Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

عام آدمی کی خبرگیری ………..محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

خیبر پختونخوا حکومت نے جاتے جاتے کچھ کام ایسے شروع کئے ہیں جن سے اکثریتی آبادی سے تعلق رکھنے والے ان لوگوں کو فائدہ ہوگا جسے پاکستان کی سیاسی زبان میں عام آدمی کہا جاتا ہے۔ جس کی آبادی ہمارے ملک کی مجموعی آبادی کا نصف سے زیادہ ہے۔ اور معاشیات کی زبان میں اگر ان کا تعارف کرایا جائے تو انہیں غربت کی لکیر سے نیچے کی سطح پر زندگی گذارنے والے لوگ کہا جاسکتا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں جب بھی بجٹ پیش کرتی ہیں تو یہ دعویٰ ضرور کرتی ہیں کہ حکومت نے آمدنی بڑھانے کے لئے جو ٹیکس لگائے ہیں اس سے ’’ عام آدمی‘‘ متاثر نہیں ہوگا اور ترقیاتی بجٹ کی بدولت عام آدمی کا معیار زندگی بہتر ہوگا۔ لیکن ہر بجٹ کا فائدہ ہمیشہ بڑے جاگیر داروں، سرمایہ داروں، صنعت کاروں ، تاجروں، برآمدکنندگان ، بینکاروں ، بڑے ٹرانسپورٹروں اور موٹی موٹی تنخواہیں لینے والے لوگوں کو ہی پہنچا ہے۔ بدقسمت عام آدمی 1947میں بھی عام تھا۔آج 2018میں بھی اس کا مقام، حیثیت اور معیار زندگی تبدیل نہیں ہوا۔ہر بجٹ میں محنت کشوں کے لئے کم سے کم اجرت کا تعین کیا جاتا ہے لیکن اس قانون پر کس حد تک عمل درآمد ہوتا ہے اس کا جائزہ لینے اور فیصلوں پر عمل درآمد کرانے کی کسی حکومت کو توفیق نہیں ہوئی۔ خیبر پختونخوا حکومت نے بھی وفاق کی تقلید کرتے ہوئے مزدور کی کم سے کم اجرت پندرہ ہزار روپے ماہوار مقرر کی تھی۔ لیکن کارخانے داروں، بھٹہ خشت مالکان، جاگیر داروں اور سرمایہ داروں سے اس قانون پر عمل درآمد کرانے کی ضرورت ماضی میں کبھی محسوس نہیں کی گئی۔ اس بار صوبائی حکومت نے اپنے قول کو سچ ثابت کرنے کی ٹھان لی ہے۔محکمہ محنت نے کم سے کم اجرت کے قانون پر عمل درآمد کے لئے چار ہزار کے قریب یونٹوں کا معائنہ کیا۔ جن میں فیکٹریاں، بھٹے، بیکریاں ، سٹورز ، تندور، نجی میڈیکل سینٹرز، سیکورٹی ایجنسیاں، موبائل کمپنیاں وغیرہ شامل ہیں۔ اور چھ سو سے زیادہ یونٹوں کے خلاف قانون کی خلاف ورزی پر مقدمات درج کئے گئے۔تاہم کچھ ادارے اب بھی حکومت کی توجہ حاصل نہیں کرسکے۔ یا کسی مصلحت کے تحت ان پر ہاتھ نہیں ڈالا جارہا۔ ایسے ہی اداروں میں میڈیا ہاوسز اورپرائیویٹ سکولز بھی شامل ہیں۔ جن میں کام کرنے والے محنت کشوں کو کم سے کم اجرت بھی نہیں ملتی۔ وہ برسوں سے کنٹریکٹ پر کام کرتے ہیں۔ سرکاری سکولوں کے میٹرک یا ایف سے پاس پرائمری ٹیچرز کو کم سے کم تیس ہزار روپے تنخواہ دی جاتی ہے اس کے باوجود وہ آئے روز احتجاج اور ہڑتالیں کرتے ہیں جبکہ پرائیویٹ سکولوں کی ڈبل ایم اے ، ایم ایس سی پاس اساتذہ کو آٹھ سے دس ہزار روپے اجرت دی جاتی ہے اور انہیں احتجاج کرنے کا حق بھی حاصل نہیں۔تاہم محکمہ صنعت نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ مالی سال کے اختتام سے پہلے پورے صوبے میں کم سے کم اجرت کے قانون پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے گا۔صوبائی حکومت نے جامع مساجد کے آئمہ کرام کے لئے ماہانہ دس ہزار روپے وظیفے کی منظوری دی ہے جس سے دین کی خدمت کرنے والے ہزاروں افراد مستفید ہوں گے۔ اس پروگرام پر سالانہ تین ارب روپے سے زیادہ خرچ ہوں گے۔ جس میں سے ایک روپیہ بھی کمیشن میں نہیں جائے گا۔ براہ راست عوام مستفید ہوں گے۔ صوبائی حکومت نے ادیبوں، شاعروں، ہنرمندوں، لوگ فن کاروں اور قلم کاروں کے لئے بھی ماہانہ وظائف کا اجراء کیا ہے۔ صوبہ بھر میں پانچ سو افراد کو ماہانہ تیس ہزار روپے کے حساب سے اعزازیہ دیا جائے گا۔ یہ بھی قومی وسائل میں عام لوگوں کو حصہ دینےکی مستحسن کوشش ہے ۔ پشاور بس ٹرانزٹ کوبھی عوامی فلاح و بہبود کا میگا پراجیکٹ کہا جاسکتاہے جس سے بسوں، ویگنوں اور سوزوکیوں میں سفر کرنے والے غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کو فائدہ ہوگا۔ اور انہیں پبلک ٹرانسپورٹ کی کھٹارہ گاڑیوں میں غیر انسانی سلوک سے نجات مل جائے گی اور بہترین سفری سہولیات میسر آئیں گی۔ منصوبے پر 56ارب روپے کی لاگت کا تحمینہ ہے۔تین ارب روپے سے شاہراہوں کے ساتھ بنائے گئے فلاور بیڈز ، پھول، پودے، گھاس اور سجاوٹی سامان بی آر ٹی کی وجہ سے بیکار ہوگئے اور باب پشاور کے نام سے فیز تھری چوک میں جو فلائی اوورپانچ چھ ارب روپے کی لاگت سے بنایا گیا تھا وہ بھی بی آر ٹی فنکشنل ہونے کے بعد بیکار ہوگا اس طرح منصوبے پراصل لاگت 65ارب روپے بھی تجاوز کرجائے گی۔ تاہم یہ بات قابل اطمینان ہے۔ کہ یہ منصوبہ عام آدمی کی فلاح و بہبود کے لئے شروع کیا گیا ہے۔ہمارے حکمران عوام کو گروی رکھ کر اربوں ڈالر کا قرضہ مختلف ممالک اور مالیاتی اداروں سے بھاری کمیشن کے عوض لے چکے ہیں۔ اور یہ قرضہ عوام بھاری شرح سود کے ساتھ ناقابل برداشت ٹیکسوں کی صورت میں ادا کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان کا ہر شہری مقروض ہے۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ان قرضوں سے عام آدمی کو سہولت پہنچانے کا کوئی منصوبہ نہیں بنایاگیا۔اب حکومت قرضہ لے کر عوام پر خرچ کر رہی ہے تو اس کی ستائش تو بنتی ہے۔


شیئر کریں: