Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

کھوار زبان کا مستقبل………….تحریر:محمد علی مجاہد

Posted on
شیئر کریں:

کھوار زبان چترال ، غذر،سوات اور نورستان تک بولی جاتی ہے۔ماہرین لسانیات کے مطابق کھوار زبان کو اُن قدیم آریاؤں کا زبان خیال کیا جاتا ہے جو آج سے کئی ہزار سال قبل وسط ایشائی ممالک سے ہجرت کرکے آئے تھے۔آج کھوار زبان میں سنسکرت، فارسی، ترکی اور ہند آریائی زبانوں کے الفاظ بھی شامل ہیں۔
ماہرین لسانیات نے کھوار زبان کو دردی زبانوں میں شامل کیا ہے۔کھوار زبان ہند آریائی زبانوں کی ایک شاخ ہے ارومچی کے ایک ثقافتی مطالعے کے ادارے نے چین کے اندر بولی جانے والی قدیم وسط ایشیائی زبانوں پر ایک رپورٹ شائع کی ہے اس رپورٹ کے مطابق صوبہ سنکیانگ کے مختلف حصوں میں کھوار سریقولی، فارسی، شینا اور دیگر وسط ایشیائی زبانوں کو ملا کر تاجک گروپ میں شامل کیا گیا ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق کاشغر، یارقند ، پامیر ، واخان، بدخشان اور نورستان میں دو ہزار کنبے کھوار بولنے والے آباد ہیں۔بعض دیہات میں ان کی آباد ی منتشر ہے اور بعض دیہات میں ایک ہی بستی کے اندر رہتے ہیں۔تغاغ، تھونگ برانگ اور سنکیانگ میں بھی کھوار بولنے والے الگ الگ بستیوں میں آباد ہیں ۔ کھوار نورستان میں ثانوی زبان کے طور پر بولی اور سمجھی جاتی ہے۔اس طرح ضلع غذر اور چترال کی کھوار زبان جہاں ان علاقوں میں وسطی ایشیاء کی قدیم تہذیبی لسانیت کی یاد گار ہے۔وہاں کھوار کو ترکستان اور افغانستان میں چترال و گلگت بلتستان کے ساتھ ساتھ ان ممالک کی تاریخی روابط میں ایک زندہ علامت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔
چترال میں کھوار زبان و ادب کی ترویج کے لئے ابتدائی طور پر کام کرنے والوں میں شہزادہ محمد ناصرالملک، غلام مرتضیٰ اور سابق گورنر دروس محمد حسام الملک کے نام قابل ذکر ہیں۔قرآن مجید کو کھوار زبان میں ترجمہ کرنے کا اعزاز بھی سب سے پہلے شہزادہ محمد حسام الملک کو حاصل ہوا ہے لیکن شائع نہ ہو سکا بعد ازاں ماضی قریب میں پارلیمنٹ ہاؤس کے امام قاری بزرگ شاہ الازہری نے قرآن مجید کو مکمل کھوار زبان میں ترجمہ کر کے شائع کیا۔
ستمبر 1965میں جب ریڈیو پاکستان پشاور میں ہفتہ وار کھوار پروگرام شروع ہوا تو پروفیسر اسرار الدین ، ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ، مولا نگاہ، یوسف شہزاد اور گل نواز خان خاکی جیسے اہل علم میدان ادب میں کود پڑے ۔غذر میں کھوار زبان کی ترقی و ترویج کے حوالے سے قدیم شاعر آمان کے بعد شاعر و گلو کار رحمت علی ، ممتاز علی انداز ،جاوید حیات کاکا خیل اور شمس الحق نوازش غذری کی کوششیں قابل تعریف ہیں۔کھوار زبان کو بیرونی دنیا خصوصاً مغرب میں متعارف کرانے میں جن مصنفین نے کام کیا ان میں سر جان بڈلف، گیریئرسن، ڈی جے اوبرین ، پروفیسر جارج مارگین اسٹین اور کرنیل ڈیوڈسن کے نام قابل ذکر ہیں۔کھوار زبان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کے قدیم شعرا کی فہرست میں ایک درجن سے زائد خواتین شعرا شامل ہیں مثلاًلوک جور۔۔۔۔ ماں کی طرف سے بیٹی کی رخصتی کے دوران رقت انگیز گیت ہے۔
نان دوشی۔۔۔۔۔۔ بیٹی کی دنیا سے رحلت پر ماں کا غمناک مرثیہ ہے ، ڈوک یخدیر۔۔۔۔۔/بیوی کی طرف سے) شوہر کی جدائی کے دوران اظہار محبت ہے، بیگال۔۔۔۔۔بیٹے کی ہلاکت پر ماں کی طرف سے انتہائی افسردہ کلام ہے۔

تاریخ کا مطالعہ ہمیں بتاتی ہے کہ عربوں اور انگریزوں نے حیرت انگریز ترقی کے لئے زبان کو استعمال کیا ۔ دسویں صدی عیسوی سے تیرھویں صدی عیسوی تک دنیا میں علم و ادب کا جو بھی دروازہ کھلتا تھا تو سامنے عرب نظر آتا تھا ۔ عربوں کو علمی میدان میں ترقی تراجم کے ذریعے حاصل ہوئی عربوں کے بعد انگریزوں نے اس کلیہ کو اپنایا ، اٹھارویں صدی میں جرمن اور فرانس میں کوئی کتاب رات کو شائع ہوتی تو صبح برطانیہ میں اس کے ترجمے کا آغاز ہوتا تھا۔اس طرح دنیا جہاں کا علمی سرمایہ انگریزی میں منتقل ہوا اور ترقی کے دروازے ان پر کھل گئے۔لیکن اس کے برعکس ہماری “زبان دوستی”اور علم دوست پالیسیوں نے اس ملک میں ادب ، فکر اور علم کو معیار بننے دیا اور نہ ہی مفکر، عالم اور ادیب کو ہیرو ۔۔۔۔۔۔۔!ہمارے ہاں زبان و ادب کے نام سے ثقافتی اسٹیج شو پر تو لاکھوں روپے بہائے جاتے ہیں لیکن زبا ن و ادب پر تخلیقی کام کرنے اور دانشوروں کے تخلیقی مواد کو منظر عام پر لانے کے لئے کہیں ادارہ موجود ہے اور نہ ہی اس علمی کام کے لئے کہیں فنڈ مختص۔۔۔۔۔دنیا کی ہر مادری زبان انسان کو ہمیشہ محبت کا درس دیتی ہے مادری زبان ماں جیسی ہوتی ہے ۔ کے پی کے گورنمنٹ نے صوبہ خیبر پختونخواہ میں جن مادری زبانوں کو نصاب تعلیم میں شامل کر لیا ہے خوش قسمتی سے ان میں کھوار زبان بھی شامل ہے جو چترال میں اس وقت چوتھی جماعت تک رائج ہے

 

یہاں انتہائی قابل ذکر اور خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت نے بھی اس سال گلگت بلتستان کے مقامی زبانوں کو نصاب میں شامل کرنے کی منظوری دے دی ہے یہ موجودہ صوبائی حکومت اور وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کی علم دوستی اور مقامی زبانوں سے ان کی دلی ہمدردی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔یہ انتہائی پیچیدہ اور اپنی نوعیت کا حساس کام جی بی کے نامور شاعر و ادیب اور شینا شاعری میں نئی روح پھونکنے والے ظفر وقار تاج کو سونپا گیاجنہوں نے انتہائی دلجمعی اور بصیرت و حکمت سے اس پیچیدہ عمل کو تقریباً سب کے لئے قابل عمل اور قابل قبول بنا دیا ۔ظفر وقار کی ذاتی کاوشوں اور کوششوں کے نتیجے میں جی بی کے تین زبانوں( شینا، وخی اور بروشسکی) کے ماہرین ان زبانوں کے مخصوص اصوات کے لئے ایک جیسے حروف تہجی کے انتخاب میں متفق ہو گئے البتہ بلتی اور کھوار زبان کے ماہرین مذکورہ زبانوں کے مخصوص اصوات کے لئے مختص حروف تہجی کو اپنانے سے قاصر رہے۔وجہ اس کی یہ ہے کہ ان دونوں زبانوں میں انتہائی قابل ذکر اور خاطر خواہ کام ہوا ہے۔بلتی زبان کا قاعدہ کافی پہلے مرتب ہوا ہے بلتی زبان کے ماہرین کا خیال ہے کہ وہ بلتی زبان میں ترقی کے اس تسلسل کو آگے بڑھائیں گے لیکن کھوار زبان شومئی قسمت سے اس وقت بڑی اور کڑی آزمائش کا شکار ہے۔جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہے کھوار زبان کے حروف تہجی کھوار کے مخصوص اضافی اصوات اور کھوار کے حروف علت پر مشتمل قاعدہ 1921ء میں مہتر چترال شہزادہ ناصر الملک نے مرتب کیا ہے بعد کے آنے والے کھوار کے تمام لکھاریوں نے مذکورہ قاعدہ کو بنیاد بنا کر کھوار کے تحریری عمل کو آگے بڑھایا ہے، اسی قاعدہ کی بنیاد پر قرآن مجید کا ترجمہ ، قرآن مجید کی تفسیر ، سیرت نبویؐ کھوارناول، کھوار سے انگلش اور کھوار سے اردو لغات کے علاوہ نثر اور شاعری میں چھ سو سے زائد کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔جبکہ ڈھائی سو کتابیں زیر طبع ہیں۔2005میں کھوار زبان “یونی کوڈ”میں رجسٹرڈ ہوئی ہے اور اس وقت کھوار زبان کی “Key Board” مارکیٹ میں دستیاب ہے۔

اگر آج کسی فرد واحد کی اس رائے کو اہمیت دی جائے کہ گلگت بلتستان میں کھوار زبان کے مخصوص اصوات کے لئے کھوار کے 1921ء کے مرتب کردہ قاعدہ سے یکسر مختلف ایک نوزائیدہ قاعدہ ترتیب دیا جائے تو اس قسم کی دستورالعمل کو دنیا کا ایک عجوبہ عمل تصور کیا جائیگا کیونکہ چترال اور غذر کی نسبت سے ایک ہی زبان کے لئے دو الگ الگ قاعدے مرتب کرنے کی صورت میں کھوار زبان تقسیم ہوگی اور تقسیم کا یہ عمل کھوار زبان کا “بٹوارا” نہیں بلکہ کھوار زبان کی ہلاکت کا سبب بنے گا۔دنیا کی دس ہزار سالہ تاریخ میں آج تک کوئی مائی کا لال یہ ثابت نہیں کر سکا کہ زبانیں بھی سرحدی حدود و قیود کے پابند ہوتی ہیں۔

یہاں سوال کا اصل پہلو یہ ہے کہ آخر کار کھوار زبان کی عمل تقسیم کے پس منظر میں وہ کونسی محرکات اور مشکلات ہیں جن سے چھٹکارا پانے کا پہلا اور آخری حل کھوار زبان کی تقسیم ہے ۔ کھوار زبان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس زبان میں باقاعدہ تحریری عمل کا آغاز آج سے تین سو سال پہلے ہوا۔کھوار کے مایہ ناز شاعر اتالیق محمد شکور غریب کے فارسی اور کھوار کلام کے مجموعے کتابی صورت میں اس دعوے کی واضح ثبوت کے لئے مستند دلیل کے طور پر موجود ہیں ، کھوار قاعدہ وجود میں آئے ہوئے ایک صدی مکمل ہو چکی ہے۔ آج کھوار زبان کیلئے سِرے سے ’’نیا قاعدہ ‘‘کا نظریہ پیش کرنے والے کھوار زبا ن کی سو سالہ تحریری اور تخلیقی عمل کو پیوند خاک کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔
ا ب یہ نہیں معلوم کہ نئے قاعدے کی ضرورت کے فلسفہ کے پس منظر میں کس کی “انا” کو تحفظ ملتا ہے یا کس کی خواہش کو تسکین ۔۔۔۔۔ البتہ یہ بات صاف ظاہر ہے کہ آج نئے قاعدے کی سوچ کو جنم دینے والے کھوار زبان کی تباہی و بربادی کے درپے ہیں لہٰذا کھوار کے بہی خواہوں سے اپیل ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور کھوار زبان کی تابناک مستقبل اور اس کی ترقی و ترویج کے لئے مشترکہ لائحہ عمل طے کریں ورنہ وہ دن دور نہیں کھوار زبان کسی نہ کسی دن کسی فرد واحد کے خواہشات کے چھری تلے قربانی کا بکرا بنے گا۔


شیئر کریں: