ ہے جو کہ اللہ نے خود بیان کی ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ نے انسان سے اپنی محبت ثابت کرنے کے لئیے ماں کا انتخاب کیا۔ اللہ نے فرمایا کہ میں انسان کے ساتھ اس کی ماں سے ستر گنا زیادہ محبت کرتا ہوں۔اگر باپ کی عظمت کا پاس کرتے ہوئے اس کی اطاعت ، فرماں برداری ، خدمت اور تعظیم کر کے اس کی رضا حاصل کی جائے تو اللہ کی طرف سے ہمیں دین و دنیا کی کامیابیاں ، سعادتیں اور جنت جیسی نعمتیں مل سکتی ہیں۔

ماں کی محبت تو اس وقت سے بیان کی جارہی ہے جب سے انسان نے لکھنا سیکھا تھالیکن باپ ایک ایسی ذات ہے جس پر خود باپ نے بھی کھل کر نہیں لکھا۔ لکھتا بھی کیسے کہ باپ کی محبت کا ہر رنگ نرالا ہے ۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی اولاد پر ہاتھ اس لیے اٹھاتا ہے کہ کہیں اس کی اولاد خود کو کسی بڑے نقصان میں مبتلا نہ کر لے ۔ اس کی پڑھائی پر سختی برتتا ہے کہ کہیں اس کی اولاد کم علمی کی وجہ سے کسی کی محتاج نہ بن کر رہ جائے۔ . باپ کو اولاد کا دیر سے گھر آنا اس لیے کھٹکتا ہے کہ کہیں اس کی اولاد بری لت میں پڑھ کر اپنا مستقبل خراب نہ کر بیٹھے ۔ غرض کہ پیدائش سے لے کر قبر تک باپ کی زندگی کا محور اس کا بچہ ہی رہتا ہے۔لیکن کبھی کبھی باپ سانسیں لیتے ہوئے بھی مر جاتے ہیں جیسے جیسے اولاد کا اختیار بڑھتا ہے باپ کا اختیار کم ہوتا ہے اور باپ مرنا شروع ہو جاتا ہے اور باپ اس وجہ سے اولاد پر ہاتھ اٹھانا بند کر دیتا ہے کہ اگر اولاد نے پلٹ کر اس کا جواب دے دیا تو وہ کیسے برداشت کرے گا۔

اسلام میں والدین کابہت بڑا مقام اور مرتبہ ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے،’’اورجب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیاکہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو۔رشتہ داروں ، یتیموں،مسکینوں اورلوگوں سے (ہمیشہ)اچھی بات کہو۔ ‘‘ (سورۃ البقرہ)۔ اسی طرح سورہ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔’’اورآپ کے پروردگارکافرمان ہے کہ اللہ کے سواکسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کیاکرو،اگر تمہارے سامنے اِن میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ’’اْف‘‘تک نہ کہواور نہ انہیں جھڑکو بلکہ ان سے نرمی کے ساتھ بات کرو اور اپنے بازو نہایت عاجزی اورنیازمندی سے ان کے سامنے جھکادو اور( ان کے لئے یوں دعائے رحمت کرو) اے میرے پروردگار!تواِن پر(اس طرح) رحم فرما، جس طرح انہوں نے مجھے بچپن میں(رحمت وشفقت سے) پالا تھا۔‘‘(سورہ بنی اسرائیل) ۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات مبارکہ میں اپنی عبادت کے ساتھ ہی والدین کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کا حکم فرمایا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ والدین کی خدمت واطاعت انتہائی ضروری ہے حتیٰ کہ والدین اولاد پر ظلم وزیادتی بھی کریں تب بھی اولاد کو انہیں جواب دینے کی اجازت نہیں،جھڑکناتو درکنار ،اْن کے سامنے ’اْف‘ تک کہنے کی بھی اجازت نہیں۔ سورۃ لقمان میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ’’ میرا اور اپنے والدین کا شکر ادا کرو،(تم سب کو )میری ہی طرف لوٹنا ہے اور اگر وہ تْجھ پر دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ اس کو شریک ٹھہرا جس کا تْجھے کچھ علم نہیں تو(اس معصیت میں )ان کی اطاعت ہر گز نہ کرو، (لیکن اس کے باوجود ) دْنیا میں ان سے حسن سلوک کرتے رہو۔ ‘‘ اولاد کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ االلہ تعالیٰ اور اس کے پیارے رسول ﷺ کی نافرمانی کے سوا والدین کے ہر حکم کی تعمیل کریں۔ اْن کی رائے کو ترجیح دیں۔ خاص طور پر جب والدین بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو پھر ان کے احساسات کا خیال رکھتے ہوئے ان سے محبت و احترام سے پیش آئیں ۔ اپنی مصروفیات میں سے مناسب و قت اْن کے لیے خاص کردیں۔اْن کی بھر پور خدمت کریں اور ان کی وفات کے بعدان کے لیے ایصالِ ثواب اور دعائے مغفرت ورحمت کرتے رہیں ، جیسا کہ قرآنِ پاک میں ارشادِباری تعالیٰ ہے،’’اور(ان کے حق میں یوں دعائے رحمت کرو ) اے ہمارے رب!ان دونوں پر رحم فرما، جیسا کہ انہوں نے مجھے بچپن میں(رحمت وشفقت سے) پالا۔‘‘(سورہ بنی اسرائیل) ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے لیے ، اپنے والدین اور تمام مسلمانوں کے لیے مغفرت وبخشش کی دعامانگتے ہیں۔جس کاقرآن پاک نے اس طرح ذکرکیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’اے ہمارے رب! مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو (بخش دے)اور سب مسلمانوں کو(بخش دے)، جس دن حساب قائم ہوگا۔‘‘(سورہ ابراہیم) ۔ ماں باپ کے انتقال کے بعدبھی ان کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوق کی ادائیگی کا اہتمام کرنا چاہیے۔ جس کی کئی صورتوں میں سے ایک دعائے مغفرت کرنابھی شامل ہے جس سے ان کے درجات بلند ہوتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ بے شک اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندے کا درجہ جنت میں بلند فرما دیتا ہے تو وہ بندہ عرض کرتا ہے کہ’’ اے میرے رب! یہ درجہ مجھے کہاں سے ملا ہے ؟ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوتا ہے کہ ،’’تیری اولاد کی دعائے مغفرت کی بدولت (تْجھے یہ بلند درجہ دیا گیا ہے)۔‘‘(مسائل اربعین) ۔ ایک اورحدیث شریف میں ہے کہ ماں باپ کے لیے دعائے مغفرت کرناان کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں ’’رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے تمام اعمال کاسلسلہ ختم ہو جاتا ہے،لیکن تین چیزوں کا نفع اس کو(مرنے کے بعدبھی) پہنچتا رہتا ہے۔۱۔ صدقہ جاریہ، ۲۔ایسا علم جس سے لوگ نفع حاصل کرتے ہوں، ۳۔نیک اولاد جو اس کے لیے دعائے مغفرت ورحمت کرتی ہو۔حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ’’جو نیک اولاد اپنے ماں باپ کے چہرے کی طرف رحمت (اورمحبت) سے ایک نظر دیکھ لے تو اللہ تعالیٰ (اس کے نامہ اعمال میں ) ایک حج مقبول کا ثواب لکھ دیتا ہے۔صحابہ کرام نے عرض کیا ،اگر وہ ہر روز سو بار دیکھے تو؟ آپ ﷺ نے فرمایا ، اللہ سب سے بڑا ہے اور(اس کی ذات ) بہت پاک ہے ،(یعنی اس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں،وہ سوحج کاثواب بھی عطافرمائے گا۔‘‘(مشکوٰۃ ،البیہقی فی الشعب )۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ،’’ جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کی عمر دراز کرے اور اس کے رزق میں اضافہ فرمائے تو اسے چاہیے کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرے اور (اپنے رشتہ داروں کے ساتھ) صلہ رحمی کرے۔ ‘‘(الحدیث)۔ ایک اور اہم بات یہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اولاد پر اپنے بیوی بچوں کی طرح اپنے بوڑھے ماں باپ کی خدمت اور کفالت اور ان کی ضروریاتِ زندگی (کھاناپینا،لباس، علاج )کو پورا کرنا بھی اولادپر فرض ہے ،اس کے ساتھ اْن کی ضروریات کے مطابق مخصوص رقم ہرمہینے اْن کوپیش کی جائے تا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق خرچ کر سکیں۔ حضور سید عالم ﷺ نے والدین کی خدمت و اطاعت کو جہاد ایسی عظیم عبادت وسعادت پر بھی ترجیح دی۔ حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ کے پاس جہاد میں شریک ہونے کی غرض سے حاضر ہواتو نبی کریم ﷺ نے اس سے پوچھا کہ کیا تمہارے ماں با پ زندہ ہیں؟ ‘‘اس نے کہا ،’’ جی ہاں، زندہ ہیں۔‘‘ آپ ?نے فرمایا،’’جاؤ اور اپنے والدین کی خدمت کرو، یہی تمہار اجہاد ہے۔‘‘(سنن ابن ماجہ،مشکوٰہ المصابیح) ۔ اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک اوراچھانیکی کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ بھی فرمایا کہ میرا اور اپنے والدین کا شکر ادا کرو۔ والدین کے حقوق ادا کرنادر حقیقت اللہ کی تابعداری ہے، پس اس لحاظ سے ان کی خدمت اللہ تعالیٰ کی خدمت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی باپ کی خوشنودی میں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں مضمرہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ’’وہ شخص ذلیل ورسوا ہوا ،وہ شخص ذلیل ورسوا ہوا ،وہ شخص ذلیل و رسوا ہوا ۔ عرض کیا،کون یارسول اللہ ﷺ؟آپ ﷺنے فرمایا،’’جس نے اپنے ماں باپ میں دونوں یا کسی ایک کو بڑھاپے میں پایا اور پھر (اْن کی خدمت نہ کر کے) دخولِ جنت کا حق دار نہ بن سکا۔ ‘‘(مسلم، مشکوٰۃ)۔ ماں باپ کی خدمت کاثواب جہاد سے بھی بڑھ کر ہے اوراس کااجروثواب حج اور عمرہ کے برابر ہے۔ ماں باپ کے قدموں میں رہنا جنت کی طرف پہنچاتا ہے، اس سے عمراوررزق میں اضافہ ،عبادات اور دعائیں اللہ پاک کی بارگاہ میں ضرورقبول ہوتی ہیں۔ماں باپ کی نافرمانی کرنایا اْنہیں اَذیت وتکلیف دینا گناہِ کبیرہ اور بہت بڑی محرومی ہے۔ماں باپ کے نافرمان کا کوئی عمل مقبول نہیں ہوتااور موت سے پہلے ہی اْسے دنیا میں ذلت و رسوائی اور اپنے کئے کی سزاملتی ہے۔والدین کے حقوق کی ادائیگی کواس طرح ممکن بنایاجاسکتاہے کہ والدین کے ہر نیک حکم کی تعمیل کی جائے۔ اْن کے سامنے اونچی آواز میں بات نہ کی جائے۔ اْن کے آرام وسکون اور خوشیوں کا خیال رکھا جائے۔والدین کا تذکرہ ہمیشہ اچھے الفاظ میں کیاجائے۔

میرے ابو جان انتہائی نرم طبعیت کے مالک اور بہت زیادہ محبت و شفقت کرنے والے تھے وہ ہر بات پیار سے سمجھاتے تھے لیکن ضرورت پڑنے پر سختی بھی برتتے تھے لیکن بہت کم ۔ میں گھر میں سب سے چھوٹا ہوں اس لیے سب کا لاڈلا اور ان کی توجہ کا محور میں ہی تھا ۔ ابو جان مجھ سے بہت محبت کرتے تھے کبھی کسی چیز کی کمی نہیں آنے دی تھی ضرورت سے بڑھ کر پیار کرتے تھے۔ مجھے شہزادوں کی طرح پالا تھا اور ہمیشہ میرے مستقبل کا سوچتے رہے ۔ آخری سانسوں تک ہمارے باپ کا ہم پر اختیار رہا۔ اتنے بڑے ہونے کے باوجود کبھی ابو جان کو یہ احساس نہیں ہونے دیا تھا کہ ہم بڑے ہو گئے ہیں یا ان کی اہمیت کم ہو گئی ہے۔ وہ جب تک زندہ رہے میں خود کمانے کے باوجود اپنا خرچہ ان سے مانگتا تھا۔ رات کو کہیں جانے کو پروگرام ہوتا تو پہلے کتنی دیر ابو کی منتیں کرتا تھا کہ جانے دیں جلدی آ جاؤں گا اور کبھی کبھی تو ماں کی سفارش کروانی پڑتی تھی اور یہ سب کرنا مجھے بھی اچھا لگتا تھا. ابو جان جب تک زندہ رہے تمام گھریلو اور کاروباری معاملات ان کے ہی اختیار میں رہے وہ ہمیشہ ہمارے مستقبل کا سوچتے تھے ۔طبعیت خراب ہونے کے بعد چار دن زندہ رہے ۔ جب بھی بات کرتے تو یہی کہتے بیٹا تنگ نہ ہونا میرے اختیار میں کچھ نہیں ہے ۔ بس کچھ دنوں تک ٹھیک ہو جاؤں گا اور ہم زاروقطار روتے جاتے تھے ۔ اس کے بعد ابو کو بھر پور خدمت کا یقین دلا کر خدمت جاری رکھتے تھے۔ طبعیت اتنی زیادہ خراب بھی نہیں تھی لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا ہے ۔ جس دن اللہ کو پیارے ہوئے تو سارا دن استغفار کا ورد کرتے رہے اور شام کو مغرب کی اذان کے بعد ہمیں روتا ہوا چھوڑ کر جہان فانی سے کوچ کر گئے ۔ ہماری زندگی میں ہماری آنکھوں سے ایک آنسو نکلنے پر تڑپ اٹھنے والے ہزاروں آنسو نکلنے پر بھی خاموش لیٹے رہے۔

ان کی نماز جنازہ ضلع ساہیوال کے امیر سلیم شاکر صاحب نے خود پڑھائی ۔ ان کی نماز جنازہ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ اس کی وجہ ان کا ہر ایک سے پیار و محبت والا رویہ تھا ۔ ہر شخص روتا ہوا نظر آیا لیکن کوئی کچھ کر نہں سکتا تھا ۔ اس لیے مجبوراً صبر کرنا پڑا۔ دعا کریں اللہ مجھے بھی ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ وہ میرے لیے اتنا کچھ کر گئے ہیں، اللہ مجھے بھی ان کے لئے کچھ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ پاک میرے بابا کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرماے آمین۔
عزیز رکھتا تھا وہ مجھے دل و جاں سے
میرا باپ کم نا تھا میری ماں سے


شیئر کریں: