Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دیوانی مقدمات کو ایک سال کے اندر نمٹانے کیلئے ترمیم کے ساتھ متعدد بلوں کی منظوری دیدی گئی

شیئر کریں:

پشاور ( چترال ٹائمز رپورٹ )وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک کی زیر صدارت آج صوبائی کابینہ کا اجلاس منعقد ہوا۔کابینہ نے دیوانی مقدمات کو ایک سال کے اندر اندر نمٹانے کیلئے سول پروسیجر کوڈ میں ترامیم کی منظوری دید ی ہے۔دیوانی مقدمات فیصلہ ہونے میں کئی دہائیوں کا عرصہ لگ جاتا تھا۔یہ پی ٹی آئی حکومت کا یک اور انقلابی اقدام ہے جس سے عوام کوجلد از جلد انصاف کی فراہمی یقینی ہوگی۔ واضح رہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے ان ترامیم کی پہلے سے توثیق کر دی ہے۔ ترامیم کے مطابق وکلاء کی حاضری یقینی بنانے کیلئے متعین تاریخین دی جائیں گی۔60دن میں عدالت دعویٰ و جواب دعویٰ کا مرحلہ مکمل کرے گی اور متفرق درخواستوں پر عدالت کا فیصلہ قابل اپیل و قابل واپسی نہیں ہوگا۔ ماسوائے مقدمے کی از سر نو سماعت کی صورت میں متفرق درخواستوں کو نمٹانے کیلئے بھی60دن کی معیاد مقرر کی گئی ہے۔علاوہ ازیں دستاویزات کی تفتیش اور معائنے کیلئے 30دن مقر کئے گئے ہیں۔ عدالت چاہے توسمری مقدمہ سنا سکتی ہے۔ٹرائل کے مرحلے میں 7دن کے اندر مقدمے کی حدود کا تعین کیا جائے گا اور عدالت روزانہ سماعت کی بنیاد پر ایک سال میں مقدمے کا فیصلہ سنائے گی۔مزید برآں جو فریق مقدمے کی پیروی اور عدالت کے احکامات ماننے میں ناکام ہوگا۔ عدالت اس پر جرمانہ عائد کر سکے گی۔اپیلٹ عدالت کو اپیلٹ مرحلے میں اضافی شہادت ریکارڈ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ اس سے قبل اپیلٹ عدالت مقدمہ سماعت یا ریکارڈ کرنے کیلئے ماتحت عدالت بھیجتی تھی۔ سول عدالتیں اور اپیلٹ عدالتیں15دن میں فیصلہ سنائے گی۔ اس سے قبل فیصلہ سنانے کیلئے مدت کا تعین نہیں تھا۔ عدالت کے فیصلہ من و عن عمل درآمد کرانے کیلئے عدالت کا فیصلہ نہ ماننے والے فریق کا شناختی کارڈ بھی بلاک کر دیا جائیگا۔کابینہ نے سٹون کرشنگ کیلئے غیر لائسنس یافتہ سٹون کرشرز کو لائسنس کے اجراء کیلئے کابینہ کی سب کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں ترمیم کی منظوری دیدی۔

صوبائی کابینہ نے ڈسٹرکٹ گورنمنٹ چارسدہ کے بجٹ2017-18ء اور سالانہ ترقیاتی پروگرام ڈسٹرکٹ کونسل چارسدہ کی منظوری دیدی ہے۔واضح رہے کہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ2013ء کے سیکشن(4) 35 کے تحت اگر ایک لوکل کونسل بوجوہ مالی سال کے آغاز سے قبل بجٹ منظور نہ کرا سکی تو حکومت بجٹ کی تیاری و منظوری کی مجاز ہوگی۔

صوبائی کابینہ نے صوبے میں تین نئی یونیورسٹیوں کے قیام کی منظوری دیدی ہے جن میں یونیورسٹی آف لکی مروت، یونیورسٹی آف ایگریکلچر ڈیرہ اسماعیل خان اور یونیورسٹی آف انجیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی مردان شامل ہیں۔کابینہ نے اس سلسلے میں یونیورسٹیز ترمیمی بل2017ء کی منظوری دیدی ہے۔

صوبائی کابینہ نے لوکل گورنمنٹ چوتھے ترمیمی بل2017ء کی منظوری دیدی۔واضح رہے کہ حکومت نے نئے ضلعی کولائی پالاس کوہستان اور 14نئی تحصیلوں جن میں تحصیل رستم مردان، لوئر تناول اور لورا یبٹ آباد، بفہ پخال اور دربند مانسہرہ، خان پور ہری پور،لارجم اور شرینگل دیر اپر، کاکی بنوں، چکیسر شانگلہ، ملخو تور خو اور دروش چترال، بائیزئی ملاکنڈ اور گمبٹ ضلع کوہاٹ شامل ہیں۔ ان پر عمل درآمد کیلئے لوکل گورنمنٹ کے ایکٹ میں ترمیم ضروری تھی جس کی کابینہ نے منظوری دیدی۔

صوبائی کابینہ نے ایکٹ کے ذریعے خیبر پختونخوا ہائیڈل ڈویلپمنٹ فنڈ آرڈیننس2001ء میں مجوزہ ترامیم کی منظوری دیدی ہے۔ترامیم کا مقصد ہائیڈل پاور کے علاوہ دیگر توانائی کے قدرتی وسائل سے استفادہ کرنا ہے جن میں شمسی توانائی، کوئلہ، تھرمل اور windکے توانائی کے وسائل سے بجلی پیدا کرنا شامل ہیں۔علاوہ ازیں آئل و گیس کی پیداوار کو بھی مذکورہ فنڈ سے ترقی دینا بھی ترامیم کا حصہ ہیں۔ ان ترامیم کے ذریعے آئل و گیس کی رائلٹی گیس پر ایکسائز ڈیوٹی،ونڈ فال لیوی، الیکٹریسٹی ڈیوٹی، آئل پر ایکسائز ڈیوٹی سے حاصل شدہ رقم بھی ہائیڈل ڈویلپمنٹ فنڈ کا حصہ ہوگی۔ تمام فنڈز کو یکجا کرنے سے توانائی کے تمام پراجیکٹس کی تکمیل یقینی بنائی جا سکے گی۔آئندہ بجٹ میں بجلی کے خالص منافع کی حد سے بھی ہائیڈل ڈویولپمنٹ کیلئے فنڈز فراہم کئے جا سکیں گے۔

صوبائی کابینہ نے خیبر پختونخوا Evacuee ٹرسٹ پراپرٹیز ’’اپیل و نظرثانی‘‘ رولز2017ء کی منظوری دیدی۔ واضح رہے کہ 18ویں ترمیم کے تناظر میں کنکرنٹ کے خاتمے کی صورت میں اقلیتی امور صوبوں کو تفویض کر دیے گئے تھے۔صوبے کو تفویض شدہ اختیارات کو باقاعدہ بنانے کیلئے صوبائی اسمبلی نے اس سلسلے میں ’’ خیبر پختونخوا کمیونل پراپرٹیز آف مائینارٹیز ایکٹ2014ء پاس کیا۔اس ایکٹ کے سیکشن۔27 کے تحت رولز بنانا ضروری تھے۔ یہ رولز صوبائی کابینہ کی منظوری کیلئے پیش کئے گئے جس کی کابینہ نے آج منظوری دی۔یہ رولز ’’خیبر پختونخواایوکیو ٹرسٹ پراپرٹیزاپیل و نظرثانی‘‘ رولز2017ء کہلائیں گے۔صوبائی کابینہ نے پاور آف اٹارنی ایکٹ1882ء ترمیمی بل کی منظوری دیدی ہے۔ یہ بل خیبر پختونخوا پاور آف اٹارنی ترمیمی بل2017ء کہلائے گا۔ واضح رہے کہ پاور آف اٹارنی دینے کا اختیار18ویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کو تفویض کر دیا گیا ہے۔

صوبائی کابینہ نے عوام کا معیار زندگی بلند کرنے کیلئے عوامی فلاحی منصوبوں کی تکمیل کیلئے21000ملین روپے کی سپلیمنٹری گرانٹ کی منظوری دیدی ہے۔ اس سلسلے میں مختلف محکموں نے منصوبہ و ترقیات کے محکمے کو اپنی ڈیمانڈ بھجوائی تھیں جس کی وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے منظوری دیتے ہوئے اسے کابینہ کی منظوری کیلئے پیش کرنے کی ہدایت کی ۔تاہم اضافی فنڈز کی فراہمی فنڈز کی پوزیشن سے مشروط ہوگی۔

صوبائی کابینہ نے سرکاری عمارتوں، پراجیکٹس، اداروں ، شاہراہوں اور سٹریٹس کو مختلف شخصیات کے ناموں سے منسوب کرنے کیلئے وفاقی حکومت کی پہلے سے طے شدہ پالیسی کے تناظر میں صوبائی سطح پر پالیسی بنانے کی منظوری دیدی ہے۔ اس سے قبل صوبائی سطح پر رہنما پالیسی اصول وضع نہیں کئے گھے تھے جس کی وجہ سے ہر کوئی سرکاری اثاثوں کو اپنی مرضی سے کسی شخصیت کے نام سے منسوب کر دیتا تھا۔

رہنما پالیسی اصول کے چیدہ چیدہ نکات یہ ہیں؛
کوئی ادارہ، شاہرہ یا گلی کسی سرکاری افسر یا عوامی نماندے کے نام سے منسوب نہیں کی جائے گی جو بقید حیات ہو۔کوئی ادارہ سرکاری و نیم سرکاری کسی غیر پاکستانی کے نام سے اس وقت تک منسوب نہیں کی جائیگی جب تک اس کی وفاقی حکومت سے منظوری نہ لی گئی ہو۔ادارے اور پراجیکٹس جیسے پل، عمارات، شہراہیں، گلیاں وغیرہ درج ذیل شخصیات کے ناموں سے منسوب کی جا سکتی ہیں۔بانی پاکستان یا وہ شخصیات جنہوں نے تحریک آزادی اور قیام پاکستان میں صف اول کے رہنما کے طور پر کردار ادا کیا ہو۔قومی و صوبائی شخصیات جن کی قوم کیلئے بے مثال خدمات ہوں اور وہ اس جہان فانی سے کوچ کر گئے ہوں۔وہ ہیرو جنہوں نے ملک کے دفاع اور ڈیوٹی کی انجام دہی میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہو۔آوٹ،کلچر کے اداروں کو قومی و صوبائی سطح کے مایہ ناز فنکاروں کے نام سے منسوب کیا جاسکتا ہے۔یہ اصول سپورٹس، آرکیالوجی، میوزیم، تعلیمی اداروں،لائبریریز، سائنسی اور تکنیکی اداروں کیلئے بھی ہے۔بڑ ے خیراتی ادارے تعمیر کرنے والے۔پاکستان دوست غیر ملکی سربراہان مملکت مذکورہ بالا شرائط پر پورا اترنے کیلئے نام منسوب کرنے کیلئے ایک باقاعدہ شفاف طریقہ کار بھی وضع کیا گیا ہے جبکہ پہلے سے منسوب شدہ ناموں کا جائزہ لینے کیلئے ایڈیشنل چیف سیکرٹری کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ مزکورہ بالا طریقہ کار کے مطابق اگر کوئی سرکاری عمارت وغیرہ کسی کے نام منسوب کر دی جائے اسے کسی صورت تبدیل نہیں کیا جا سکے گا۔


شیئر کریں: