Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

شعبہ صحت میں مزید اصلاحات کی ضرورت ………. محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

محکمہ صحت خیبر پختونخوا کی طرف سے فراہم کردہ فہرست پر چیف سیکرٹری نے صوبے بھر کے سرکاری اسپتالوں میں تعینات ایک ہزار ایک سو دس ڈاکٹروں کوسالانہ کارکردگی رپورٹ جمع نہ کرانے پر اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کئے ہیں۔اور انہیں تنبیہ کی ہے کہ فوری طور پر اے سی آر جمع نہیں کرائے گئے تو انہیں نوکریوں سے برطرف کیا جاسکتا ہے۔ محکمہ صحت کے مطابق ان میں سے بہت سے ڈاکٹر ڈیوٹیوں سے غیر حاضر ہیں۔ بہت سے ڈاکٹر ایسے ہیں جنہوں نے شہری علاقوں میں کلینک کھول رکھے ہیں اور خوب کمارہے ہیں۔ انہوں نے سرکاری ملازمت کو محض ضمانت کے طور پر رکھا ہوا ہے۔ وہ ترقی نہیں لینا چاہتے تاکہ انہیں اپنا اسٹیشن چھوڑ کر دور دراز علاقوں میں نہ جانا پڑے۔ ڈاکٹروں کی تنظیم نے محکمہ صحت کی طرف سے فراہم کئے گئے اعدادوشمار کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہیلتھ ڈائریکٹوریٹ میں افسروں اور ملازمین کی فوج ظفر موج کے باوجود ڈاکٹروں کی فائلیں طاق نیسان میں پڑی ہوئی ہیں۔ جن ڈاکٹروں کے نام اے سی آر جمع نہ کرانے والوں میں شامل کیا گیا ہے ان میں سے سینکڑوں ڈاکٹرز ترقی کرچکے ہیں۔ کئی ڈاکٹر چھٹی لے کر یا ملازمت چھوڑ کر بیرون ملک چلے گئے ہیں اور کئی ڈاکٹر وفات پاچکے ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گذشتہ آٹھ دس سالوں سے ڈاکٹروں کی فہرست کی تجدید ہی نہیں ہوئی۔محکمہ صحت نے بھی اپنی غلطی تسلیم کرلی ہے۔ اور اسے کلریکل غلطی قرار دے کر ڈاکٹروں کو اے سی آر جمع کرانے کے لئے مزیدایک مہینے کی مہلت دیدی ہے۔صحت ڈائریکٹوریٹ کی طرف سے پرانی اور غلط فہرستوں کی فراہمی کاجرم ڈاکٹروں کی طرف سے اے سی آر جمع نہ کرانے سے زیادہ بڑا اور سنگین ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ محکمہ صحت میں اصلاحات کے اثرات صرف اسپتالوں، ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرامیڈیکس تک محدود ہیں محکمہ صحت کے دیگر اداروں تک ان اصلاحات کے اثرات اب تک نہیں پہنچے۔صوبائی وزیرصحت شہرام ترکئی اور چیف سیکرٹری اعظم خان شعبہ صحت میں اصلاحات کے اثرات کی جانچ پڑتال کریں تو اب بھی بہت سے گھپلوں، بے قاعدگیوں اور بدعنوانیوں کا کھوج لگایا جاسکتا ہے۔اصلاحات کا عمل گذشتہ تین سالوں سے جاری ہے تاہم اب بھی صوبے کے دور دراز علاقوں میں قائم بنیادی صحت مراکز، دیہی صحت مراکز اور ڈسپنسریوں میں ہوکاعالم ہے۔ کوئی ڈاکٹر، نرس، ڈسپنسر ، ابتدائی طبی امداد کی سہولیات وہاں دستیاب نہیں۔ ان صحت مراکز کا اردلی یا چوکیدار ہی ڈاکٹر، نرس اور ڈسپنسر کی ڈیوٹی دے رہا ہوتا ہے۔ حکومت ان طبی مراکز کے لئے کروڑوں روپے کی ادویات خریدتی ہے مگر یہ ادویات دور دراز علاقوں کے صحت مراکز تک پہنچنے سے پہلے راستے میں ہی غائب ہوجاتی ہیں بازاروں میں سرکاری ادویات اسانی سے دستیاب ہیں۔ اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عطائیوں نے علاج کا کاروبار شروع کر رکھا ہے۔ لوگوں کی مجبوری ہے کہ غربت، تنگ دستی اور راستے کی تکالیف کے باعث بڑے اسپتالوں تک نہیں پہنچ پاتے اور انہی عطائیوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔حکومت نے عوام کو ان کے گھر کے قریب علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرنے کے لئے ہزاروں کی تعداد میں ڈاکٹروں، نرسوں ، ڈسپنسروں اور پیرامیڈیکس کی تقرریاں کی ہیں اور ان کی تنخواہوں میں دو سو سے پانچ سو فیصد تک اضافہ بھی کیا ہے۔ اس کے باوجود جو لوگ اپنے پیشے کے تقدس کا خیال نہیں رکھتے۔ ان کی خبر لینا ضروری ہے تاکہ اصلاحات کے ثمرات صوبے کے دور افتادہ علاقوں کے غریب عوام تک پہنچ سکیں۔صحت مراکز میں طبی عملے کی حاضری یقینی بنانے کے لئے بائیو میٹرک سسٹم کی تنصیب ناگزیر ہے تاکہ ہیلتھ ڈائریکٹوریٹ یا محکمہ صحت کے ڈویژنل اور ضلعی دفاتر سے ملی بھگت کے ذریعے جو لوگ ڈیوٹی دیئے بغیر تنخواہیں لے رہے ہیں۔ اور خود اپنے کلینکوں، پرائیویٹ اسپتالوں میں بیٹھ کر موج اڑا رہے ہیں ان کا محاسبہ کیا جاسکے۔ وزیرصحت اور چیف سیکرٹری کو اسپتالوں کے لئے خریدی جانے والی ادویات کی بازاروں میں فروخت اور کمیشن کی خاطر طبی مراکز کے لئے غیر معیاری اور ناقص ادویات کی خریداری کے گھناونے کاروبار کا بھی نوٹس لینا چاہئے۔ تاکہ سرکاری اسپتالوں میں قیمتی انسانی جانوں کی بے توقیری کا تدارک کیا جاسکے۔ اور طب جیسے مقدس پیشے پر عوام کا اعتماد بحال کیا جاسکے۔ جو چند مفاد پرستوں کی وجہ سے متاثر ہوا ہے۔محکمہ صحت نے جن سرکاری طبی اداروں کو بہترین سہولیات کی فراہمی کی خاطر نجی اداروں کے حوالے کیا ہے ان سے بھی ماہوار بنیادوں پر کارکردگی رپورٹ طلب کرنے کے ساتھ ان کا آڈٹ کرنا ضروری ہے تاکہ عوام کو ان کے گھروں کے قریب علاج معالجے کی بہتر سہولیات کی فراہمی کے مقاصد پورے کئے جاسکیں۔


شیئر کریں: